الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
ابواب: قسم اور نذر کے احکام و مسائل
The Book of Oaths and Vows
25. بَابُ : النَّذْرِ لاَ يُقَدِّمُ شَيْئًا وَلاَ يُؤَخِّرُهُ
25. باب: نذر کسی (مقدر) چیز کو آگے اور پیچھے نہیں کرتی ہے۔
Chapter: A Vow Does Not Bring Anything Forward Nor Put It Back
حدیث نمبر: 3835
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عبد الله بن محمد بن عبد الرحمن , قال: حدثنا سفيان , قال: حدثنا ابو الزناد , عن الاعرج , عن ابي هريرة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا ياتي النذر على ابن آدم شيئا لم اقدره عليه , ولكنه شيء استخرج به من البخيل".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ , عَنِ الْأَعْرَجِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَأْتِي النَّذْرُ عَلَى ابْنِ آدَمَ شَيْئًا لَمْ أُقَدِّرْهُ عَلَيْهِ , وَلَكِنَّهُ شَيْءٌ اسْتُخْرِجَ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) نذر ابن آدم کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لا سکتی جسے میں نے اس کے لیے مقدر نہ کیا ہو، البتہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے بخیل سے (کچھ مال) نکال لیا جاتا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 13723)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأیمان 26 (6692)، صحیح مسلم/ال نذر (1640)، سنن ابی داود/الأیمان 21 (3288)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 15(2123)، مسند احمد 2/242) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث قدسی ہے اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃً اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا ہے، لیکن سیاق سے بالکل واضح ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   صحيح البخاري6609عبد الرحمن بن صخرلا يأت ابن آدم النذر بشيء لم يكن قد قدرته ولكن يلقيه القدر وقد قدرته له أستخرج به من البخيل
   صحيح البخاري6694عبد الرحمن بن صخرلا يأتي ابن آدم النذر بشيء لم يكن قدر له ولكن يلقيه النذر إلى القدر قد قدر له فيستخرج الله به من البخيل فيؤتي عليه ما لم يكن يؤتي عليه من قبل
   صحيح مسلم4243عبد الرحمن بن صخرالنذر لا يقرب من ابن آدم شيئا لم يكن الله قدره له ولكن النذر يوافق القدر فيخرج بذلك من البخيل ما لم يكن البخيل يريد أن يخرج
   صحيح مسلم4242عبد الرحمن بن صخرنهى عن النذر وقال لا يرد من القدر وإنما يستخرج به من البخيل
   صحيح مسلم4241عبد الرحمن بن صخرلا تنذروا فإن النذر لا يغني من القدر شيئا وإنما يستخرج به من البخيل
   جامع الترمذي1538عبد الرحمن بن صخرلا تنذروا فإن النذر لا يغني من القدر شيئا وإنما يستخرج به من البخيل
   سنن أبي داود3288عبد الرحمن بن صخرلا يأتي ابن آدم النذر القدر بشيء لم أكن قدرته له ولكن يلقيه النذر القدر قدرته يستخرج من البخيل يؤتي عليه ما لم يكن يؤتي من قبل
   سنن النسائى الصغرى3835عبد الرحمن بن صخرلا يأتي النذر على ابن آدم شيئا لم أقدره عليه ولكنه شيء استخرج به من البخيل
   سنن النسائى الصغرى3836عبد الرحمن بن صخرلا تنذروا فإن النذر لا يغني من القدر شيئا وإنما يستخرج به من البخيل
   سنن ابن ماجه2123عبد الرحمن بن صخرالنذر لا يأتي ابن آدم بشيء إلا ما قدر له ولكن يغلبه القدر ما قدر له فيستخرج به من البخيل فيتسر عليه ما لم يكن فيتسر عليه من قبل ذلك قال الله أنفق أنفق عليك
   صحيفة همام بن منبه39عبد الرحمن بن صخرلا يأتي ابن آدم النذر بشيء لم أكن قد قدرته ولكنه يلفيه النذر وقد قدرته له أستخرج به من البخيل ويؤتيني عليه ما لم يكن آتاني من قبل
   مسندالحميدي1144عبد الرحمن بن صخر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3835  
´نذر کسی (مقدر) چیز کو آگے اور پیچھے نہیں کرتی ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) نذر ابن آدم کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لا سکتی جسے میں نے اس کے لیے مقدر نہ کیا ہو، البتہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے بخیل سے (کچھ مال) نکال لیا جاتا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3835]
اردو حاشہ:
(1) عام لوگوں کا ذہن یہ ہے کہ نذر ماننے سے شاید تقدیر یا مصیبت ٹل جاتی ہے‘ حالانکہ نذر سے کچھ بھی نہیں ہوتا‘ نہ یہ شرعاً مستسحن ہے۔ اس کی بجائے صدقہ مصیبت کو رد کرتا ہے اور دعا بھی تقدیر کو ٹال سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ دعا کی برکت سے اپنا کوئی فیصلہ بدل سکتے ہیں۔ اسے کوئی روک سکتا ہے‘ نہ مجبور کرسکتا ہے اور نہ کوئی اس سے پوچھ ہی سکتا ہے۔ {لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ہُمْ یُسْئَلُوْنَ} (الانبیاء:21:23) وہ سب کچھ کرنے پر قادر ہے۔ لہٰذا ندر کی بجائے‘ صدقے‘ نیکی اور دعا کی طرف رغبت کرنی چاہیے۔
(2) یہ حدیث‘ احادیث قدسیہ میں شمار کی گئی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3835   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2123  
´نذر سے ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر سے آدمی کو کچھ نہیں ملتا مگر وہ جو اس کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے، لیکن آدمی کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ نذر پر غالب آ جاتا ہے، تو اس نذر سے بخیل کا مال نکالا جاتا ہے، اور اس پہ وہ بات آسان کر دی جاتی ہے، جو پہلے آسان نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو مال خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2123]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  سخی آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہتا ہے۔
اسے نذر ماننے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

