الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
31. بَابُ : خِيَارِ الأَمَةِ تُعْتَقُ وَزَوْجُهَا مَمْلُوكٌ
31. باب: شوہر غلام ہو اور لونڈی بیوی آزاد کر دی جائے تو اسے حق خیار حاصل ہو گا۔
Chapter: Giving The Choice To A Slave Woman Who Has Been Set Free And Whose Husband Is Still A Slave
حدیث نمبر: 3484
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن إسماعيل بن إبراهيم، قال: حدثنا يحيى بن ابي بكير الكرماني، قال: حدثنا شعبة، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة، قال: وكان وصي ابيه، قال: وفرقت ان اقول سمعته من ابيك، قالت عائشة: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بريرة، واردت ان اشتريها، واشترط الولاء لاهلها، فقال:" اشتريها، فإن الولاء لمن اعتق"، قال: وخيرت وكان زوجها عبدا، ثم قال: بعد ذلك ما ادري؟ واتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بلحم، فقالوا: هذا مما تصدق به على بريرة، قال:" هو لها صدقة ولنا هدية".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ الْكَرْمَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: وَكَانَ وَصِيَّ أَبِيهِ، قَالَ: وَفَرِقْتُ أَنْ أَقُولَ سَمِعْتُهُ مِنْ أَبِيكَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَرِيرَةَ، وَأَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِيَهَا، وَاشْتُرِطَ الْوَلَاءُ لِأَهْلِهَا، فَقَالَ:" اشْتَرِيهَا، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ"، قَالَ: وَخُيِّرَتْ وَكَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا، ثُمَّ قَالَ: بَعْدَ ذَلِكَ مَا أَدْرِي؟ وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ، فَقَالُوا: هَذَا مِمَّا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، قَالَ:" هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں آپ کی رائے پوچھی، میرا ارادہ اسے خرید لینے کا ہے، لیکن اس کے مالکان کی طرف سے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط لگائی گئی ہے (پھر میں کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس شرط کے ساتھ بھی) تم اسے خرید لو (یہ شرط لغو و باطل ہے) ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہے جو آزاد کرے۔ راوی کہتے ہیں: (عائشہ رضی اللہ عنہا نے خرید کر آزاد کر دیا) اور اسے اختیار دیا گیا (شوہر کے ساتھ رہنے یا اسے چھوڑ دینے کا) اس کا شوہر غلام تھا۔ یہ کہنے کے بعد راوی پھر کہتے ہیں: میں نہیں جانتا (کہ اس کا شوہر واقعی غلام تھا یا آزاد تھا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت پیش کیا گیا اور لوگوں نے بتایا کہ بریرہ کے پاس صدقہ میں آئے ہوئے گوشت میں سے یہ ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ بریرہ کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہدیہ و تحفہ ہے (اس لیے ہم کھا سکتے ہیں)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الہبة 13 (2587)، صحیح مسلم/الزکاة 52 (1075)، العتق 2 (1504)، (تحفة الأشراف: 17491)، مسند احمد (6/172)، ویأتي عند المؤلف برقم: 4647) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح مسلم3781عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   سنن النسائى الصغرى3484عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   سنن النسائى الصغرى3483عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن ولي النعمة
   سنن النسائى الصغرى3477عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   سنن النسائى الصغرى3481عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   سنن النسائى الصغرى3480عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   سنن النسائى الصغرى3479عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعطى الورق
   سنن النسائى الصغرى3478عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   سنن النسائى الصغرى4660عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   سنن النسائى الصغرى4659عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   سنن النسائى الصغرى4646عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعطى الورق
   سنن النسائى الصغرى4647عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   سنن النسائى الصغرى2615عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   جامع الترمذي1256عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعطى الثمن
   صحيح البخاري1493عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح مسلم3782عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن ولي النعمة
   صحيح مسلم3779عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح مسلم3776عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح مسلم3777عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح مسلم3783عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح مسلم3786عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   سنن ابن ماجه2076عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   جامع الترمذي2124عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   جامع الترمذي2125عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعطى الثمن
   صحيح البخاري2155عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري2156عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري2168عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري2536عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعطى الورق
   صحيح البخاري2561عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري2565عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري2578عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري2717عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري2726عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   سنن أبي داود2916عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعطى الثمن
