الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
The Book of Jihad
40. بَابُ : فَضْلِ الْجِهَادِ فِي الْبَحْرِ
40. باب: سمندر میں جہاد کرنے کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: The Virtue Of Jihad By Sea
حدیث نمبر: 3174
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا يحيى بن حبيب بن عربي، قال: حدثنا حماد، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن انس بن مالك، عن ام حرام بنت ملحان , قالت: اتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال عندنا، فاستيقظ وهو يضحك، فقلت: يا رسول الله بابي وامي ما اضحكك؟ قال:" رايت قوما من امتي يركبون هذا البحر كالملوك على الاسرة" , قلت: ادع الله ان يجعلني منهم، قال:" فإنك منهم" ثم نام، ثم استيقظ وهو يضحك، فسالته، فقال: يعني مثل مقالته , قلت: ادع الله ان يجعلني منهم، قال:" انت من الاولين، فتزوجها عبادة بن الصامت، فركب البحر، وركبت معه، فلما خرجت، قدمت لها بغلة، فركبتها فصرعتها، فاندقت عنقها".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ , قَالَتْ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ عِنْدَنَا، فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي وَأُمِّي مَا أَضْحَكَكَ؟ قَالَ:" رَأَيْتُ قَوْمًا مِنْ أُمَّتِي يَرْكَبُونَ هَذَا الْبَحْرَ كَالْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ" , قُلْتُ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ:" فَإِنَّكِ مِنْهُمْ" ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: يَعْنِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ , قُلْتُ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ:" أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ، فَتَزَوَّجَهَا عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، فَرَكِبَ الْبَحْرَ، وَرَكِبَتْ مَعَهُ، فَلَمَّا خَرَجَتْ، قُدِّمَتْ لَهَا بَغْلَةٌ، فَرَكِبَتْهَا فَصَرَعَتْهَا، فَانْدَقَّتْ عُنُقُهَا".
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں آئے اور سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کس چیز نے آپ کو ہنسایا؟ آپ نے فرمایا: میں نے اپنی امت میں سے ایک جماعت دیکھی جو اس سمندری (جہاز) پر سوار تھے، ایسے لگ رہے تھے جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں، میں نے کہا: اللہ سے دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے بھی انہیں لوگوں میں سے کر دے، آپ نے فرمایا: تم اپنے کو انہیں میں سے سمجھو، پھر آپ سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے، پھر میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے اپنی پہلی ہی بات دہرائی، میں نے پھر دعا کی درخواست کی کہ آپ دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے انہیں لوگوں میں کر دے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم (سوار ہونے والوں کے) پہلے دستے میں ہو گی۔ پھر ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے شادی کی ۱؎، اور وہ سمندری جہاد پر نکلے تو وہ بھی انہیں کے ساتھ سمندری سفر پر نکلیں، پھر جب وہ جہاز سے نکلیں تو سواری کے لیے انہیں ایک خچر پیش کیا گیا، وہ اس پر سوار ہوئیں تو اس نے انہیں گرا دیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی (اور ان کا انتقال ہو گیا)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 8 (2799)، 63 (2877، 2878)، 75 (2894، 2895)، صحیح مسلم/الإمارة 49 (1912)، سنن ابی داود/الجہاد 10 (2490، 2492)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 10 2776)، (تحفة الأشراف: 18307)، مسند احمد (6/361، 423)، سنن الدارمی/الجہاد 29 (2465) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ان کی شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کے بعد ہوئی ہے جب کہ اس سے «ما قبل» کی روایت میں یہ ہے کہ ام حرام رضی الله عنہا اس وقت عبادہ کے ماتحت تھیں۔ دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلی روایت میں «و كانت تحت عبادة» کے جملہ سے راوی کی مراد وقت کی تقیید کے بغیر دونوں کے تعلق کو بیان کرنا ہے جب کہ اس روایت میں وقت اور حال کی قید کے ساتھ اس تعلق کی وضاحت کرنا راوی کا مقصود ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري2895الرميصاء بنت ملحانقوم من أمتي يركبون البحر كالملوك على الأسرة فقلت يا رسول الله ادع الله أن يجعلني منهم فقال أنت منهم ثم نام فاستيقظ وهو يضحك فقال مثل ذلك مرتين أو ثلاثا قلت يا رسول الله ادع الله أن يجعلني منهم فيقول أنت من الأولين فتزوج بها عبادة بن الصامت فخرج بها إلى ال
   صحيح البخاري2800الرميصاء بنت ملحانأناس من أمتي عرضوا علي يركبون هذا البحر الأخضر كالملوك على الأسرة
   سنن أبي داود2490الرميصاء بنت ملحانرأيت قوما ممن يركب ظهر هذا البحر كالملوك على الأسرة
   سنن أبي داود2493الرميصاء بنت ملحانالمائد في البحر الذي يصيبه القيء له أجر شهيد الغرق له أجر شهيدين
   سنن النسائى الصغرى3174الرميصاء بنت ملحانرأيت قوما من أمتي يركبون هذا البحر كالملوك على الأسرة
   سنن ابن ماجه2776الرميصاء بنت ملحانناس من أمتي عرضوا علي يركبون ظهر هذا البحر كالملوك على الأسرة
   مسندالحميدي352الرميصاء بنت ملحاناللهم اجعلها منهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3174  
´سمندر میں جہاد کرنے کی فضیلت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں آئے اور سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کس چیز نے آپ کو ہنسایا؟ آپ نے فرمایا: میں نے اپنی امت میں سے ایک جماعت دیکھی جو اس سمندری (جہاز) پر سوار تھے، ایسے لگ رہے تھے جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں، میں نے کہا: اللہ سے دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے بھی انہیں لوگو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3174]
اردو حاشہ:
(1) نکاح کرلیا گویا اس خواب کے وقت وہ ان کے نکاح میں نہیں تھیں۔ نکاح بعد میں ہوا۔ اور اس غزوے میں وہ اپنے خاوند عبادہ بن صامتb کے ساتھ ہی گئیں تھیں‘ اس لیے سابقہ حدیث کے ترجمے میں قوسین کے ذریعے سے اس بات کی وضاحت کی گئی ہے۔ (2) سمندر سے نکلیں ان کی قبر مبارک جزیرئہ قبرص میں ہے۔ گویا جب وہ اس جزیرے میں پہنچ کر سمندر سے نکلیں تو یہ حادثہ پیش آیا۔رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہَا۔(3) ان کا لشکر کے ساتھ جانا اپنے خاوند محترم اور زخمی مجاہدین کی خدمت کے لیے تھا نہ کہ لڑائی میں حصہ لینے کے لیے کیونکہ عورتوں کے لیے لڑائی میں شامل ہونا‘ پردہ نہ رہنے کی وجہ سے جائز نہیں‘ نیز کفار کے قبضے میں آنے کا خطرہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3174   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2776  
´سمندری جہاد کی فضیلت۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی خالہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز میرے قریب سوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے لائے گئے جو اس سمندر کے اوپر اس طرح سوار ہو رہے ہیں جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھتے ہیں، ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ سے آپ دعا کر دیجئیے کہ وہ مجھے بھی ان ہی لوگوں میں سے کر دے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2776]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مسلمانوں کی سب سے پہلی بحری فوج حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے تیار کی۔
یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور تھا۔
جس لشکر میں حضرت ام حرام رضی اللہ عنہ شریک ہوئیں یہ پہلی بحری مہم تھی جو 28 ھ میں پیش آئی۔ (فتح الباري، الجهاد، باب غزوة المراة في البحر: 94/2)

