الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book of ad-Dahaya (Sacrifices)
17. بَابُ : ذَبْحِ الضَّحِيَّةِ قَبْلَ الإِمَامِ
17. باب: امام سے پہلے قربانی کے جانور کے ذبح کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4399
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، عن ابن ابي زائدة، قال: انبانا ابي، عن فراس، عن عامر، عن البراء بن عازب. ح وانبانا داود بن ابي هند، عن الشعبي، عن البراء، فذكر احدهما ما لم يذكر الآخر، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الاضحى، فقال:" من وجه قبلتنا، وصلى صلاتنا، ونسك نسكنا، فلا يذبح حتى يصلي"، فقام خالي، فقال: يا رسول الله , إني عجلت نسكي لاطعم اهلي، واهل داري، او اهلي، وجيراني. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اعد ذبحا آخر"، قال: فإن عندي عناق لبن هي احب إلي من شاتي لحم، قال:" اذبحها فإنها خير نسيكتيك، ولا تقضي جذعة عن احد بعدك".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبِي، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ. ح وَأَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ، فَذَكَرَ أَحَدُهُمَا مَا لَمْ يَذْكُرِ الْآخَرُ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَضْحَى، فَقَالَ:" مَنْ وَجَّهَ قِبْلَتَنَا، وَصَلَّى صَلَاتَنَا، وَنَسَكَ نُسُكَنَا، فَلَا يَذْبَحْ حَتَّى يُصَلِّيَ"، فَقَامَ خَالِي، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي عَجَّلْتُ نُسُكِي لِأُطْعِمَ أَهْلِي، وَأَهْلَ دَارِي، أَوْ أَهْلِي، وَجِيرَانِي. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعِدْ ذِبْحًا آخَرَ"، قَالَ: فَإِنَّ عِنْدِي عَنَاقَ لَبَنٍ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ، قَالَ:" اذْبَحْهَا فَإِنَّهَا خَيْرُ نَسِيكَتَيْكَ، وَلَا تَقْضِي جَذَعَةٌ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ".
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی کے دن کھڑے ہو کر فرمایا: جس نے ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا، ہماری جیسی نماز پڑھی اور قربانی کی تو وہ جب تک نماز نہ پڑھ لے ذبح نہ کرے۔ یہ سن کر میرے ماموں کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے قربانی میں جلدی کر دی تاکہ میں اپنے بال بچوں اور گھر والوں - یا اپنے گھر والوں اور پڑوسیوں - کو کھلا سکوں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوبارہ قربانی کرو، انہوں نے عرض کیا: میرے پاس بکری کا ایک چھوٹا بچہ ۲؎ ہے جو مجھے گوشت والی دو بکریوں سے زیادہ عزیز ہے، آپ نے فرمایا: تم اسی کو ذبح کرو، یہ ان دو کی قربانی سے بہتر ہے، لیکن تمہارے بعد جذعے کی قربانی کسی کی طرف سے کافی نہیں ہو گی۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1564 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی: امام سے پہلے یعنی عید الاضحی کی نماز سے پہلے قربانی کا کیا حکم ہے؟ ۲؎: «عناق لبن» سے مراد وہ بکری جو ابھی ایک سال کی نہیں ہوئی ہو، اور حدیث نمبر ۴۳۸۴ میں اسی تناظر میں «عتود» کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی ہیں بکری کا وہ بچہ جو ایک سال ہو چکا ہو مگر دانتا ہوا نہ ہو، اور دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ دونوں قسم کے جانوروں کی قربانی کی اجازت صرف مذکورہ دونوں صحابہ کے لیے دی گئی، اور عام حالات میں عام مسلمانوں کے لیے صرف دانتا جانور ہی جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   صحيح البخاري5560براء بن عازبنصلي ثم نرجع فننحر فمن فعل هذا فقد أصاب سنتنا ومن نحر فإنما هو لحم يقدمه لأهله ليس من النسك في شيء ذبحت قبل أن أصلي وعندي جذعة خير من مسنة فقال اجعلها مكانها ولن تجزي أو توفي عن أحد بعدك
   صحيح البخاري5556براء بن عازبمن ذبح قبل الصلاة فإنما يذبح لنفسه ومن ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه وأصاب سنة المسلمين
