الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
19. بَابُ : صَلاَةِ الْقَاعِدِ فِي النَّافِلَةِ وَذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى أَبِي إِسْحَاقَ فِي ذَلِكَ
19. باب: نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان اور اس سلسلہ میں ابواسحاق سے روایت کرنے والے راویوں کے اختلاف کا بیان۔
Chapter: Sitting while performing voluntary prayers, and mentioning the differences reported from Abu Ishaq regarding that
حدیث نمبر: 1653
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، عن حديث ابي عاصم، قال: حدثنا عمر بن ابي زائدة، قال: حدثني ابو إسحاق، عن الاسود، عن عائشة، قالت:" ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمتنع من وجهي وهو صائم، وما مات حتى كان اكثر صلاته قاعدا، ثم ذكرت كلمة معناها إلا المكتوبة، وكان احب العمل إليه ما دام عليه الإنسان وإن كان يسيرا" , خالفه يونس , رواه عن ابي إسحاق، عن الاسود، عن ام سلمة.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ حَدِيثِ أَبِي عَاصِمٍ، قال: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْتَنِعُ مِنْ وَجْهِي وَهُوَ صَائِمٌ، وَمَا مَاتَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلَاتِهِ قَاعِدًا، ثُمَّ ذَكَرَتْ كَلِمَةً مَعْنَاهَا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ، وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ مَا دَامَ عَلَيْهِ الْإِنْسَانُ وَإِنْ كَانَ يَسِيرًا" , خَالَفَهُ يُونُسُ , رَوَاهُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں میرے چہرے سے نہیں بچتے تھے ۱؎ اور آپ کی وفات نہیں ہوئی یہاں تک کہ آپ کی بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں، سوائے فرض نماز کے، اور سب سے زیادہ پسندیدہ عمل آپ کے نزدیک وہ تھا جس پر آدمی مداومت کرے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ یونس نے عمر بن ابی زائدہ کی مخالفت کی ہے یونس نے اسے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے اسود سے اور اسود نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16032)، مسند احمد 6/113، 250 (صحیح) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ درجہ کی ہے)»

وضاحت:
۱؎: یعنی روزے کی حالت میں بوسہ وغیرہ لینے سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح البخاري1927عائشة بنت عبد اللهيقبل ويباشر وهو صائم أملككم لإربه
   صحيح البخاري1928عائشة بنت عبد اللهيقبل بعض أزواجه وهو صائم
   صحيح مسلم2576عائشة بنت عبد اللهيقبل وهو صائم يباشر وهو صائم أملككم لإربه
   صحيح مسلم2577عائشة بنت عبد اللهيقبل وهو صائم أملككم لإربه
   صحيح مسلم2578عائشة بنت عبد اللهيباشر وهو صائم
   صحيح مسلم2579عائشة بنت عبد اللهيباشر وهو صائم نعم أملككم لإربه
   صحيح مسلم2581عائشة بنت عبد اللهيقبلها وهو صائم
   صحيح مسلم2574عائشة بنت عبد اللهيقبلها وهو صائم فسكت ساعة ثم قال نعم
   صحيح مسلم2584عائشة بنت عبد اللهيقبل في رمضان وهو صائم
   صحيح مسلم2585عائشة بنت عبد اللهيقبل وهو صائم
   صحيح مسلم2583عائشة بنت عبد اللهيقبل في شهر الصوم
   صحيح مسلم2573عائشة بنت عبد اللهيقبل إحدى نسائه وهو صائم ثم تضحك
