الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
168. بَابُ : فِي الْجُنُبِ إِذَا لَمْ يَتَوَضَّأْ
168. باب: جنبی جب وضو نہ کرے۔
Chapter: If A Junub Person Does Not Perform Wudu
حدیث نمبر: 262
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا هشام بن عبد الملك، قال: انبانا شعبة، ح وانبانا عبيد الله بن سعيد، قال: حدثنا يحيى، عن شعبة، واللفظ له، عن علي بن مدرك، عن ابي زرعة، عن عبد الله بن نجي، عن ابيه، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تدخل الملائكة بيتا فيه صورة ولا كلب ولا جنب".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قال: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، ح وَأَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَلَا كَلْبٌ وَلَا جُنُبٌ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر، کتا یا جنبی ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطھارة 90 (227)، اللباس 48 (4152)، سنن ابن ماجہ/اللباس 44 (3650)، (بدون قولہ’’ولاجنب‘‘)، (تحفة الأشراف: 10291)، مسند احمد 1/83، 104، 139، سنن الدارمی/الاستئندان 34، 2705، وأعادہ المؤلف برقم: 4286 (ضعیف) (اس کے راوی ’’نجی‘‘ اور ان کا اضافہ ’’ولاجنب‘‘ ہی ضعیف ہے، ورنہ اس کے سوا باقی ٹکڑے صحیحین میں دیگر صحابہ سے مروی ہیں)»

وضاحت:
اس سے مراد رحمت اور برکت کے فرشتے ہیں، نہ کہ وہ فرشتے جو جنبی اور غیر جنبی کسی سے جدا نہیں ہوتے۔ تصویر سے مراد جاندار کی تصویر ہے۔ کتا سے مراد وہ کتا ہے جو شکار یا گھر اور کھیت وغیرہ کی رکھوالی کے لیے نہ ہو۔ جنبی سے مراد وہ جنبی ہے جو غسل میں سستی کرتا ہو، اور دیر سے غسل کرنا اس کی عادت ہو گئی ہو، یا وہ جنبی ہے جس نے وضو نہ کیا ہو جیسا کہ مصنف نے باب کے ذریعہ اشارہ کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   سنن أبي داود227علي بن أبي طالبلا تدخل الملائكة بيتا فيه صورة ولا كلب ولا جنب
   سنن النسائى الصغرى5353علي بن أبي طالبالملائكة لا تدخل بيتا فيه تصاوير
   سنن النسائى الصغرى262علي بن أبي طالبلا تدخل الملائكة بيتا فيه صورة ولا كلب ولا جنب
   سنن النسائى الصغرى4286علي بن أبي طالبالملائكة لا تدخل بيتا فيه صورة ولا كلب ولا جنب
   سنن ابن ماجه3650علي بن أبي طالبالملائكة لا تدخل بيتا فيه كلب ولا صورة
   سنن أبي داود4152علي بن أبي طالبلا تدخل الملائكة بيتا فيه صورة ولا كلب ولا جنب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 227  
´جنبی نہانے میں دیر کرے اس کے حکم کا بیان`
«. . . عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ، وَلَا كَلْبٌ، وَلَا جُنُبٌ . . . .»
. . . علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو، یا کتا ہو، یا جنبی ہو . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب فِي الْجُنُبِ يُؤَخِّرُ الْغُسْلَ: 227]
فوائد و مسائل:
اس حدیث میں ملائکہ کے داخل نہ ہونے سے مراد رحمت کے فرشتے ہیں۔ کراماً کا تبین انسان سے جدا نہیں ہوتے اور تصویر سے مراد بت اور روح والی اشیاء کی تصویر ہے جبکہ اسے زینت کے لیے لٹکایا گیا ہو۔ اگر اس کی اہانت ہوتی ہو تو ایک حد تک رخصت ہے اور کتے سے مراد عام کتا ہے نہ کہ شکاری یا حفاظت والا، کیونکہ یہ جائز ہیں۔ یہ روایت شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک ضعیف ہے، اس لیے جنبی آدمی کی بابت یہ کہنا صحیح نہیں کہ اس کی وجہ سے فرشتے نہیں آتے۔ تاہم بشرط صحت، اس کی توجیہ یہ ممکن ہے کہ جنبی شخص تساہل کا مظاہرہ کرتے ہوئے غسل نہ کرے اور نمازیں بھی ضائع کر دے، تو کسی گھر میں ایسے جنبی کا وجود یقیناًً ملائکہ رحمت کے آنے میں مانع ہو سکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 227   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 262  
´جنبی جب وضو نہ کرے۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر، کتا یا جنبی ہو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 262]
262۔ اردو حاشیہ:
➊ وضو کرنے سے جنابت ختم تو نہیں ہوتی مگر ایک قسم کی طہارت حاصل ہو ہی جاتی ہے۔ خصوصاً جنبی کے اعضائے وضو تو پاک ہو ہی جاتے ہیں، لہٰذا جنبی کے لیے آئندہ نماز تک غسل میں رعایت ہے، البتہ وضو کر لے اور یہ افضل ہے جس طرح کہ دیگر احادیث میں آتا ہے۔ اگر شرم گاہ وغیرہ دھو کر بلاوضو بھی سو جائے تو کوئی حرج نہیں اور یہ بھی جائز ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو جایا کرتے تھے جبکہ آپ جنبی ہوتے اور پانی کو چھوتے تک نہیں تھے۔ یہ حدیث صحیح ہے، شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے انتہائی محققانہ دقیق علمی اسلوب میں تفصیلاً اس حدیث کی حجیت کا اثبات کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [شرح الترمذي از أحمد شاکر: 202/1]
، نیز آخر میں انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان بااختیار ہے۔ وضو کر کے سونا افضل اور بلاوضو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سو جانا بیان جواز کی خاطر تھا۔ مذکورہ حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے اور یہی بات حق ہے۔ واللہ أعلم۔ اس موقف کی مزید تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرماتے ہیں: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں (بلاوضو) سو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سو سکتا ہے، اگر چاہے تو وضو کر لے۔ گویا وضو کرنا اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ دیکھیے: [صحیح ابن خزیمة، حدیث: 221، و موارد الظمآن، حدیث: 232]
مزید دیکھیے: [صحيح موارد الظمآن للألباني، حديث: 195]
➋ فرشتوں سے رحمت کے فرشتے مراد ہیں نہ کہ مطلق فرشتے کیونکہ محافظ فرشتے یا کاتب فرشتے بھی اس حالت میں انسان کے پاس آجاتے ہیں جنابت کے باوجود انسان کے پاس رہتے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن درست بات یہ ہے کہ ولاجنب، کے اضافے کے بغیر باقی حدیث صحیح ہے کیونکہ صحیحین کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3225، و صحیح مسلم، اللباس والزینۃ، حدیث: 2106، و ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: 30) لہٰذا جنبی کے حوالے سے یہ کہنا کہ اس کی وجہ سے رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے، درست نہیں کیونکہ یہ روایت ہی ضعیف ہے۔ اگرچہ ہمارے فاضل محقق نے پور ی روایت کو قابل حجت سمجھا ہے، تاہم بشرط صحت جنبی سے مراد وہ جنبی ہو گا جو بلاضرورت غسل میں تاخیر کرتا ہے ورنہ نماز کے وقت تک غسل مؤخر کرنے والا اس وعید کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ اس میں رخصت ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سب بیویوں کے پاس جاتے اور غسل آخر میں فرماتے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 262   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.