   صحيح البخاري0عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   سنن أبي داود3929عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري5097عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري5279عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري5284عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري5430عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري6717عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   صحيح البخاري6751عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق أهدي لها شاة فقال هو لها صدقة ولنا هدية
   صحيح البخاري6754عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق خيرت فاختارت نفسها
   صحيح البخاري6758عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعطى الورق
   صحيح البخاري6760عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعطى الورق
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم288عائشة بنت عبد اللهالولاء لمن أعتق
   بلوغ المرام657عائشة بنت عبد الله خذيها واشترطي لهم الولاء ،‏‏‏‏ فإنما الولاء لمن عتق
   بلوغ المرام858عائشة بنت عبد اللهخيرت بريرة على زوجها حين عتقت
   بلوغ المرام1227عائشة بنت عبد الله إنما الولاء لمن أعتق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 288  
´رشتۂ ولاء کا مطلب ہے مولیٰ ہونا`
«. . . عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم انها قالت: كان فى بريرة ثلاث سنن، فكانت إحدى السنن الثلاث انها اعتقت فخيرت فى زوجها. وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولاء لمن اعتق. . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بریرہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں تین سنتیں ہیں ان تین میں سے ایک سنت یہ ہے کہ جب وہ آزاد کی گئیں تو انہیں اپنے خاوند کے بارے میں اختیار دیا گیا (جو کہ غلام تھے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشتہَ ولاء اسی کا ہے جو آزاد کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 288]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5279، ومسلم 14/1504، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ لونڈی جب آزاد ہو جائے تو اسے اختیار حاصل ہو جاتا ہے کہ اپنے سابقہ خاوند کے ساتھ رہے یا جدا ہو جائے بشرطیکہ لونڈی کی آزادی کے بعد خاوند نے (اس کی مرضی سے) اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو۔
➋ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آزاد شدہ لونڈی کو اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک اس کا سابق خاوند اسے چھو نہ لے۔ [موطأ امام مالك 2/562 ح1224، وسنده صحيح]
➌ اگر کوئی فقیر مسکین صدقے یا زکوٰۃ کے مال کا مالک ہو جائے اور پھر وہ اس میں سے کسی امیر کو تحفہ دے تو یہ مال اس امیر کے لئے حلال ہوجاتا ہے۔
➍ مالدار اور ہٹے کٹے کمانے والے شخص کے لئے صدقہ و خیرات اور زکواۃ حلال نہیں بلکہ حرام ہے۔
➎ اگر کوئی چیز کسی خاص علت کی وجہ سے حرام ہو اور پھر وہ علت ختم ہو جائے تو وہ چیز حرام نہیں رہتی۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل و اولاد کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے۔ بعض علماء کے نزدیک یہ حکم فرض و واجب صدقات کے بارے میں ہیں اور نفلی صدقہ جائز ہے۔ واللہ اعلم
➐ رشتۂ ولاء کا مطلب ہے مولیٰ ہونا۔
➑ گھر میں اگر پسندیدہ کھانا موجود ہے تو گھر سے طلب کرنا جائز ہے۔
➒ فقراء و مساکین کو صدقات دینا اہل ایمان کا وطیرہ ہے۔
➓ گھر میں کھانا پکانے اور پینے پلانے والے برتن رکھنا جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 160   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5097  
´آزاد عورت کا غلام مرد کے نکاح میں ہونا جائز ہے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ سُنَنٍ عَتَقَتْ فَخُيِّرَتْ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبُرْمَةٌ عَلَى النَّارِ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ خُبْزٌ وَأُدْمٌ مِنْ أُدْمِ الْبَيْتِ، فَقَالَ:" لَمْ أَرَ الْبُرْمَةَ؟" فَقِيلَ: لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ وَأَنْتَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، قَالَ:" هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بریرہ کے ساتھ تین سنت قائم ہوتی ہیں، انہیں آزاد کیا اور پھر اختیار دیا گیا (کہ اگر چاہیں تو اپنے شوہر سابقہ سے اپنا نکاح فسخ کر سکتی ہیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بریرہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں) فرمایا کہ ولاء آزاد کرانے والے کے ساتھ قائم ہوئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو ایک ہانڈی (گوشت کی) چولہے پر تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روٹی اور گھر کا سالن لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (چولہے پر) ہانڈی (گوشت کی) بھی تو میں نے دیکھی تھی۔ عرض کیا گیا کہ وہ ہانڈی اس گوشت کی تھی جو بریرہ کو صدقہ میں ملا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ نہیں کھاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور اب ہمارے لیے ان کی طرف سے تحفہ ہے۔ ہم اسے کھا سکتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5097]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5097 کا باب: «بَابُ الْحُرَّةِ تَحْتَ الْعَبْدِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمتہ الباب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ نے آزاد عورت کا نکاح غلام مرد سے جائز ہونا قرار دیا ہے اور اس مسئلے پر اشارہ بھی فرمایا ہے، لیکن تحت الباب جو حدیث ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پیش فرمائی ہے اس میں غلام خاوند کا کوئی ذکر نہیں ہے، لہٰذا بظاہر باب اور حدیث میں مناسبت نہیں دکھائی دیتی۔

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قلت: رضي الله عنك! ليس فى حديث بريرة هذا ما يدل أن زوجها كان عبداً.»