(2)
کسی فضیلت کے حصول کے لیے دعا کرنا یا کروانا درست ہے۔

(3)
رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کا پورا ہونا آپ کی حقانیت کی دلیل ہے۔

(4)
عورت جہاد میں اپنے محرم یا شوہر کے ساتھ شریک ہوسکتی ہے۔

(5)
حادثاتی موت بھی شہادت ہے۔

(6)
بحری جنگ میں شریک ہونے والوں کی تعریف سے ان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
فضائیہ بھی ایک لحاظ سے بحری فوج کے مشابہ ہے۔
بلکہ بعض لحاظ سے اس سے برتر ہے اس لیے یہ فضیلت بحریہ کے ساتھ ساتھ فضائیہ کے لیے بھی ہے تاہم بری فوج کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2776   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2490  
´سمندر میں جہاد کرنے کی فضیلت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کی بہن ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یہاں قیلولہ کیا، پھر بیدار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ فرمایا: میں نے اپنی امت میں سے چند لوگوں کو دیکھا جو اس سمندر کی پشت پر سوار ہیں جیسے بادشاہ تخت پر، میں نے کہا: اللہ کے رسول! دعا کیجئے، اللہ مجھ کو ان لوگوں میں سے کر دے، فرمایا: تو انہیں میں سے ہے۔‏‏‏‏ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور ہنستے ہوئے بیدار ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2490]
فوائد ومسائل:

یہ حدیث صریح اور واضح طور پر دلائل نبوت میں سے ہے۔
کیونکہ اس میں رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی بات کی خبر دی ہے جو آپﷺ کی وفات کے بعد وقوع پزیر ہوئی۔
جس کو سوائے اللہ عزوجل کے کوئی اور نہیں جان سکتا۔
لہذا رسول اللہ ﷺ کو  بذریعہ وحی اس کا علم ہوا۔

یہ سن 28 ہجری حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کی بات ہے۔
جبکہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جہادی سفر کے امیرتھے۔
لہذا اس سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت ومنقبت بھی ثابت ہوئی۔
نیز ان صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی بھی جنہوں نے ان کی معیت میں یہ سمندری سفرکیاتھا۔
یہ ایک جہادی سفر تھا۔


کسی خوش کن اور پسندیدہ بات پر ہنسنا جائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2490   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.