الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
48. بَابُ : إِلْحَاقِ الْوَلَدِ بِالْفِرَاشِ إِذَا لَمْ يَنْفِهِ صَاحِبُ الْفِرَاشِ
48. باب: شوہر اگر بچے کا انکار نہ کرے تو جس کی عورت ہو گی بچہ اسی کا مانا جائے گا۔
Chapter: Attributing The Child To The Bed If The Owner Of The Bed Does Not Disown Him
حدیث نمبر: 3514
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة , عن عائشة، قالت: اختصم سعد بن ابي وقاص، وعبد بن زمعة في غلام، فقال سعد: هذا يا رسول الله، ابن اخي عتبة بن ابي وقاص عهد إلي انه ابنه انظر إلى شبهه، وقال عبد بن زمعة: اخي ولد على فراش ابي من وليدته، فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى شبهه، فراى شبها بينا بعتبة، فقال:" هو لك يا عبد، الولد للفراش، وللعاهر الحجر، واحتجبي منه يا سودة بنت زمعة"، فلم ير سودة قط.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فِي غُلَامٍ، فَقَالَ سَعْدٌ: هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ أَخِي عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ ابْنُهُ انْظُرْ إِلَى شَبَهِهِ، وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي مِنْ وَلِيدَتِهِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَبَهِهِ، فَرَأَى شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ، فَقَالَ:" هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ"، فَلَمْ يَرَ سَوْدَةَ قَطُّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کا ایک بچے کے سلسلہ میں ٹکراؤ اور جھگڑا ہو گیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ہے، انہوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ ان کا بیٹا ہے (میں اسے حاصل کر لوں)، آپ اس کی ان سے مشابہت دیکھئیے (کتنی زیادہ ہے)، عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مشابہت پر نظر ڈالی تو اسے صاف اور واضح طور پر عتبہ کے مشابہ پایا (لیکن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد (عبد بن زمعہ) وہ بچہ تمہارے لیے ہے (قانونی طور پر تم اس کے بھائی و سر پرست ہو)، بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے تحت بچے کی ماں ہوتی ہے، اور زنا کار کی قسمت و حصے میں پتھر ہے۔ اے سودہ بنت زمعہ! تم اس سے پردہ کرو ۱؎، تو اس نے ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کو کبھی نہیں دیکھا (وہ خود ان کے سامنے کبھی نہیں آیا)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 3 (2053)، 100 (2218)، الخصومات 6 (2421)، العتق 8 (2533)، الوصایا 4 (2745) المغازي 53 (4303)، الفرائض 18 (4349)، 28 (6765)، الحدود 23 (6817)، الأحکام 29 (7182)، صحیح مسلم/الرضاع 10 (1457)، (تحفة الأشراف: 16584)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطلاق 34 (2273)، سنن ابن ماجہ/النکاح 59 (2004)، موطا امام مالک/الأقضیة 21 (2281)، مسند احمد (6/129، 200، 273، 247)، سنن الدارمی/النکاح 41 (2282) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مشابہت کے پیش نظر آپ نے یہ بات کہی، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانب رہنمائی کر دی کہ بچہ اگرچہ صاحب فراش کا ہے لیکن احکام شریعت کے سلسلہ میں احوط اور مناسب طریقہ اپنایا جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري2533عائشة بنت عبد اللهإن عتبة بن أبي وقاص عهد إلى أخيه سعد بن أبي وقاص أن يقبض إليه ابن وليدة زمعة قال عتبة إنه ابني فلما قدم رسول الله زمن الفتح أخذ سعد ابن وليدة زمعة فأقبل به إلى رسول الله وأقبل معه بعبد بن زمعة فقال سعد يا رسول الله
   صحيح البخاري2218عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة فلم تره سودة قط
   صحيح البخاري2421عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   صحيح البخاري6749عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح البخاري2745عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر لسودة بنت زمعة احتجبي منه
   صحيح البخاري6765عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح البخاري6817عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   صحيح البخاري7182عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر لسودة بنت زمعة احتجبي منه لما رأى من شبهه بعتبة فما رآها حتى لقي الله