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی جو حدیث نقل فرمائی ہے اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند (سیدنا مغیث) غلام تھے۔

مزید فرماتے ہیں کہ:
«وقد خرج حديثها أتم من هذا، وفيه التصريح بأنه عبد.» [المتوري: ص 290]
یقیناً امام بخاری رحمہ اللہ نے (دوسری حدیث) نکالی ہے، جو اس سے مکمل ہے، جس میں صراحت کے ساتھ واضح ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند مغیث رضی اللہ عنہ غلام تھے۔
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کرتے وقت سیدنا مغیث رضی اللہ عنہ آزاد تھے یا غلام؟ بعض روایات سے ان کا آزاد ہونا ثابت ہوتا ہے اور بعض روایات کے مطابق ان کا غلام ہونا۔
ترجمۃ الباب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ غلام تھے۔

چنانچہ زکریا کاندھلوی لکھتے ہیں:
«وميل المصنف الي مسلك الجمهور وقد ترجم فيما سياتي باب خيار الأمة تحت العبد» [الابواب و التراجم لصحیح البخاری: 482/5]
امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان جمہور کے مسلک کی طرف ہے، (کہ سیدنا مغیث رضی اللہ عنہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی آزادی کے وقت غلام تھے) اور یقیناً امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمتہ الباب قائم فرمایا اس بارے میں میں کہ: «باب خيار الأمة تحت العبد»

علامہ بدر الدین بن جماعۃ رحمہ اللہ ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«ليس فى الروايه التى ذكرها ان مغيثاً كان عبداً لكنه صح ذالك من طريق أخريٰ اانه كان عبداً وقد خيرها النبى صلى الله عليه وسلم فدل على جواز الحرة تحت العبد.» [مناسبات تراجم البخاري: ص 98]
اس روایت میں تصریح موجود نہیں ہے کہ سیدنا مغیث رضی اللہ عنہ غلام تھے، (تو پھر باب اور حدیث میں مناسبت کس طرح؟) لیکن صحیح یہ ہے کہ جو دوسرے طریق سے ثابت ہے کہ وہ غلام تھے، یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا تھا، (کہ وہ مغیث سے نکاح قائم رکھیں، یا پھر ختم کر دیں) پس یہ جواز ہے کہ آزاد کے نکاح میں غلام شوہر رہ سکتا ہے، لہٰذا یہی سے ترجمہ ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 86   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2155  
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ عورتوں سے خرید و فروخت کرنا، اور دلیل کے طور پر سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کا قصہ ذکر فرمایا ہے، ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: «اشتری و اعتقی» یعنی تم خرید کر آزاد کر دو۔ لازما جو امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے خریدے گا تو اس کے لیے عورت سے خریدنا درست ٹھہرا، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومطابقۃ حدیث ابن عمر للترجمۃ فى قولہ: سَاوَمَت فأمنا ساومت أہل بریرۃ، وہو البیع والشراء بین الرجال و النساء» [عمدۃ القاری، ج 8، ص: 258]
یعنی ترجمہ الباب سے حدیث کی مطابقت اس قول سے ہے کہ قیمت لگا رہی تھیں (یعنی امی عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی قیمت لگا رہی تھیں تاکہ انہیں خرید کر آزاد کر دیں)، پس امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے قیمت لگائی سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالکوں سے اور یہی ہے «البیع و الشراء بین الرجال و النساء» کہ مردوں اور عورتوں میں بیع کا ہونا۔
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ترجمۃ الباب سے مناسبت کچھ یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آپ بریرہ کو خرید لیں اور یہ خطاب امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھا۔ بیع میں شراء سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ جب ان کے مالکوں سے امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خریدا۔ [ارشاد الساری، ج 4، ص: 250]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اور د فیہ حدیث عائشۃ و ابن عمر فى قصۃ شراء بریرۃ، وشاہد الترجمۃ قولہ: مابال رجال یشترطون لیست فى کتاب اللہ، لاشعارہ بأن قصۃ المبایعۃ کانت مع رجال۔۔۔۔۔» [فتح الباری، ج 3، ص: 370]
یعنی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ خرید و فروخت جائز ہے کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا لونڈی کو (ایک مرد سے) خریدا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز رکھا۔ چنانچہ فرمایا کہ اس کو خرید لے اور شاہد ہے اس کے لیے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ایسی شرائط طے کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں، اس واسطے یہ مشعر ہے اس چیز کے ساتھ کہ خرید و فروخت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تھی۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔
فائدہ نمبر 1:
مندرجہ بالا حدیث سے امام الفقہاء والمحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی اہم مسائل ثابت فرمائے ہیں، جس کا ذکر مختلف ابواب کے ساتھ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے تھے کہ ولاء کی شرط باطل ہے اور یہ اصول مشہور تھا کہ اہل بریرہ سے بھی مخفی نہ تھا، پھر جب انہوں نے اس شرط کے بطلان کو جاننے کے باوجود اس کی اشراط پر اصرار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تہدید کے طور پر مطلق امر فرما دیا کہ بریرہ کو خرید لیا جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ﴾ » تم جو چاہو عمل کرو [فصلت: 40] یہ بطور تہدید فرمایا گیا ہے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے لیے ولاء کی شرط لگا لو وہ عنقریب جان لیں گے کہ اس شرط سے ان کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا، اور اس مسئلے کی تائید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اشارہ سے بھی ہوتی ہے کہ لوگوں کا کیا حال ہے وہ ایسی شرائط لگاتے ہیں جو کتاب اللہ سے ثابت نہیں، پس ایسی جملہ شروط باطل ہیں خواہ وہ ان کو نافذ بھی کیا جائے مگر اسلامی قانون کی رو سے ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔ [نیل الأوطار شرح منتقی الاخیار، ج 5، ص: 236، 237]
فائدہ نمبر 2:
مذکورہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں، اور جو علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا کہ ولاء اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے، اب اگر غور کیا جائے تو یہ شرط جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لگائی ہے یہ شرط قرآن میں نہیں ہے بلکہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے بایں طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ شریعت میں کتاب اللہ کا اطلاق صرف قرآن مجید پر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کتاب پر ہوتا ہے جو دو گتوں میں «بین الدفتین» ہو بلکہ کتاب اللہ کا اطلاق شریعت کے تمام قوانین پر ہوتا ہے چاہے وہ قرآنی بیان میں ضم ہوں یا وہ حدیثی بیانات ہوں۔ امت مسلمہ میں علم کی کمی بے انتہا ہے اور صحیح حدیث کی معرفت بے انتہا پست ہے، ان حالات میں عام و خاص الا ماشاء اللہ کا یہی عقیدہ اور نظریہ ہے کہ کتاب اللہ کا اطلاق صرف قرآن مجید پر ہی ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس کے برعکس گہرائی اور بصیرت کی نگاہ سے غور کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ کتاب اللہ کا حکم مکمل شریعت پر لگتا ہے۔ اور مذکورہ بالا حدیث بھی اس کی مؤید ہے۔ دوسری حدیث جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری ہی میں کرتے ہیں کہ:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے در میان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجئے۔ دوسرے نے بھی یہی کہا: کہ اس نے سچ کہا: ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیں۔ دیہاتی نے کہا: کہ میرا لڑکا اس کے ہاں مزدور تھا، پھر اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا، قوم نے کہا: کہ تمہارے لڑکے کو رجم کیا جائے گا، لیکن میں نے اپنے لڑکے کے اس جرم کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دے دی، پھر میں نے علم والوں سے پوچھا: تو انہوں نے بتایا کہ اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے ملک بدر کر دیا جائے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا، باندی اور بکریاں تمہیں واپس لوٹا دی جاتی ہیں، البتہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے ملک بدر کیا جائے گا، اور اے انیس اس عورت کے گھر جاؤ اور اسے رجم کردو (اگر وہ زنا کا اقرار کر لے)۔ چنانچہ انیس گئے اور اسے رجم کر دیا (کیوں کہ اس نے زناکا اقرار کر لیا تھا)۔ [صحیح البخاری، کتاب الصلح، رقم 2695]
مذکورہ بالا واقعہ کی طرف نگاہ دوڑانے سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا کہ بکریاں اور باندی کو لوٹا لیا جائے یہ حکم پورے قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلفیہ طور پر یہ فرمایا تھا کہ میں تم میں ضرور کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا، تو معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کا اطلاق قرآن مجید کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر بھی ہوتا ہے۔
امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کتاب اللہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (واللہ اعلم) اللہ کا حکم مراد لیا ہے۔ اگرچہ وہ حکم کتاب اللہ (قرآن مجید) میں بالتصریح مذکور نہیں ہے۔ لیکن ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم کتاب اللہ (قرآن مجید) کے ساتھ قبول کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: جو کچھ تمہیں رسول دے اس کو لے لو اور جس سے تمہیں منع کرے تو باز آجاؤ۔ لہٰذا جب وہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی) کتاب اللہ کی وجہ سے ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم قبول کرنا بھی واجب ہوا۔ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فیصلہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صادر فرمایا پس وہ کتاب اللہ کے ساتھ ہے، اگرچہ وہ حکم کتاب اللہ (قرآن مجید) میں بالتصریح مذکور نہ ہو۔ [ذم الکلام وأہلہ للہروی، ج 2، ص: 91]
اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں بارہ ماہ کی تعداد کے بارے میں فرمایا کہ « ﴿فِی کِتَابِ اللّٰہِ﴾ » [التوبۃ: 36] کہ یہ بارہ مہینوں کی گنتی کتاب اللہ میں موجود ہے۔ حالانکہ مکمل قرآن مجید کے مطالعہ سے ہمیں بارہ مہینوں کی گنتی معلوم نہیں ہوتی بلکہ اس کی جگہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بارہ ماہ اور مزید حرمت والے چار مہینوں کی بھی گنتی اور اس کی ترتیب ہمیں موصول ہوتی ہے۔ مذکورہ آیت سے بھی حدیث کا مبینہ طور پر کتاب اللہ ہونا ثابت ہے اور ان دلائل کی موجودگی میں کہیں اور طرف التفات کرنا محض ہٹ دھرمی ہی ہو گی۔
محمد بن ابوبکر الرازی مسائل رازی میں فرماتے ہیں:
«وإنما ہو أمر أنزلہ اللہ فى کتبہ على ألسنۃ رسلہ۔» [مسائل الرازی، ص: 113]
یہ ایک حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل کیا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر۔
یعنی یہ حکم حدیث کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا۔
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و المراد بکتاب اللہ أى بحکمہ، إذ لیس فى الکتاب ذکر الرجم، وقد جاء الکتاب بمعنی الفرض۔» [التوضیح لشرح الجامع الصحیح، ج 17، ص: 29]
یہاں پر کتاب اللہ سے مراد (قرآن نہیں ہے بلکہ) اللہ کا حکم ہے جبکہ رجم کا حکم قرآن میں موجود نہیں ہے، اور یقیناً کتاب سے مراد فرض ہے (یعنی رجم کا حکم بھی اللہ کا حکم ہے، مگر قرآن میں نہیں ہے، سنت میں موجود ہے)۔
محمد اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بعض آیات قرآن عزیز میں اس طرح مذکورہ ہوئی ہیں کہ قرآن کا مفہوم حدیث کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ یہ قرآن کی آواز ہے جو ضرورت حدیث کو ثابت کر رہی ہے۔ اشارۃ النص کے طور پر قرآن مجید ضرورت حدیث کو ثابت فرماتا ہے۔ منکرین حدیث سے مؤدبانہ استدعا ہے کہ بحیثیت طالب علم قرآن میں اس طریق پر بھی غور کی تکلیف گوارا کریں۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ دلوں کو کھول دے اور قوت فہم کو استفادہ کا موقع ملے۔
« ﴿إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ اللّٰہِ۔۔۔۔۔ الآیۃ﴾ » [التوبۃ: 36]
تحقیق گنتی مہینوں کی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں کتاب اللہ میں جس دن اس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو ان میں چار مہینے حرام ہیں۔
ان چار ماہ کا ذکر قرآن میں اجمالا آیا ہے، ان میں لڑائی جھگڑے کی ممانعت فرمائی گئی ہے، ان میں ابتداء لڑائی حرام ہے۔ لیکن قرآن میں بارہ مہینوں کے نام مذکورہ ہیں اور نہ چار ماہ کا کوئی تفصیلی ذکر موجود ہے۔ یہ تذکرہ احادیث میں ملتا ہے یا عرب کی تاریخ میں، معلوم نہیں ہمارے اہل قرآن کون سا مقدس ذخیرہ قبول فرمائیں گے۔ [حجیت حدیث از محمد اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ، ص: 167]
قلت: تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ قرآنی بیان سے اور تاریخی حوالوں سے واضح ہوتا ہے کہ اہل عرب مہینوں کی گنتی آگے پیچھے کر دیتے تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
« ﴿إِنَّمَا النَّسِیءُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ﴾ » [التوبۃ: 37] مہینوں کا آگے پیچھے کرنا کفر ہے۔
لیکن اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و سنت کے مجموعے کے بارے میں اور اس کی صداقت پر قرآن نے برملا اعلان فرما دیا کہ وہ ہر قسم کی تبدیلی و تغیرات سے محفوظ ہوں گی اور قیامت تک قرآن کی طرح ہدایت کا سرچشمہ رہیں گے، مگر اس کے باوجود تاریخ پر اعتبار کیا جا سکتا ہے لیکن احادیث پر نہیں، تعجب ہے ایسی تنگ نظری پر۔
بہت سارے لوگوں کو یہ بھی مغالطہ لگ گیا کہ کتاب کہتے ہی اسی شیٔ کو جو ضخامت میں ہو کیوں کہ عہد نبوی میں احادیث کو کسی ایک کتاب کی صورت میں مدون نہیں کیا گیا (حالانکہ بعین یہی اعتراض قرآن پر بھی وارد ہوتا ہے) اسی لیے کتاب کا حکم احادیث پر صادر نہیں آتا۔
جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو اپنا خط بھیجا تو قرآن یوں ارشاد فرماتا ہے:
« ﴿اذْہَبْ بِکِتَابِی ہَذَا فَأَلْقِہْ إِلَیْہِمْ﴾ » [النمل: 28]
یہ میری کتاب (خط) لے جا اور انکی طرف پھینک دے۔
پھر جب یہ خط ان کو دیا گیا تو بلقیس نے کہا:
« ﴿یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ إِنِّی أُلْقِیَ إِلَیَّ کِتَابٌ کَرِیمٌ﴾ » [النمل: 29]
اے اہل دربار! میری طرف ایک بڑا اہم خط پھینکا گیا ہے۔
ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ ضروری نہیں ہے کہ کسی ضخیم شئ کو ہی کتاب کا نام دیا جائے، اسی کتاب کی مزید صراحت سورہ انعام میں کچھ اس طرح سے ہے:
« ﴿وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَابًا فِی قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوہُ بِأَیْدِیہِمْ لَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ ہَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِینٌ﴾ » [الانعام: 7]
اور اگر ہم اتارتے آپ کی طرف کتاب کو نازل کرتے کاغذ پر پھر یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تو جن لوگوں نے کفر کیا ہے، یہی کہتے ہیں کہ یہ صاف جادو ہے۔
مذکورہ آیت میں بھی «قرطاس» کاغذ کو کتاب کہا: گیا ہے لہٰذا منکرین حدیث کا یہ شوشہ کہ وحی ہمیشہ کتاب کی صورت میں نازل ہوتی ہے باطل ٹھہرا۔ دراصل کتاب کے معنی یہ ہیں کہ اس میں کسی چیز کا حکم دیا گیا ہو یا کسی چیز کو فرض کیا گیا ہو، یہ تمام اقسام قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وارد ہوتی ہیں۔
عربی زبان کی معرکہ آراء کتاب لسان العرب میں ابن منظور رقمطراز ہیں:
«وقال، کَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَا أَیْ فَرَضْنَا، وَمِنْ ہٰذَا قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِرَجُلَیْنِ احْتَکَمَا إِلَیْہِ۔۔۔۔۔» [لسان العرب، ج 12، ص: 23]
یعنی یوں کہا: کہ ہم نے ان پر لکھ دیا اس میں یعنی (لکھنے سے مراد) فرض کیا ہم نے، اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جب دو شخص فیصلے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں ضرور تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب یا اپنے بندے پر اتارا ہے۔ (ابن منظور کہتے ہیں) یہ جو فیصلہ تھا رجم کے بارے میں اور اس کا حکم قرآن میں وارد نہیں۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی کیا گیا ہے (کتاب کے معنی) کسی چیز کو فرض کرنا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا یا کسی چیز کا حکم جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بیان کیا گیا ہو (یعنی وہ بھی کتاب ہی کا حکم رکھتی ہے)۔
ابن منظور کی وضاحت نے واضح کیا کہ ہر وہ شئ کتاب ہے جس میں کسی چیز کا حکم دیا گیا ہو یا کسی چیز کو فرض کیا گیا جو، چاہے وہ قرآن میں لکھا ہوا ہو یا احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں۔
ابن اثیر رحمہ اللہ کتاب اللہ کے بارے میں وضاحت فرماتے ہیں:
سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کہ جو کوئی ایسی شرط عائد کرے جو کتاب اللہ میں نہیں، یعنی وہ حکم کتاب میں نہیں اور نہ ہی موجب پر اس کی قضا ہو کتاب میں، کیوں کہ کتاب اللہ سے (مراد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مراد ہے، اور جان لو کہ سنت قرآن کا بیان ہے۔ اور یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء اسی کو قرار دیا جو آزاد کرے، اور یہ ولاء کا حکم قرآن میں مذکورہ نہیں ہے۔ (یعنی حدیث میں ہے اور یہ بھی کتاب اللہ ہے)۔ [النہایہ فى غریب الحدیث والأثر، ج 4، ص: 128]
امام ابن الثیر رحمہ اللہ نے بھی واضح فرمایا کہ کتاب سے مراد حکم، فرض کے ہیں اور اس کا اطلاق قرآن مجید کے ساتھ ساتھ سنت پر بھی ہوتا ہے۔
شہاب الدین ابوعمرو «القاموس الوافی» میں فرماتے ہیں:
کتاب سے مراد مجموعہ، رسائل، کتابیں، قرآن مجید، تورات، انجیل۔۔۔۔۔ احکامات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میں ضرور تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا۔ (یہ واقعہ عسیف ہے جس کو بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا)۔ [القاموس الوافی، ص: 922]
شہاب الدین ابوعمرو نے بھی کتاب کی وضاحت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا ذکر فرمایا جس میں یہ ہے کہ میں تم دونوں میں کتاب اللہ سے ضرور فیصلہ کروں گا۔ یعنی حدیث بھی کتاب اللہ میں شامل ہے۔
مصباح اللغات میں ہے:
الکتاب، جس میں لکھا جائے، خط، صحیفہ، فرض، حکم، اندازہ، ہر وہ کتاب جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی۔ [مصباح اللغات، ص: 723]
یہی الفاظ المنجد میں بھی نقل کیے گئے ہیں۔ [دیکہئے المنجد، ص: 860]
یہ ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ایک منکرین حدیث کا سرچشمہ غلام احمد پرویز نے بھی نہ کیا، بلکہ وہ بھی اس کا معترف رہا۔ مسٹر پرویز صاحب فرماتے ہیں:
کتاب کے معنی فیصلہ اور حکم کے بھی آتے ہیں۔ [لغات القرآن، ص: 1414]
حیرت کی بات ہے کہ کتاب کے معنی حکم اور فیصلہ کو آپ پرویز بھی مانتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکمل اسوہ انسانیت کے لیے نمونہ ہے جو کہ مکمل طریقے سے قرآن مجید میں مذکور نہیں بلکہ اس کے کئی ایک پہلو سنت رسول (احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم) میں اجاگر ہیں۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود بھی اس حقیقت سے انحراف چہ معنی وارد ہے؟
لہٰذا ان اقتباسات سے واضح ہوا کہ کتاب سے مراد حکم اور فرائض ہیں، جس میں قرآن مجید کے ساتھ ساتھ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہے۔ مزید تفصیل کے لیے چند احادیث پیش خدمت ہیں:
➊ مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے کہ ایک صحابی سیدنا طلحہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صدقہ کے متعلق کچھ لکھنے کی گزارش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی گزارش کو قبول فرما لیا، لہٰذا ان صحابی کا بیان ہے کہ:
«فَکَتَبَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَذَا الْکِتَابْ» [مسند أحمد، ج 3، ص: 23] پس ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کتاب لکھوائی۔
مندرجہ بالا حدیث میں بھی ایک حکم کو لکھوانے پر اسے کتاب کہا: گیا ہے، لہٰذا اس حدیث سے واضح ہوا کہ جس میں فرض احکامات ہوتے ہیں اسے کتاب کہا: جاتا ہے۔
➋ موسی بن طلحہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«عِنْدَنَا کِتَابٌ مَعَاذ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَبِیِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ» [سنن الدارقطنی، کتاب الزکوۃ، رقم: 1898]
ہمارے پاس سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی ایک کتاب ہے جو انہوں نے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھوائی۔
حالانکہ اس نوشتہ میں صرف صدقہ کے مسائل درج تھے، اس کے باوجود اس نوشتہ کو کتاب کا نام دیا گیا کیوں کہ اس میں فرائض و احکامات تھے۔