   صحيح البخاري955براء بن عازبمن صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد أصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فإنه قبل الصلاة ولا نسك له فقال أبو بردة بن نيار خال البراء يا رسول الله فإني نسكت شاتي قبل الصلاة وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب وأحببت أن تكون شاتي أول ما يذبح في بيتي فذبحت شاتي وتغديت قبل أن آتي
   صحيح البخاري5563براء بن عازبمن صلى صلاتنا واستقبل قبلتنا فلا يذبح حتى ينصرف عندي جذعة هي خير من مسنتين آذبحها قال نعم ثم لا تجزي عن أحد بعدك قال عامر هي خير نسيكتيه
   صحيح البخاري951براء بن عازبنصلي ثم نرجع فننحر فمن فعل فقد أصاب سنتنا
   صحيح البخاري968براء بن عازباذبحها ولن تجزي جذعة عن أحد بعدك
   صحيح البخاري965براء بن عازبنصلي ثم نرجع فننحر فمن فعل ذلك فقد أصاب سنتنا ومن نحر قبل الصلاة فإنما هو لحم قدمه لأهله ليس من النسك في شيء
   صحيح البخاري976براء بن عازبنبدأ بالصلاة ثم نرجع فننحر فمن فعل ذلك فقد وافق سنتنا ومن ذبح قبل ذلك فإنما هو شيء عجله لأهله ليس من النسك في شيء ذبحت وعندي جذعة
   صحيح البخاري983براء بن عازبمن صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد أصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فتلك شاة لحم فقام أبو بردة بن نيار فقال يا رسول الله والله لقد نسكت قبل أن أخرج إلى الصلاة وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب فتعجلت وأكلت وأطعمت أهلي وجيراني فقال رسول الله تلك شاة
   صحيح البخاري5545براء بن عازبنصلي ثم نرجع فننحر من فعله فقد أصاب سنتنا ومن ذبح قبل فإنما هو لحم قدمه لأهله ليس من النسك في شيء
   صحيح مسلم5076براء بن عازبلا يضحين أحد حتى يصلي قال رجل عندي عناق لبن هي خير من شاتي لحم قال فضح بها ولا تجزي جذعة عن أحد بعدك
   صحيح مسلم5069براء بن عازبمن ضحى قبل الصلاة فإنما ذبح لنفسه ومن ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه وأصاب سنة المسلمين
   صحيح مسلم5070براء بن عازبهي خير نسيكتيك ولا تجزي جذعة عن أحد بعدك
   صحيح مسلم5077براء بن عازباجعلها مكانها ولن تجزي عن أحد بعدك
   صحيح مسلم5073براء بن عازبنصلي ثم نرجع فننحر فمن فعل ذلك فقد أصاب سنتنا ومن ذبح فإنما هو لحم قدمه لأهله ليس من النسك في شيء عندي جذعة خير من مسنة فقال اذبحها ولن تجزي عن أحد بعدك
   صحيح مسلم5072براء بن عازبمن صلى صلاتنا ووجه قبلتنا ونسك نسكنا فلا يذبح حتى يصلي فقال خالي يا رسول الله قد نسكت عن ابن لي فقال ذاك شيء عجلته لأهلك فقال إن عندي شاة خير من شاتين قال ضح بها فإنها خير نسيكة
   جامع الترمذي1508براء بن عازبلا يذبحن أحدكم حتى يصلي قال فقام خالي فقال يا رسول الله هذا يوم اللحم فيه مكروه وإني عجلت نسكي لأطعم أهلي وأهل داري أو جيراني قال فأعد ذبحا آخر فقال يا رسول الله عندي عناق لبن وهي خير من شاتي لحم أفأذبحها قال نعم وهي خير نسيكتيك ولا تجزئ جذعة بعدك
   سنن أبي داود2801براء بن عازبشاتك شاة لحم فقال يا رسول الله إن عندي داجنا جذعة من المعز فقال اذبحها ولا تصلح لغيرك
   سنن أبي داود2800براء بن عازبمن صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد أصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فتلك شاة لحم فقام أبو بردة بن نيار فقال يا رسول الله والله لقد نسكت قبل أن أخرج إلى الصلاة وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب فتعجلت فأكلت وأطعمت أهلي وجيراني فقال رسول الله تلك شاة
   سنن النسائى الصغرى1582براء بن عازبمن صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد أصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فتلك شاة لحم فقال أبو بردة بن نيار يا رسول الله والله لقد نسكت قبل أن أخرج إلى الصلاة عرفت أن اليوم يوم أكل وشرب فتعجلت فأكلت وأطعمت أهلي وجيراني فقال رسول الله تلك شاة لحم قا
   سنن النسائى الصغرى1564براء بن عازبنصلي ثم نذبح فمن فعل ذلك فقد أصاب سنتنا ومن ذبح قبل ذلك فإنما هو لحم يقدمه لأهله عندي جذعة خير من مسنة قال اذبحها ولن توفي عن أحد بعدك