   صحيح مسلم2575عائشة بنت عبد اللهيقبلني وهو صائم أيكم يملك إربه كما كان رسول الله
   جامع الترمذي728عائشة بنت عبد اللهيباشرني وهو صائم أملككم لإربه
   جامع الترمذي729عائشة بنت عبد اللهيقبل ويباشر وهو صائم أملككم لإربه
   جامع الترمذي727عائشة بنت عبد اللهيقبل في شهر الصوم
   سنن أبي داود2386عائشة بنت عبد اللهيقبلها وهو صائم ويمص لسانها
   سنن أبي داود2384عائشة بنت عبد اللهيقبلني وهو صائم وأنا صائمة
   سنن أبي داود2383عائشة بنت عبد اللهيقبل في شهر الصوم
   سنن أبي داود2382عائشة بنت عبد اللهيقبل وهو صائم ويباشر وهو صائم أملك لإربه
   سنن النسائى الصغرى1653عائشة بنت عبد اللهيمتنع من وجهي وهو صائم ما مات حتى كان أكثر صلاته وهو جالس
   سنن ابن ماجه1683عائشة بنت عبد اللهيقبل في شهر الصوم
   سنن ابن ماجه1687عائشة بنت عبد اللهأملككم لإربه
   سنن ابن ماجه1684عائشة بنت عبد اللهيقبل وهو صائم أيكم يملك إربه كما كان رسول الله
   بلوغ المرام539عائشة بنت عبد اللهيقبل وهو صائم ويباشر وهو صائم ولكنه كان املككم لإربه
   المعجم الصغير للطبراني368عائشة بنت عبد الله يصيب من وجهها وهو صائم
   المعجم الصغير للطبراني373عائشة بنت عبد الله يباشر وهو صائم ، وأيكم يملك من إربه ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يملك ؟
   المعجم الصغير للطبراني382عائشة بنت عبد الله باشرني رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو صائم
   المعجم الصغير للطبراني402عائشة بنت عبد الله يمتنع من شيء من وجهي وهو صائم
   مسندالحميدي198عائشة بنت عبد اللهأن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقبلها وهو صائم؟
   مسندالحميدي199عائشة بنت عبد اللهكان يقبل بعض نسائه وهو صائم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  ابوبكر قدوسي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1927  
´روزے کی حالت میں بیوی سے مباشرت`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے لیکن (اپنی ازواج کے ساتھ) «يقبل» (بوسہ لینا) و مباشرت (اپنے جسم سے لگا لینا) بھی کر لیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1927]

فقہ الحدیث:
روزے کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بخاری کی حدیث:
صحیح بخاری کی ایک حدیث کو لے کر منکرین حدیث عوام کو خوب گم راہ کرتے ہیں، اور سادہ لوح افراد ان کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ بخاری کی حدیث میں ہے کہ:
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کا بوسہ لے لیتے اور مباشرت فرمایا کرتے جب کہ آپ روزے سے ہوتے۔
اس حدیث کو لے کر منکرین حدیث، آئمہ حدیث اور امام بخاری کے وہ لتے لیتے ہیں کہ الامان ... ایسے ایسے جذباتی جملے بولتے ہیں کہ ہر کوئی دھوکہ کھا جاتا ہے .... مزید تفصیل میں جائے بغیر، کہ یہ کیا کرتے ہیں، ہم حدیث کی طرف جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں مباشرت میاں بیوی کے جنسی تعلقات اختیار کرنے کو بولا جاتا ہے، اور اسی تصور اور تاثر کو منکرین لے کر حقائق کو چھپاتے ہیں۔
عربی میں مباشرت کا معنی ہے بدن سے بدن ملانا، جسم کا جسم سے مس ہونا۔
امام شوکانی کہتے ہیں کہ: «ان المباشره فى الاصل التقاء البشرتين . . .»