«قَالَ: أَتَانَا کِتَابُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَنْ لَا تَنْتَفِعُوا مِنَ الْمَیْتَۃِ بِإِہَابٍ وَلَا عَصَبٍ» [سنن النسائی، کتاب الفرع والعتیرہ، رقم: 4256 - سنن الترمذی، کتاب اللباس، رقم: 1729 - صحیح ابن حبان: 1278 - مسند عبد بن حمید: 488]
عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں: ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب آئی کہ مردے کے چمڑے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔
مذکورہ حدیث میں بھی صرف ایک حکم لکھا ہوا تھا جس کو راوی نے کتاب کے نام سے تعبیر فرمایا۔
فائدہ نمبر 3:
اسی باب کے تحت حدیث نمبر 2156 میں امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ حسان بن ابی عباد ہیں، جن کے متعلق امام ابن عدی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: حسان دو ہیں، ایک حسان بن حسان البصری اور دوسرے حسان بن ابی عباد البصری، دیکھیے ابن عدی کی کتاب: «أسامی من روى عنہم البخاری فى جامعہ الصحیح، ص: 117»، در اصل یہ وہم ہے جو انہیں ہوا ہے۔ کیونکہ حسان بن حسان بن ابی عباد ہیں۔ علامہ علاء الدین مغلطائی (المتوفی 764ھ) نے صراحت فرمائی ہے کہ یہ حسان ایک ہی ہیں دو نہیں ہیں۔ [دیکہئے: اکمال تہذیب الکمال، ج4، ص: 61]
ابن عدی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے شیوخ حسان بن حسان کو حسان بن ابی عباد سے الگ ذکر فرمایا ہے۔ حالانکہ صحیح یہ ہے کہ (یہ دونوں) ایک ہی آدمی ہیں۔
آپ کا مکمل نام حسان بن حسان البصری ابوعلی بن ابی عباد ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف دو احادیث نقل فرمائی ہیں۔ [ہدى الساری، الفصل التاسع، ص: 559]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ قول محل نظر ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حسان بن حسان سے دو احادیث روایت نہیں کیا، بلکہ آپ سے تقریبا چھ احادیث صحیح بخاری میں روایت کی ہیں، علامہ مغلطائی فرماتے ہیں: روی عنہ محمد بن اسماعیل ستۃ أحادیث، یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے آپ سے چھ احادیث روایت کی ہیں۔ تلاش کے بعد الحمد للہ میں نے ان چھ احادیث کو پایا ہے۔ ان سے روایات امام بخاری رحمہ اللہ نے درج ذیل مقامات پر فرمایا ہے، ایک کا ذکر ہم کر چکے ہیں، باقی پانچ احادیث یہ ہیں:
«کتاب البیوع، رقم الحدیث: 2156، باب البیع والشراء مع النساء۔»
«کتاب الوصایا، رقم الحدیث: 2746، باب إذا أومأ المریض برأسہ إشارۃ بینۃ جازت۔»
«کتاب المغازی، رقم الحدیث: 4048، باب غزوۃ أحد۔»
«کتاب العمرۃ، رقم الحدیث: 1778، باب کم أعتمر النبى صلى اللہ علیہ وسلم۔»
«کتاب الاستئذان، رقم الحدیث: 6296، باب إغلاق الأبواب باللیل۔»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 298   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3484  
´شوہر غلام ہو اور لونڈی بیوی آزاد کر دی جائے تو اسے حق خیار حاصل ہو گا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں آپ کی رائے پوچھی، میرا ارادہ اسے خرید لینے کا ہے، لیکن اس کے مالکان کی طرف سے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط لگائی گئی ہے (پھر میں کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس شرط کے ساتھ بھی) تم اسے خرید لو (یہ شرط لغو و باطل ہے) ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہے جو آزاد کرے۔‏‏‏‏ راوی ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3484]
اردو حاشہ:
میں نہیں جانتا کہ وہ آزاد تھا یا غلام راوئ حدیث عبدالرحمن بن قاسم اس بارے میں متردد تھے۔ کبھی انہوں نے آزاد کہا‘ کبھی غلام اور کبھی کہا کہ پتہ نہیں آزاد تھا یا غلام۔ محفوظ بات یہی ہے کہ وہ غلام تھا۔ عروہ نے ان کی اس بات کی موافقت کی ہے۔ بعد میں واقع ہونے والے شک سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ پہلی بات بالجزم ہو اور اس میں اوثق راویوں کی موافقت بھی ہو۔ باقی تفصیلات پچھلے دو تین ابواب میں ذکر ہوچکی ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3484   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2076  
´آزاد ہو جانے کے بعد لونڈی کو اختیار ہے کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہے یا نہ رہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ میں تین سنتیں سامنے آئیں ایک تو یہ کہ جب وہ آزاد ہوئیں تو انہیں اختیار دیا گیا، اور ان کے شوہر غلام تھے، دوسرے یہ کہ لوگ بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ دیا کرتے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کر دیتیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: وہ اس کے لیے صدقہ ہے، اور ہمارے لیے ہدیہ ہے، تیسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کے سلسلہ میں فرمایا: حق ولاء (غلام یا لونڈی کی میراث) اس کا ہے جو آزاد کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2076]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
ملکیت بدلنے سے چیز کاحکم بدل جاتا ہے۔
کسی غریب آدمی کو صدقے میں کوئی چیز ملے اور وہ کسی دولت مند کو تحفے کے طور پر پیش کردے یا دولت مند اس سے وہ چیز خرید لے تو دولت مند کے لیے وہ چیز صدقے کے حکم میں نہیں ہوگی۔