   سنن النسائى الصغرى4399براء بن عازبلا يذبح حتى يصلي أعد ذبحا آخر قال فإن عندي عناق لبن هي أحب إلي من شاتي لحم قال اذبحها فإنها خير نسيك
   سنن النسائى الصغرى4400براء بن عازبمن صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد أصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فتلك شاة لحم فقال أبو بردة يا رسول الله والله لقد نسكت قبل أن أخرج إلى الصلاة وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب فتعجلت فأكلت وأطعمت أهلي وجيراني فقال رسول الله تلك شاة لحم قال فإن
   المعجم الصغير للطبراني466براء بن عازب نهى أن يذبح الرجل أضحيته قبل أن يصلي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4399  
´امام سے پہلے قربانی کے جانور کے ذبح کرنے کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی کے دن کھڑے ہو کر فرمایا: جس نے ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا، ہماری جیسی نماز پڑھی اور قربانی کی تو وہ جب تک نماز نہ پڑھ لے ذبح نہ کرے۔ یہ سن کر میرے ماموں کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے قربانی میں جلدی کر دی تاکہ میں اپنے بال بچوں اور گھر والوں - یا اپنے گھر والوں اور پڑوسیوں - کو کھلا سکوں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوبارہ قربانی کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4399]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ جس شخص نے قربانی کا التزام کیا ہو اگر وہ قربانی اس سے ضائع ہوجائے بایں طور کہ وہ نماز عید سے پہلے قربانی کردے، یا قر بانی کا جانور مرجائے، یا اسی طر ح کا کوئی مسئلہ بن جائے تو اس کے بدلے اس پر دوسری قربانی واجب اور ضروری ہوگی۔ بشرطیکہ وہ قربانی کر نے کی طاقت رکھتا ہو۔ اگروہ شخص دوسری قربانی کی استطا عت ہی نہیں رکھتا تو اس پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے کیو نکہ ارشاد باری ہے: ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ:286/2) اللہ کسی نفس کو نہیں تکلیف دیتا مگر اس کی وسعت کے مطابق ہی اسی طر ح یہ بھی ارشاد ربانی ہے: ﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن:64/16) اللہ تعالیٰ سے ڈر و جتنی طاقت رکھتے ہو۔ یا د رہے طاقت اور وسعت کے باوجو د اگر کوئی قربانی نہیں کرتا وہ گناہ گار ہے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ احکام و مسائل میں مرجع صرف نبی ﷺ کی ذات مبارکہ ہے یہ حیثیت آپ ہی کی ہے کہ افراد امت میں سے کسی کو، کسی حکم کے ذریعے سے خاص کر دیں اور دوسرے لو گوں کو روک دیں جیسا کہ آپ نے حضرت براء بن عازب کے ماموں حضرت ابو بردہ بن نیار کے ساتھ کیا۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ نماز عید کی ادائیگی سے پہلے قربانی کرنا قطعی طور پر ناجائز ہے، خواہ نیت نیکی اور ثوا ب کمانے ہی کی ہو جیسا کہ حضرت ابو بردہ ؓ کی نیت اپنے اہل و عیال اور محلے دار (غریب) ہمسایوں کو گوشت کھلانے کی تھی۔
(4) حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ امام کو چاہیے خطبہ عید میں قربانی سے متعلق احکام و مسائل بیان کرے۔
(5) یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ شارع ؑ کا ایک شخص کو خطاب تمام لوگوں کے لیے خطاب ہو تا ہے،لہٰذا دیگر لوگ بھی اس حکم کے مکلف اور پابند ہوتے ہیں حضرت ابو بردہ ؓ کو بکری کا بچہ ذبح کرنے کی اجازت دی تو ساتھ ہی یہ بھی بیا ن فرما دیا کہ تیرے بعد اورکسی کے لیے، قربانی میں، اس عمر کا بکری کا بچہ کفایت نہیں کرے گا۔ اگر نبی ﷺ یہ الفاظ نہ فرماتے تو پھر ہرشخص کے لیے یہ اجازت ہوتی۔
(6) یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نیک نیتی سے کیا جانے والا صالح عمل بھی اس وقت تک اللہ کے ہاں صحیح اور قابل قبول نہیں ہوسکتا جب تک وہ شریعت مطہرہ کے مطابق سرانجام نہ د یا جائے۔
