الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
The Book of Marriage
49. بَابُ : مَا يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ
49. باب: رضاعت سے کون کون سے رشتے حرام ہوتے ہیں۔
Chapter: What Becomes Unlawful As A Result Of Breast-feeding
حدیث نمبر: 3302
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، قال: حدثنا يحيى، قال: انبانا مالك، قال: حدثني عبد الله بن دينار، عن سليمان بن يسار، عن عروة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ما حرمته الولادة حرمه الرضاع".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَالِكٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا حَرَّمَتْهُ الْوِلَادَةُ حَرَّمَهُ الرَّضَاعُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رشتے (ماں کے پیٹ سے) پیدا ہونے سے حرام ہوتے ہیں وہی رشتے (عورت کا) دودھ پینے سے بھی حرام ہوتے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 7 (2055)، سنن الترمذی/الرضاع 1 (1147)، (تحفة الأشراف: 16344)، موطا امام مالک/الرضاع 3 (15)، مسند احمد (6/44، 51، 66، 66، 72، 102)، سنن الدارمی/النکاح 48 (2295) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی نکاح کے حرام ہونے میں رضاعت اور ولادت کا ایک ہی حکم ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   صحيح البخاري2646عائشة بنت عبد اللهالرضاعة تحرم ما يحرم من الولادة
   صحيح البخاري5239عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة
   صحيح البخاري3105عائشة بنت عبد اللهالرضاعة تحرم ما تحرم الولادة
   صحيح البخاري5099عائشة بنت عبد اللهالرضاعة تحرم ما تحرم الولادة
   صحيح مسلم3579عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب
   صحيح مسلم3568عائشة بنت عبد اللهالرضاعة تحرم ما تحرم الولادة
   صحيح مسلم3569عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة
   جامع الترمذي1147عائشة بنت عبد اللهحرم من الرضاعة ما حرم من الولادة
   سنن أبي داود2055عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة
   سنن النسائى الصغرى3302عائشة بنت عبد اللهما حرمته الولادة حرمه الرضاع
   سنن النسائى الصغرى3305عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاع ما يحرم من الولادة
   سنن النسائى الصغرى3303عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاع ما يحرم من النسب
   سنن النسائى الصغرى3304عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاع ما يحرم من النسب
   سنن النسائى الصغرى3315عائشة بنت عبد اللهالرضاعة تحرم ما يحرم من الولادة
   سنن ابن ماجه1937عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاع ما يحرم من النسب
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم376عائشة بنت عبد اللهنعم إن الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم375عائشة بنت عبد اللهيحرم من الرضاع ما يحرم من الولادة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 376  
´رضاعی رشتے حقیقی رشتوں کی طرح ہیں`
«. . . 310- وعن عمرة أن عائشة أم المؤمنين أخبرتها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان عندها، وأنها سمعت صوت رجل يستأذن فى بيت حفصة، فقالت عائشة: فقلت: يا رسول الله، هذا رجل يستأذن فى بيتك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أراه فلانا، لعم لحفصة من الرضاعة، فقالت عائشة: يا رسول الله، لو كان فلان حيا، لعم لها من الرضاعة، دخل علي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم إن الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة . . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تھے کہ انہوں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے ایک آدمی کی آواز سنی جو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: یا رسول اللہ! یہ آدمی (اندر آنے کی) اجازت مانگ رہا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ وہ فلاں آدمی ہے، حفصہ کا رضاعی چچا ہے۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یا رسول اللہ! اگر فلاں آدمی، جو کہ ان کا رضاعی چچا تھا، اگر زندہ ہوتا تو کیا میرے پاس (گھر میں) آ سکتا تھا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جو رشتے (حقیقی) اولاد ہونے کی وجہ سے حرام ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 376]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2646، ومسلم 1444، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ جس طرح نسب سے رشتے حرام ہوتے ہیں اسی طرح رضاعت سے بھی رشتے حرام ہوجاتے ہیں مثلاً رضاعی بہن اُسی طرح حرام ہے جس طرح حقیقی بہن حرام ہے۔
➋ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: دو سال کے اندر بچہ جو دودھ پی لے تو حرمت ثابت ہوجاتی ہے اگرچہ ایک گھونٹ ہی ہو اور دو سال کے بعد اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 422/7 و سنده صحيح]
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رضاعت صرف بچپن میں ہی ہوتی ہے، بڑی عمر کی رضاعت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ [الموطأ 603/2 ح 1318 وسنده صحيح/مفهوم]
➍ سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: دو سال کے اند اگر ایک قطرہ (دودھ) بھی ہو تو حرام ہوجاتا ہے۔ الخ [الموطأ 604/2 ح 1322 وسنده صحيح]
➎ بچہ اگر منہ ڈال کر پانچ مرتبہ دودھ پی لے، چوس لے تو رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔
➏ غیر محرم سے پردہ ضروری ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 310   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3302  
´رضاعت سے کون کون سے رشتے حرام ہوتے ہیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رشتے (ماں کے پیٹ سے) پیدا ہونے سے حرام ہوتے ہیں وہی رشتے (عورت کا) دودھ پینے سے بھی حرام ہوتے ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3302]
اردو حاشہ:
شریعت اسلامیہ نے رضاعت کو بھی نسبی رشتے کی طرح تقدس عطا کیا ہے۔ جس طرح نسبی لحاظ سے محترم رشتے نکاح کے لیے حرام قراردیے گئے ہیں‘ اسی طرح رضاعت کے لحاظ سے بھی وہی رشتے نکاح کے لیے حرام قرار دیے گئےہیں۔ البتہ یہ یاد رہے کہ وہ رشتے دودھ پینے والے بچے پر ہی حرام ہوں گے‘ اس کے دیگر نسبی رشتہ داروں پر حرام نہیں ہوں گے‘ مثلاً دودھ پینے والی بچے پر اس کی رضاعی ماں اور بہن سے نکاح حرام ہے مگر اس بچے کے دیگر بھائیوں پر ان سے نکاح حرام نہیں کیا۔ گویا دودھ پینے والے پر تو اس کی رضاعی والدہ کا پورا خاندان حرام ہے مگر رضاعی ماں اور ا سکے خاندان پر بچے کا دیگر خاندان حرام نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3302   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1937  
´رضاعت (دودھ پلانے) سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رضاعت سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1937]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رضاعت سے مراد دودھ پلانا ہے، یعنی جب کسی بچے کو ماں کے علاوہ کوئی اور عورت دودھ پلائے تو وہ عورت بھی اسی طرح اس کی ماں شمار ہوتی ہے جس طرح جننے والی ماں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْ‌ضَعْنَكُمْ﴾ (النساء: 23)
اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا (ان سے بھی نکاح حرام ہے۔
)