یعنی مباشرت اصل میں دو جسموں کے ملنے کو کہتے ہیں۔ [منقول، تفهيم اسلام]
عون المعبود شرح سنن ابی داؤد میں ہے کہ:
«معني المباشرة ههنا المر باليد من التقاء البشرتين»
یعنی یہاں مباشرت سے صرف ہاتھ سے چھونا، اور دو جسموں کا ملنا مراد ہے۔
کیا اس میں حرام کا کوئی پہلو ہے؟
آپ کی بیوی ہے کوئی اچھوت تو نہیں کہ دن میں اگر آپ میاں بیوی روزے کی حالت میں بھی باہم مل کر آرام کر لیں، ایک دوسرے سے لپٹ جائیں، آپ اپنی بیوی سے محبت سے پیش آ جائیں، تو اس سے روزے کو کیا فرق پڑ جائے گا ..؟
لیکن برا ہو تعصب کا، انکار حدیث کا، کہ مقصد دین کی تفہیم نہ رہی بلکہ اپنے نظریات کی خاطر لوگوں کو دھوکہ دینا ٹھرا اور جذباتی فضاء بنا کر حدیث بارے نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔
اسی حدیث کا اگلا حصہ اس کی مزید وضاحت کرتا ہے، دیکھئے گا:
«كان املككم لاربه» یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہشات پر تم میں سب سے زیادہ قابو پانے والے تھے .... سمجھنے کے لیے مکرر عرض ہے اگر بار خاطر نہ ہو کہ:
آپ پنی بیویوں کا بوسہ لے لیتے، ان سے مباشرت کرتے اور آپ تم میں سے سب سے زیادہ اپنی خواہش پر قابو رکھنے والے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اگر مباشرت کا مطلب جنسی ملاپ ہی ہے تو خواہش پر قابو پانا کہاں گیا؟ .. آپ کو عربی نہ بھی آتی ہو . مفکر صاحب آپ کو دھوکہ بھی دینا چاھیں تو آپ ان سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں:
جناب پھر خواہش پر قابو کیسا ہووا؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اپنی خواہش پر ایسا قابو تھا تو مطلب یہی بنتا ہے نا کہ آپ کا عمل محض بیویوں سے دلجوئی کی، محبت کی ترغیب ہے۔ بتائیے اس میں کیا گناہ ہے؟ ...
اس حدیث کا صاف صاف مطلب ہے کہ بغیر شہوت کے، محض محبت کے ساتھ آپ اپنی بیوی سے قربت اختیار کر سکتے ہیں۔ ذرا انسانی نفسیات کی طرف آئیے ...
آپ کی بیوی، آپ سے گھنٹہ بھر پہلے اٹھ جاتی ہے، گرمی ہو یا سردی چولہے پر جا کے کھڑی ہو جاتی ہے، آپ کے لیے پکوان بناتی ہے، آپ کے ناز اٹھاتی ہے، اور پندرہ منٹ پہلے آپ کو ہولے سے آ کر اٹھاتی ہے کہ
جی سرتاج! سحری کیجئے۔
آپ مزے سے سحری کرتے ہیں، اور نماز پڑھ کر پھر سے دراز ہو جاتے ہیں، وہ بے چاری گھر بھر کے جھوٹے برتن دھو کے، سامان سمیٹ کے مزید تھک ہار کے بستر پر جاتی ہے ... ایسے میں آپ اس کو پیار سے سمیٹ لیتے ہیں، کیا محبت کی معراج ہے، اور کیسی انسانیت کی تکمیل ہے، اس کا جی کیسا اچھا ہو جاتا ہو گا، آپ اس کو گلے لگا لیں، بازوؤں میں چھپا لیں تو کیا برا کیا؟، اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے، رحم دل تھے۔
بردران عزیز! آپ منکرین حدیث کے غلط ترجموں سے اور دھوکوں سے گھبرا کے ارتھ نہ ہو جایا کریں، تحقیق احوال کر لیا کریں، یہ بےچارے عموماً عربی نہیں جانتے ہوتے، اور قران کا بھی علم بس گزارا ہی ہوتا ہے گو دعوے بہت کرتے ہیں، ان کے چکر میں آ کر اپنی بیویوں کو اچھوت نہ جانئے، وہ آپ کی محبت کی، توجہ کی روزے کے مشکل دنوں میں زیادہ محتاج ہیں۔
ایک بات آپ کے سوچنے کے لیے بھی عرض کرتا ہوں .... آپ ان بڑے بڑے ناموں کو، جو صرف سوشل میڈیا کے مرہون منت زندہ ہیں، دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہ بڑا علم رکھتے ہیں؟
سوال مگر یہ ہے کہ اس حدیث کے مفھوم کو چھپا کے، کیا یہ بد دیانتی کے مرتک نہیں ہوتے؟
اور جو دین کے معاملے میں بد دیانتی کرے، اس کو آپ اپنا دینی رہنماء مانے بیٹھے ہیں ... یاد رکھیے بھر برے لوگ بھی دین کے معاملے میں جھوٹ بولتے شرما جاتے ہیں، ان کو حیاء آ جاتی ہے، لیکن جو یہاں بھی دھوکہ دینے پر آ جائے اس کے حیاء باختگی کا کیا عالم ہو گا؟ ... اس لیے ایسے افراد سے دین کی رہنمائی لینے کا یہی مطلب ہے کہ آپ جان بوجھ کر اس دکاندار کے پاس جاتے ہیں جس کی آپ کو خبر ہے کہ:
اگر دودھ فروخت کرے گا تو کیمیکل ڈالے گا
اگر مسالے فروخت کرے گا تو برادہ شامل کرے گا
ارے نہیں بھائی! یہ عقیدے کے ملاوٹ ساز ہیں، جعل ساز تو ان سے کہین بہتر ہیں .. فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ ان جعل سازوں سے علم حاصل کرنا ہے اور حدیث کا انکار کر کے زندگی سے روحانیت ختم کرنی ہے یا درست عقائد کو شعار کرنا ہے۔
   محدث فورم، حدیث\صفحہ نمبر: 37802   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1653  
´نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان اور اس سلسلہ میں ابواسحاق سے روایت کرنے والے راویوں کے اختلاف کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں میرے چہرے سے نہیں بچتے تھے ۱؎ اور آپ کی وفات نہیں ہوئی یہاں تک کہ آپ کی بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں، سوائے فرض نماز کے، اور سب سے زیادہ پسندیدہ عمل آپ کے نزدیک وہ تھا جس پر آدمی مداومت کرے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ یونس نے عمر بن ابی زائدہ کی مخالفت کی ہے یونس نے اسے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے اسود سے اور اسود نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1653]
1653۔ اردو حاشیہ:
➊ یہاں سے آگے چند روایات میں امام نسائی رحمہ اللہ ابواسحاق کے شاگردوں کا اختلاف بیان کر رہے ہیں۔ ابواسحٰق شاگردوں میں سے عمر بن ابی زائدہ کے نزدیک یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہے جبکہ یونس کے نزدیک یہ روایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی ہے۔
➋ نفل نماز بیٹھ کر بھی پڑھی جا سکتی ہے اگر بلا عذر ہو تو نصف ثواب ہو گا۔ اور اگر کوئی عذر (مرض، بڑھاپا وغیرہ) ہو تو پورا ثواب ملے گا بشرطیکہ وہ صحت اور جوانی میں کھڑا ہو کر پڑھتا رہا ہو، البتہ فرض نماز عذر کے بغیر بیٹھ کر نہیں پڑھی جا سکتی۔ عذر کے ساتھ بیٹھ کر جائز ہے۔ ثواب بھی پورا ہو گا۔
➌ روزے کی حالت میں جماع منع ہے۔ مطلق شہوت اور بوسہ وغیرہ (جماع وانزال کے بغیر) روزے کے منافی نہیں۔ اس سے ثواب میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا الایہ کہ ان سے جماع کا خطرہ ہو یا انزال کا، پھر منع ہیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوجوان کو بوسے کی اجازت نہیں دی تھی اور ایک بوڑھے کو اجازت دے دی تھی کیونکہ اس سے جماع کا خطرہ نہیں تھا بخلاف نوجوان کے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1653   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1687  
´روزہ دار کا بیوی سے مباشرت (ساتھ سونے) کا بیان۔`
اسود اور مسروق ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، اور پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مباشرت کرتے (ساتھ سوتے) تھے؟، انہوں نے کہا: ہاں، آپ ایسا کرتے تھے، اور آپ تم سب سے زیادہ اپنی خواہش پر قابو رکھنے والے آدمی تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1687]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مرد قابل احترام خاتون سے اور عورتیں قابل احترام مرد سے ادب واحترام کا لحاظ رکھتے ہوئے شرم وحیا سے تعلق رکھنے والے معاملات کے مسائل دریافت کریں تو کوئی حرج نہیں۔

(2)
اس قسم کے مسائل پوچھتے اور بتاتے ہوئے الفاظ کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینا چاہے تاکہ مسئلہ بھی معلوم ہوجائے اور فحش گوئی بھی نہ ہو۔

(3)
مباشرت سے مراد بوس وکنار اور معانقہ وغیرہ جیسے معاملات ہیں۔

(4)