(7) اس حدیث میں یہ ذکر تو نہیں کہ امام سے پہلے قربانی نہیں کرنی چاہیے لیکن چونکہ اس دور میں نبی ﷺ نماز عید کے بعد سب لو گوں کے سامنے وہیں قر بانی کردیتے تھے۔ باقی لوگ بعد میں کرتے تھے، لہٰذ ا کہا جا سکتا ہے کہ امام کے بعد قربانی کرنی چاہیے لیکن اگر امام قربانی نہ کرے یا وہ عید گاہ میں خطبہ کے فورا بعد نہ کرے تو لوگوں پر کوئی ایسی پابندی نہیں کہ وہ لازما امام صاحب سے بعد ہی کریں، البتہ نماز عید سے پہلے قطعا نہیں ہونی چاہیے۔ امام مالک رحمہ اللہ تو ایسے امام کی امامت عید ہی درست نہیں سمجھتے جو قربانی نہ کرے، نیز ان کے نزدیک امام کو قربانی عید گاہ میں سب سے پہلے کرنی چاہیے۔ خیر امام مالک رحمہ اللہ کی رائے اور اجتہاد ہے جس سے اتفاق ضروری نہیں۔
(8) اچھی قربانی ہوگی کیونکہ وہ بروقت ہوئی اور قبول ہوئی، بخلاف پہلی قربانی کے کہ وہ وقت سے پہلے ذبح ہونےکی وجہ سے قبولیت سے محرومی رہی۔
(9) کفایت نہیں کرے گا رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مقصود یہ تھا کہ تیرے جیسا لا چار شخص بھی مثلا: جو غلطی سے قربانی بے وقت ذبح کر چکا ہو یا اس کی قربانی کا جانور مر گیا ہو، یا گم ہو گیا ہو اور وہ مزید خریدنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، تو بکری کا جذعہ ذبح نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے ظاہر کا خیا ل رکھتے ہوئے اب کسی کو بھی، خواہ وہ معذور و مجبور ہی ہو، جذعہ (بکرا) قربان کرنے کی اجازت نہیں دی۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4399   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1508  
´نماز عید کے بعد قربانی کرنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا: جب تک نماز عید ادا نہ کر لے کوئی ہرگز قربانی نہ کرے۔‏‏‏‏ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے ۱؎، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلد کر دی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یا پڑوسیوں کو کھلا سکوں؟ آپ نے فرمایا: پھر دوسری قربانی کرو، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیا ہے اور گوشت والی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1508]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان کا نام ابوبردہ بن نیار تھا۔

2؎:
یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے کیوں کہ تمہارے لیے اس وقت مجبوری ہے ورنہ قربانی میں مسنہ (دانتایعنی دودانت والا) ہی جائز ہے،
بکری کا جذعہ وہ ہے جو سال پورا کرکے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہواس کی بھی قربانی صرف ابوبردہ کے لیے جائز کی گئی تھی،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت صلاۃ عید کے بعد ہے،
اگر کسی نے صلاۃ عید کی ادائیگی سے پہلے ہی جانور ذبح کردیا تو اس کی قربانی نہیں ہوئی،
اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔

3؎:
بھیڑ کے جذعہ (چھ ماہ) کی قربانی عام مسلمانوں کے لیے دانتا میسر نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے،
جب کہ بکری کے جذعہ (ایک سالہ) کی قربانی صرف ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1508   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2801  
´کس عمر کے جانور کی قربانی جائز ہے؟`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے ابوبردہ نامی ایک ماموں نے نماز سے پہلے قربانی کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس بکریوں میں سے ایک پلی ہوئی جذعہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی کو ذبح کر ڈالو، لیکن تمہارے سوا اور کسی کے لیے ایسا کرنا درست نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2801]
فوائد ومسائل:
مذکورہ بالا احادیث 2798 اور 2799 کو اسی پر محمول کرنا راحج ہے۔
کہ بھیڑ کا ایک سالہ جانور جو دو دانتا نہ ہو جائزہے۔
مگر بکری کی قسم سے جائز نہیں۔
جیسا کہ تفصیل میں گزر چکا ہے۔
دیکھئے (فوائد ومسائل حدیث 2797)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2801   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.