   صحيح البخاري2053عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح مسلم3613عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد الولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة
   سنن أبي داود2273عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي عنه يا سودة
   سنن النسائى الصغرى3514عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة
   سنن النسائى الصغرى3517عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   سنن ابن ماجه2004عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي عنه يا سودة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم360عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش وللعاهر الحجر
   مسندالحميدي240عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش واحتجبي منه يا سودة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 360  
´بچہ صاحب بستر کا ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولد للفراش وللعاهر الحجر . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ! یہ تمہارے سپرد ہے، اولاد اسی کی شمار ہو گی جس کے بستر پر پیدا ہو، اور زانی کے لئے پتھر (سنگسار کرنا) ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 360]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6749، من حديث مالك به ورواه مسلم 1457 من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ ایک آدمی کی ایک عورت سے شادی ہوئی پھر اس کے (نو مہینے) بعد اس عورت کا بچہ یا بچی پیدا ہوئی۔ یہ بچہ یا بچی اس آدمی کے بستر پر پیدا ہوئی ہے لہٰذا اس حدیث کی رو سے ثابت ہوا کہ یہ اسی آدمی کا بچہ یا بچی ہے الا یہ کہ باپ اس کا انکار کر دے یا کوئی شرعی قرینہ پایا جائے۔
● بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں آدمی کا بیٹا ہے، اس کا ثبوت تقلید کرنے سے ہی ملتا ہے۔‏‏‏‏ ان لوگوں کا یہ قول باطل ہے کیونکہ بیٹے یا بیٹی کا ثبوت اس صحیح حدیث (اور دوسری احادیث) سے ملتا ہے۔ جب نکاح ثابت ہو جائے تو اولاد خود بخود ثابت ہو جاتی ہے جو اس نکاح کے بعد باپ کے بستر پر پیدا ہوئی ہے۔ باپ کے بستر سے مراد یہ ہے کہ وہ فلاں عورت کا شوہر ہے۔
➋ احتیاط کرنا اور مشتبہ اشیاء سے بچنا افضل ہے۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: «دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ» جس چیز کے بارے میں تمہیں شک و شبہ ہو تو اسے چھوڑ دو اور جس چیز کے بارے میں شک و شبہ نہ ہو (یقین ہو) اسے لے لو۔ [سنن الترمذي: 2518 وسنده صحيح، وقال الترمذي: هٰذا حديث صحيح و صححه ابن خزيمة: 2348 وابن حبان، الموارد:512 والحاكم 13/2 والذهبي]
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں امہات المومنین اور صحابہ کرام ہر وقت پیش پیش اور مستعد رہتے تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
➍ بغیر کسی شری قرینے کے تمام نصوص شرعیہ کے ظاہر پر عمل ہو گا۔
➎ زنا کی سزا رجم (سنگسار / پتھر مار مار کر مار دینا) ہے بشرطیکہ زنا کرنے والا شادی شدہ ہو۔ «الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ» والی حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار المتناثره فى الاخبار المتواتره 82 و نظم المتناثر من الحديث المتواتر 181]
● اسی طرح یہ بھی متواتر ہے کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو زنا کی وجہ سے سنگسار کیا گیا تھا۔ دیکھئے: [قطف الازهار 83 ولفظ الآلي المتناثره فى الأحاديث المتواتره 47 ونظم المتناثر 182]
◄ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ شادی شدہ زانی کو سزائے رجم دینا متواتر، قطعی اور یقینی احادیث سے ثابت ہے۔ بعض منکرین حدیث کا سزائے رجم کا انکار کرنا باطل اور مردود ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 54، البخاري: 6633, 6634]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 41   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3514  