یہ جواز اس شخص کے لئے ہے۔
جسے اپنی ذات پر اعتماد ہو کہ جائز حد سے تجاوز نہیں کرے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1687   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 539  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لے لیتے تھے اور معانقہ بھی فرما لیتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری نسبت اپنی طبیعت پر زیادہ کنٹرول اور ضبط کرنے والے تھے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں اور ایک روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں فعل رمضان میں کرتے تھے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 539]
لغوی تشریح 539:
یُقَبَّلُ تَقبِیل سے ماخوذ ہے۔ بوسہ دینا۔
یُبَاشِرُ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے جسم سے جسم ملانا، بغل گیر ہونا۔ اس سے جماع مراد نہیں ہے۔
لِأِربَہ ہمزہ اور را دونوں پر فتحہ بھی پڑھا گیا ہے، یعنی حاجت، خواہش نفس (میاں بیوی کا صنفی تعلق)۔ اور ایک قول کے مطابق ہمزہ کے نیچے کسرہ اور را ساکن ہے۔ اس صورت میں دو احتمال ہیں: اس سے مراد حاجت ہے یا عضو مخصوص، یعنی اپنے جذبات پر یا اپنی شرمگاہ پر تمھاری نسبت خوب ضبط رکھنے والے تھے۔ اس حدیث کی رو سے بوسہ اور مباشرت جسمانی ایسے آدمی کے لیے مباح ہے جو اپنے آپ پر ق ابواور کنٹرول رکھنے کا حوصلہ اور طاقت رکھتا ہو۔ یہ رعایت ایسے آدمی کے لیے نہیں جسے اپنے نفس پر پورا کنٹرول نہ ہو۔ یہ قول اس مسئلے میں تمام اقوال و آراء سے زیادہ مناسب اور مبنی برعدل ہے۔

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 539   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 727  
´روزہ دار کے بوسہ لینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ صیام (رمضان) میں بوسہ لیتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 727]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے روزے کی حالت میں بوسہ کا جواز ثابت ہوتا ہے،
اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس میں فرض اور نفل روزے کی تفریق صحیح نہیں،
رمضان کے روزے کی حالت میں بھی بوسہ لیا جا سکتا ہے،
لیکن یہ ایسے شخص کے لیے ہے جو اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھتا ہو اور جسے اپنے نفس پر قابو نہ ہو اس کے لیے یہ رعایت نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 727   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2384  
´روزہ دار بیوی کا بوسہ لے اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بوسہ لیتے اور آپ روزے سے ہوتے اور میں بھی روزے سے ہوتی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2384]
فوائد ومسائل:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات صحیح احادیث میں بھی بیان ہوئی ہے، اسی لیے شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
میاں بیوی کے لیے روزے کی حالت میں بوس و کنار جائز ہے مگر لازمی ہے کہ اپنے جذبات پر ضبط رکھنے والے ہوں۔
اگر حد سے بڑھنے کا اندیشہ ہو تو اس عمل سے بچنا لازمی ہے۔

(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنے ان مخفی امور کو ذکر کرنا شرعی ضرورت کی بنا پر ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت ازدواج کی ایک حکمت یہ بھی رہی ہے کہ زوجین اور اندرون خانہ کی شرعی زندگی امت کے سامنے آئے اور ان کے لیے ہدایت اور اسوہ ثابت ہو۔
اگر یہ حقائق بیان نہ ہوتے تو دین کا بڑا حصہ ہم سے اوجھل رہتا اور بڑی آزمائش ہوتی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2384   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.