(2)
رضاعت سے حرام ہونے والی عورتوں کی تفصیل یہ ہے:

    (ا)
        رضاعی ماں:
جس کا دودھ تم نے مدت رضاعت (دو سال کی عمر)
کے اندر پیا ہو۔

    (ب)
    رضاعی بہن:
جس کو تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں نے دودھ پلایا، خواہ تمہارے ساتھ یا تم سے پہلے یا بعد میں یا جس عورت کی حقیقی یا رضاعی ماں نے تمہیں دودھ پلایا ہو یعنی رضاعی ماں بننے والی عورت کی تمام نسبی اور رضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کے بہن بھائی بن جائیں گے۔

   (ج)
     رضاعی خالہ:
دودھ پلانے والی کی بہنیں دودھ پینے والے کی خالائیں بن جائیں گی۔

   (د)
     رضاعی پھوپھی:
چونکہ دودھ پلانے والی کا خاوند دودھ پینے والے کا باپ بن جائے گا اس لیے اس رضاعی باپ کی بہنیں دودھ پینے والے کی پھوپھیاں ہوں گی۔
اور رضاعی باپ کے بھائی دودھ پینے والے کے چچا تایا بن جائیں گے۔

(3)
ان رضاعی رشتوں سے نکاح کرنا اسی طرح حرام ہے جس طرح نسبی رشتوں سے لہٰذا ان میں پردہ اسی طرح فرض نہیں ہوگا جس طرح نسبی رشتوں میں پردہ فرض نہیں ہوتا۔
لڑکے کی رضاعی ماں، رضاعی بہن، رضاعی خالہ اور رضاعی پھوپھی اس سے پردہ نہیں کریں گی۔
اسی طرح لڑکی اپنے رضاعی باپ، رضاعی بھائی، رضاعی چچا، تایا اور رضاعی ماموں سے پردہ نہیں کرے گی۔

(4)
دودھ پینے والے کے دوسرے بھائی بہن، جنہوں نے اس عورت کا دودھ نہیں پیا ان کا اس عورت سے اور اس کے بچوں وغیرہ سے رضاعت کا تعلق شمار نہیں ہو گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1937   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2055  
´دودھ پلانے سے وہ سارے رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دودھ پلانے سے وہ سارے رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو پیدائش سے حرام ہوتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2055]
فوائد ومسائل:
نکاح میں محرمات کی دو قسمیں ہیں۔
ابدی محرمات اور وقتی محرمات ابدی محرمات بسبب نسب کے سات ہیں۔

مایئں (اوپر تک)
بیٹیاں (نیچے تک) تین حیققی بہنیں (ماں باپ دونوں کی طرف سے یا صرف باپ کی طرف سے یا ماں کی طرف سے)
بھانجیاں۔
5بھتیجیاں۔

پھوپھیاں 7۔
خالایئں۔
بدلیل (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ الخ) (النساء 23) اور ان کے مماثل وہ رشتے جو رضاعت سے قائم ہوتے ہیں۔
سب حرام ہیں۔
جیسے کہ اس باب کی حدیث میں آیا ہے۔
تعلق مصاہرت (سسرال اور ازدواجی تعلق) کی بناء پر حرام ہونے والی خواتین یہ ہیں۔

بیویوں کی مایئں۔

بیویوں کی بیٹیاں بشرط یہ کہ بیوی سے دخول ہوا ہو۔

باپ دادا کی بیویاں 4۔
بیٹوں کی بیویاں (نیچے تک) اور یہی رشتے اگر رضاعت سے قائم ہوں تو حرام ہیں۔
ایک محدود وقت تک کے لئے حرام رشتے یہ ہیں۔
بیوی کی بہن اس کی پھوپھی یا بھتیجی یا خالہ اور خالہ یا بھانجی اور آزاد آدمی کےلئے چار بیویاں موجود ہوں۔
تو پانچویں حرام ہے۔
(کچھ علماء کے نزدیک) زانیہ تا آنکہ توبہ کرلے۔
اور وہ عورت جسے تین طلاقیں دی ہوں تاآنکہ کسی اور سے نکاح کرلے۔
اور وہاں سے فارغ ہو۔
محرمہ اپنے احرام سے حلال ہونے تک اور کوئی مطلقہ جو اپنے ایام عدت میں ہو۔
عدم ختم ہونے تک ان کے علاوہ دیگر عورتیں حلال ہیں۔
(وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ) (النساء۔
24)
(دیکھئے۔
تیسیر العلام شرح عمدۃ الاحکام)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2055   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.