(2)
  ولاء سے مراد وہ تعلق ہے جو آزاد کرنے والے اور آزاد ہونے والے کے درمیان آزاد کرنے کی وجہ سے قائم ہوتا ہے۔
اس تعلق کی وجہ سے آزاد ہونےوالا اسی خاندان کا فرد سمجھا جاتا ہے جس سے آزاد کرنےوالے کا تعلق ہے۔
آزاد ہونےوالے کا اگر کوئی اور وارث نہ ہو تو آزاد کرنےوالا اس کا وارث ہوتا ہے۔
اس کو حق ولاء کہا جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2076   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 657  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا (لونڈی) میرے پاس آئی اور کہنے لگی میں نے اپنے مالک سے نو اوقیہ چاندی پر مکاتبت (یعنی میں نو اوقیہ دے کر آزادی لے لوں گی) کر لی ہے کہ ہر سال میں ایک اوقیہ ادا کرتی رہوں گی۔ لہٰذا میری (اس بارے میں) مدد کریں۔ میں نے (اسے) کہا کہ اگر تیرے مالک کو یہ پسند ہو کہ میں تیری مجموعی قیمت یکمشت ادا کر دوں اور تیری ولاء میری ہو جائے تو میں ایسا کرنے کو تیار ہوں۔ بریرہ رضی اللہ عنہا یہ تجویز لے کر اپنے مالک کے پاس گئی اور ان سے یہ کہا تو انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس سے واپس آئی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے وہ تجویز پیش کی تھی، مگر انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ولاء ان کے لئے ہے۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس واقعہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کیا۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے لو اور ان سے ولاء کی شرط کر لو، کیونکہ ولاء کا حقدار وہی ہے جو اسے آزادی دے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں خطاب فرمانے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں۔ (یاد رکھو!) جو شرط کتاب اللہ میں نہیں ہے وہ باطل ہیں، خواہ سینکڑوں شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کا فیصلہ نہایت برحق ہے اور اللہ کی شرط نہایت ہی پختہ اور پکی ہے۔ ولاء اسی کا حق ہے جو آزاد کرے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ مسلم کے ہاں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے خرید لو اور آزاد کر دو اور ان سے ولاء کی شرط کر لو۔ (بخاری و مسلم)۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 657»
تخریج:
«أخرجه البخاري، المكاتب، باب ما يجوز من شروط المكاتب، حديث:2561، ومسلم، العتق، باب إنما الولاء لمن أعتق، حديث:1504.»
تشریح:
اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں: مثلاً: 1.غلام اور اس کے مالک و آقا کے درمیان متعین رقم اور مقرر مدت کی صورت میں مکاتبت جائز ہے۔
2.اگر کوئی دوسرا شخص غلام کی طے شدہ رقم ادا کر دے اور اسے آزادی دے دے تو ایسا بھی جائز ہے۔
اس کے ترکہ و میراث کا حقدار یہ آزاد کرنے والا ہوگا۔
3.اگر غلام اپنی مکاتبت کی رقم ادا کرنے کے لیے کسی صاحب حیثیت سے سوال کرے تو یہ جائز ہے۔
4.مکاتبت کی رقم قسط وار ادا کی جا سکتی ہے۔
5. اگر مستحق آدمی سوال کرے تو اس کی مدد کرنی چاہیے۔
6. ناجائز شرط اگر عائد کرنے کی کوشش کی جائے تو اس شرط کی کوئی شرعی حیثیت نہیں‘ اعتبار صرف شرعی شرط کا ہوگا۔
7. اس حدیث سے باہمی مشورہ کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔
بیوی شوہر سے مشورہ طلب کرے تو شوہر کو صحیح مشورہ دینا چاہیے۔
8. جس مسئلے کا لوگوں کو علم نہ ہو وہ مسئلہ عوام کے سامنے بیان کرنا چاہیے۔
مسئلہ کسی کا نام لے کر نہیں بلکہ عمومی صورت میں بیان کرنا چاہیے۔
9. عوام سے خطاب کرنے کے موقع پر سب سے پہلے خالق کائنات کی حمد و ثنا کرنی چاہیے‘ پھر اپنا مدعا و مقصد بیان کرنا چاہیے۔
10.کسی سے درخواست و استدعا کرنے کا بھی یہی اسلوب و انداز ہونا چاہیے۔
11.مکاتب لونڈی اور غلام کو فروخت کرنا جائز ہے۔
امام احمد و امام مالک رحمہما اللہ کا یہی مذہب ہے۔
وضاحت: «حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ با پر فتحہ اور را کے نیچے کسرہ ہے‘ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی اور مغیث‘ جو کہ آل ابو احمد بن جحش کے غلام تھے‘ کی بیوی تھی۔
جب یہ آزاد ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا تو اس نے اپنے خاوند مغیث (جو کہ ابھی غلام ہی تھا) کو چھوڑ دیا تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 657   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1256  
´ولاء کی شرط لگانے اور اس پر سرزنش کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ (لونڈی) کو خریدنا چاہا، تو بریرہ کے مالکوں نے ولاء ۱؎ کی شرط لگائی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ سے فرمایا: تم اسے خرید لو، (اور آزاد کر دو) اس لیے کہ ولاء تو اسی کا ہو گا جو قیمت ادا کرے، یا جو نعمت (آزاد کرنے) کا مالک ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1256]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ولاء وہ ترکہ ہے جسے آزاد کیا ہوا غلام چھوڑکر مرے،
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بائع کے لیے ولاء کی شرط لگانا صحیح نہیں،
ولاء اسی کا ہوگا جو خرید کر آزاد کرے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1256   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.