(2)
  مشروط نذر ماننا بخیلوں کا کام ہے۔
نذر ماننے والا کہتا ہے:
اگر میرا فلاں کام ہو گیا یا فلاں مصیبت ٹل گئی تو اتنی رقم صدقہ کروں گا، گویا وہ کہہ رہا ہے کہ اگر میرا کام نہ ہوا تو یہ صدقہ نہیں کروں گا۔
اس لحاظ سے نذر مکروہ ہے۔

(3)
  غیر مشروط نذر یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ سے وعدہ کرے کہ فلاں نیکی کا کام کروں گا۔
یہ ثواب کا کام ہے۔

(4)
  نذر ایک عبادت ہے اس لیے نذر خواہ مخواہ مشروط ہو یا غیر مشروط صرف اللہ ہی کے لیے ماننی چاہیے۔
کسی ولی، مزار یا بت وغیرہ کے لیے نذر ماننا اس کی عبادت ہے جو شرک ہے۔

(5)
  اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنے سے مال میں برکت ہوتی ہے اور مشکلات دور ہوتی ہیں۔

(6)
  ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے لیکن دعا، نذر اور دیگر عبادتوں کے ذریعے سے ہم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اسی سے امید وابستہ کرتے ہیں کہ اپنی رحمت سے ہماری حاجتیں پوری کرے اور مشکلات دور فرمائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2123   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1538  
´نذر کی کراہت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر مت مانو، اس لیے کہ نذر تقدیر کے سامنے کچھ کام نہیں آتی، صرف بخیل اور کنجوس کا مال اس طریقہ سے نکال لیا جاتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1538]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نذر سے منع کرنا دراصل بہتر کی طرف رہنمائی کرنا مقصود ہے،
صدقہ وخیرات کو مقصود کے حصول سے معلق کرنا کسی بھی صاحب عظمت ومروت کے شایان شان نہیں،
یہ عمل اس بخیل کا ہے جو کبھی خرچ نہیں کرتا اور کرنے پر بہترچیز کی خواہش رکھتا ہے اور ایسا وہی شخص کرتاہے جس کا دل صدقہ و خیرات کرنا نہیں چاہتا صرف کسی تنگی کے پیش نظر اصلاح حال کے لیے صدقہ وخیرات کی نذر مانتا ہے،
نذر سے منع کرنے کی یہی وجہ ہے (واللہ اعلم)۔

2؎:
اور اگر معصیت کی نذر ہو تو اس کا پورا کرنا صحیح نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1538   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3288  
´نذر کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ کہتا ہے:) نذر ابن آدم کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لا سکتی جسے میں نے اس کے لیے مقدر نہ کیا ہو لیکن نذر اسے اس تقدیر سے ملاتی ہے جسے میں نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، یہ بخیل سے وہ چیز نکال لیتی ہے جسے وہ اس نذر سے پہلے نہیں نکالتا ہے (یعنی اپنی بخالت کے سبب صدقہ خیرات نہیں کرتا ہے مگر نذر کی وجہ سے کر ڈالتا ہے) ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3288]
فوائد ومسائل:
نذر ماننا اس معنی میں منع ہے۔
جیسے کہ جہلا ء سمجھتے ہیں۔
کہ اس سے فوری طور پرکوئی فائدہ ہوگا۔
یا کسی نقصان سے بچائو ہوجائے گا۔
ورنہ مطلقا ً اللہ کا قرب حاصل کرنےکےلئے کسی عبادت کو اپنے اوپر لازم کرلینا مشروع ہے۔
اور پھر اس کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔
اور اسی کو نذر کہا جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3288   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.