´شوہر اگر بچے کا انکار نہ کرے تو جس کی عورت ہو گی بچہ اسی کا مانا جائے گا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کا ایک بچے کے سلسلہ میں ٹکراؤ اور جھگڑا ہو گیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ہے، انہوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ ان کا بیٹا ہے (میں اسے حاصل کر لوں)، آپ اس کی ان سے مشابہت دیکھئیے (کتنی زیادہ ہے)، عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3514]
اردو حاشہ:
(1) جس بچے کے بارے میں جھگڑا تھا‘ وہ زمعہ کی لونڈی سے پیدا ہوا تھا۔ حقیقتاً وہ عتبہ کے ناجائز نطفے سے تھا۔ جاہلیت میں لونڈیوں سے زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو دعویٰ کرنے والے زانی کی طرف منسوب کردیا جاتا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا دعویٰ اسی جاہلی رواج کی بنا پر تھا لیکن اسلام نے اس قبیح رسم کو ختم کیا اب زانی کی طرف بچہ منسوب نہیں ہوگا۔ عورت کا خاوند یا مالک انکار نہ کرے تو اسی کا بیٹا ہوگا۔ اگر وہ انکار کردے تو جننے والی ماں کی طرف منسوب ہوگا۔
(2) رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت سودہؓ بھی زمعہ کی بیٹی تھیں۔ اس ناتے وہ بچہ ان کا بھی بھائی بنتا تھا مگر چونکہ حقیقتاً وہ عتبہ کے نطفے سے تھا‘ لہٰـذا قانونی بھائی ہونے کے باوجود اس سے پردے کا حکم دیا کیونکہ وہ حقیقی بھائی نہ تھا۔ یہ جھگڑا فتح مکہ کے موقع پر ہوا تھا۔
(3) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ قیافہ شناسی وہاں معتبر ہوگی جہاں اس کے معارض کوئی اس سے قوی دلیل نہ ہو۔ نبی اکرم ﷺ نے یہاں مشابہت کا اعتبار نہیں کیا اور نہ لعان میں کیا ہے کیونکہ یہاں اس کے معارض اس سے قوی دلائل موجود ہیں‘ یعنی یہ شرعی اصول کہ بچہ بستر والے کی طرف منسوب ہوگا‘ اور لعان کی مشروعیت جبکہ زید بن حارثہ والے واقعے میں اس کا اعتبار کیا ہے کیونکہ وہاں اس کے معارض کوئی اس سے قوی دلیل موجود نہیں۔ واللہ أعلم۔ حاکم یا جج کا فیصلہ کیس کی حقیقت اور اصلیت کو نہیں بدلے گا اگرچہ وہ فیصلہ ظاہری دلائل کی روشنی میں کرے گا جیسے کوئی جھوٹی گواہی دے اور جج اس کے مطابق فیصلہ کردے تو جس کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ ہوا ہے اس کے لیے وہ چیز شرعاً حلال نہیں ہوگی۔ آپ نے اس بچے کو عبد بن زمعہ کا بھائی قراردیا‘ شرعی اصول کی بنا پر‘ لیکن سودہ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا‘ اس لیے کہ حقیقتاً وہ ان کا بھائی نہیں تھا کیونکہ اس کی عتبہ سے واضح مشابہت موجود تھی۔ اس سلسلے میں نبیﷺ کا واضح فرمان بھی موجود ہے کہ اگر میں ظاہری دلائل کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کسی حق میں کردوں تو اس سے وہ چیز اس کے لیے واقعتا حلال نہیں ہوجائے گی بلکہ وہ ایسے سمجھے کہ میں اسے جہنم کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔ اسے وہ نہیں لینا چاہیے۔ (صحیح البخاري‘ الشھادات‘ حدیث: 2680‘ وصحیح مسلم‘ الأقضیة‘ حدیث: 1713)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3514   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2004  
´بچے کا حقدار بستر والا (شوہر) ہے اور پتھر کا مستحق زانی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عبد بن زمعہ اور سعد رضی اللہ عنہما دونوں زمعہ کی لونڈی کے بچے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بھائی (عتبہ بن ابی وقاص) نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں، اور اس کو لے لوں، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے، میرے باپ کے بستر پہ پیدا ہوا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچہ کی مشابہت عتبہ سے پائی تو فرمایا: عبد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2004]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دور جاہلیت میں کسی کی لونڈی سے ناجائز تعلق قائم کرنا برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
اسلام میں صرف اپنی بیوی اور اپنی مملوکہ سے صنفی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔
باقی ہر قسم کا صنفی تعلق قابل سزا جرم ہے۔ (دیکھئے: سورۃ مومنون، آیت: 5، 6، 7)
جس طرح بیوی سے پیدا ہونے والا لڑکا مرد کا بیٹا ہوتا ہے، اسی طرح اپنی مملوکہ لونڈی سے پیدا ہونے والا لڑکا بھی مرد کا آزاد بیٹا ہوتاہے، غلام نہیں۔

(3)
جاہلیت میں ناجائز تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ اسی شخص کا بیٹا سمجھا جاتا تھا جس کے تعلقات کے نتیجے میں وہ پیدا ہوا۔
جاہلیت کے اسی رواج کے مطابق حضرت سعد بن ابی وقاص، زمعہ کی لونڈی سے پیدا ہونےوالے بچے کو اپنے بھا ئی کا بچہ قرار دیتے ہوئے اسے اپنی کفالت میں رکھنا چاہتے تھے۔

(4)
حضرت عبد بن زمعہ کا موقف یہ تھا کہ وہ بچہ قانونی طور پر ان کا بھائی ہے کیونکہ ان کے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کا حقیقی باپ کوئی بھی ہو۔

(5)
  بچے کی ظاہری شکل و شباہت سے یہی ثابت ہورہا تھا کہ وہ حضرت سعد کے بھائی سے پیدا ہوا ہے لیکن قانونی طور پر وہ حضرت عبد بن زمعہ کا بھائی قرار پایا۔

(6)
چونکہ واضح ہورہاتھا کہ وہ لڑکا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا قانونی بھائی ہونے کے باوجود اصل میں بھائی نہیں، اس لیے رسول اللہﷺ نے ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔

(7)
  بعض اوقات ایک مسئلے کے دو پہلو ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے دو مختلف حکم مرتب ہوتےہیں۔
ایک معاملے میں ایک پہلو کو ترجیح دی جاتی ہے اور دوسرے معاملے میں دوسرے پہلو کو، جیسے اس لڑکے کو زمعہ کا بیٹا قرار دیے جانے کے باوجود اس کی بہن حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا گیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2004   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2273  
´بچہ صاحب فراش کا ہو گا (یعنی جس کی بیوی یا لونڈی ہو گی بچہ اسی کو ملے گا)۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا جھگڑا لے آئے، سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں تو اس کو لے لوں کیونکہ وہ انہیں کا بیٹا ہے، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، اور میرے والد کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2273]
فوائد ومسائل:

چونکہ یہ معاملات جاہلیت کے تھے اور وہ لوگ اس انداز کے اعمال میں ملوث تھے تو ان بچوں سے بھی کوئی عار نہ سمجھتے تھے مگر اسلام نے یہ قائدہ قانون دیا ہے۔
کہ بچہ بستر والے کا ہوتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بچے کی شکل سے نمایاں تھا کہ یہ ولد الزنا ہےاور عتبہ کا لڑکا ہے مگر قاعدہ اور اصول کو ترجیح دی گئی اور اسے صاحب فراش کے ساتھ ملحق کردیا گیا۔
قانونئ اعتبار سے یہ اگرچہ حضرت سودہ کا بھائی بنا مگر دعوی اور شکل وصورت زانی کے ساتھ ملتی تھی اس لیے اس کا نسب مشتبہ ٹھرا۔
تو نبی ﷺ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو پردے کا حکم دیا کیونکہ اس کا بھائی ہونا مشکوک تھا۔
اگرچہ قاعدے کی رو سے ان کے خاندان کا فرد بنا دیا گیا تھا۔


(وللعاهرِ الحجرُ) کا ایک ترجمہ زانی کے لیے محرومی ہے اس صورت میں جیم پر زبر کے بجائے سکون یعنی جزم آئے گی۔
مطلب دونوں صورتوں میں یہی ہوگا کہ اولاد کا مستحق زانی نہیں ہوگا بلکہ اس کے حصے میں سزا آئے گی۔
حد رجم یا سو کوڑے اور بچے سے وہ محروم ہی رہے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2273   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.