الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book of ad-Dahaya (Sacrifices)
38. بَابُ : ذَبَائِحِ الْيَهُودِ
38. باب: یہود کے ذبیحے کا بیان۔
Chapter: Animals Slaughtered By the Jews
حدیث نمبر: 4440
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن سليمان بن مغيرة، قال: حدثنا حميد بن هلال، قال: حدثنا عبد الله بن مغفل، قال:" دلي جراب من شحم يوم خيبر فالتزمته، قلت: لا اعطي احدا منه شيئا، فالتفت , فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يتبسم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُغِيرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُغَفَّلٍ، قَالَ:" دُلِّيَ جِرَابٌ مِنْ شَحْمٍ يَوْمَ خَيْبَرَ فَالْتَزَمْتُهُ، قُلْتُ: لَا أُعْطِي أَحَدًا مِنْهُ شَيْئًا، فَالْتَفَتُّ , فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَسَّمُ".
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے دن چربی کی ایک مشک لٹکی ہوئی ہاتھ آئی، میں اس سے لپٹ گیا، میں نے کہا: اس میں سے میں کسی کو کچھ نہیں دوں گا، پھر میں مڑا تو دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الخمس 20 (3153)، المغازي 38 (4214)، الصید 22 (5508)، صحیح مسلم/الجہاد 25 (1772)، سنن ابی داود/الجھاد 137 (2702)، (تحفة الأشراف: 9656)، مسند احمد (4/86 و5/55، 56)، سنن الدارمی/السیر57(2542) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس چربی کو لینے سے منع نہیں کیا، حالانکہ وہ یہودیوں کے ذبیحہ سے نکلی ہوئی تھی، جس سے ثابت ہوا کہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کا ذبیحہ جائز ہے، (سورۃ المائدہ آیت: ۵، میں بھی اس کی صراحت ہے) مگر شرط یہ ہے کہ ذبح اسلامی طریقہ پر کیا گیا ہو، ان کا مشینی ذبیحہ جائز نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري5508عبد الله بن مغفلرمى إنسان بجراب فيه شحم فنزوت لآخذه فالتفت فإذا النبي فاستحييت منه
   صحيح البخاري4214عبد الله بن مغفلرمى إنسان بجراب فيه شحم فنزوت لآخذه فالتفت فإذا النبي فاستحييت
   صحيح البخاري3153عبد الله بن مغفلرمى إنسان بجراب فيه شحم فنزوت لآخذه فالتفت فإذا النبي فاستحييت منه
   صحيح مسلم4606عبد الله بن مغفلرمي إلينا جراب فيه طعام وشحم يوم خيبر فوثبت لآخذه قال فالتفت فإذا رسول الله فاستحييت منه
   صحيح مسلم4605عبد الله بن مغفلأصبت جرابا من شحم يوم خيبر قال فالتزمته فقلت لا أعطي اليوم أحدا من هذا شيئا قال فالتفت فإذا رسول الله متبسما
   سنن أبي داود2702عبد الله بن مغفلدلي جراب من شحم يوم خيبر قال فأتيته فالتزمته قال ثم قلت لا أعطي من هذا أحدا اليوم شيئا قال فالتفت فإذا رسول الله يتبسم إلي
   سنن النسائى الصغرى4440عبد الله بن مغفلدلي جراب من شحم يوم خيبر فالتزمته قلت لا أعطي أحدا منه شيئا فالتفت فإذارسول الله يتبسم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3153  
´اگر کھانے کی چیزیں کافروں کے ملک میں ہاتھ آ جائیں`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا مُحَاصِرِينَ قَصْرَ خَيْبَرَ فَرَمَى إِنْسَانٌ بِجِرَابٍ فِيهِ شَحْمٌ فَنَزَوْتُ لِآخُذَهُ فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ . . .»
. . . عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم خیبر کے محل کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ کسی شخص نے ایک کپی پھینکی جس میں چربی بھری ہوئی تھی۔ میں اسے لینے کے لیے لپکا، لیکن مڑ کر جو دیکھا تو پاس ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ: 3153]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3153 باب: «بَابُ مَا يُصِيبُ مِنَ الطَّعَامِ فِي أَرْضِ الْحَرْبِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلے کی طرف نشاندہی فرمائی کہ کھانے پینے کی چیزیں مال غنیمت سے قبل استعمال کرنا درست ہے اور جمہور کا مذہب بھی یہی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الجمهور على جواز أحد الغانمين من القوت وما يصلح به و كل طعام يعتاد اكله عموما و كذالك علف الدواب سواء كان قبل القسمة أو بعدها بإذن الامام و بغير إذنه.» [فتح الباري، ج 6، ص: 314]
یعنی جمہور کا یہ فتوی ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو غنیمت پانے والے قبل از تقسیم کے کھا سکتے ہیں، اسی طرح چارا ہے اسے بھی اپنے جانوروں کو اسی طرح کھلا پلا سکتے ہیں چاہے وہ امام کی اجازت سے ہو یا بغیر اجازت سے۔
لیکن حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بایں الفاظ موجود نہیں ہیں، لیکن اگر غور کیا جائے تو سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں لپکا اس چمڑے کے برتن کی طرف جس میں چربی تھی، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ اب یہاں ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت کچھ اس طرح سے ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو قبل از تقسیم اس چیز کی طرف لپکتے ہوئے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ نہ کہا، تو لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش رہنا اس امر کے جائز ہونے کی دلیل ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وموضع الحجة عدم إنكار النبى صلى الله عليه وسلم، بل فى رواية مسلم ما يدل على رضاه فانه فيه، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم متبسما و زاد أبوداؤد الطيالسي فى آخره فقال هولك [فتح الباري، ج 6، ص: 315]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں انکار نہ کرنا یہ حجت کی دلیل ہے، بلکہ صحیح مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے الفاظ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرائے۔ اور أبوداؤد طیالسی میں آخری الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ آپ کا ہوا۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ مرقاۃ میں فرماتے ہیں:
«قال عياض: أجمع العلماء على جواز أكل طعام الحربين ما دام المسلمون فى دار الحرب على قدر حاجتهم، ولم يشترط أحد من العلماء استئذان الامام إلا الزهري.» [مرقاة المفاتيح، ج 7، ص: 576]
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علماء کا اس جواز پر اجماع ہے کہ مسلمان دار الحرب میں اپنی ضرورت کے مطابق کھا سکتے ہیں اور کسی اہل علم نے اس پر کسی قسم کی کوئی شرط عائد نہیں کی کہ اس کے لیے امام کی اجازت ضروری ہے سوائے امام زہری رحمہ اللہ کے۔
لہذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت واضح ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور یہ خاموشی دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت پر محمول تھی جس کے مختلف الفاظ مختلف کتب احادیث میں مرقوم ہیں۔
فائدہ:
مندرجہ بالا حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش رہنا اسے اصطلاحا تقریری حدیث کہا جاتا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یا سنت (اہل علم کے نزدیک یہ دونوں الفاظ معنی کے اعتبار سے مترادف ہیں) چاہے وہ قولی ہو، یا فعلی، یا تقریری تینوں اقسام بالاتفاق حجت ہیں قطعیت کے ساتھ، ائمہ حدیث ان تینوں اقسام کو حجت قرار دیتے ہیں اور ان تینوں کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کے ساتھ ہے۔
① امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«السنن تنقسم ثلاثة أقسام، قول من النبى صلى الله عليه وسلم، و فعل منه عليه السلام، و شيئ رآه و علمه فأقر عليه.» [الأحكام فى أصول الأحكام، ج 1، ص: 178]
یعنی سنن کی تین اقسام ہیں: نبی کا قول، نبی کا فعل اور (تقریر) جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھی اسے جاننا اور برقرار رکھنا۔
② ملا احمد جیون کی نور الانوار میں لکھا ہے:
«السنة: تطلق على قول الرسول صلى الله عليه وسلم وفعله و سكوته و على أقوال الصحابة و أفعالهم.» [نور الانوار، ج 1، ص: 179]
یعنی سنت کا اطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور خاموشی پر ہوتا ہے۔
③ امام صالح بن طاہر الجزائری فرماتے ہیں:
«وأما السنة فتطلق فى الأكثر على ما أضيف إلى النبى صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير فهي مرادفة للحديث عند علماء الأصول.» [توضية النظر، ج 3، ص: 3]
سنت کا اطلاق اکثر طور پر اس چیز پر ہوتا ہے جس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو۔ خواہ قول ہو یا فعل ہو یا تقریر ہو، یہ حدیث کے مترادف ہے علماء اصول کے نزدیک۔
④ حجاج الخطیب لکھتے ہیں:
«كل ما أشرع عن النبى صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير أو صفة خلقية أو خلقية أو سيرة سواءا كان ذالك قبل البعثة . . ..» [السنة قبل التدوين، ص: 16]
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال و افعال و تقریرات اور صفات خلقیہ و خلقیہ محاسن و شمائل اور سیرت سب کے مجموع کا نام ہے۔
⑤ امام جرجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«السنة شريعة مشترك بين ما صدر عن النبى صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير وبين ما واظب النبى صلى الله عليه وسلم عليه بلا وجوب.» [التعريفات، ص: 108]
شریعت میں سنت کا لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل، تقریر اور جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا وجوب ہمیشگی اختیار فرمائی کے درمیان مشترک ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 461   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4440  
´یہود کے ذبیحے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے دن چربی کی ایک مشک لٹکی ہوئی ہاتھ آئی، میں اس سے لپٹ گیا، میں نے کہا: اس میں سے میں کسی کو کچھ نہیں دوں گا، پھر میں مڑا تو دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4440]
اردو حاشہ:
(1) اہل کتاب، یعنی یہودی اور عیسائی لوگوں کے ذبیحے کے متعلق حکم شریعت یہ ہے کہ اسے کھایا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ﴾ (المائدة:  5:5) اہل کتاب (یہود و نصاری) کا طعام تمہارے لیے حلال ہے۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ﴿طَعَامُهُمْ، ذَبَائِحُهُمْ﴾ یعنی اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے طعام سے مراد ان کے ذبح شدہ جانور ہیں۔ دیکھئے: (صحیح البخاري الذبائح و الصید، قبل حدیث: 5508)
(2) ترجمۃ الباب (عنوان) کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ پھینکے گئے تھیلے میں جو چربی تھی وہ یقینا کسی ذبح شدہ جانور ہی کی تھی اور ظاہر ہے اسے کسی یہودی ہی نے ذبح کیا تھا۔ اگر ان کا ذبح شدہ جانور حلال نہ ہوتا تو اس جانور کی چربی بھی حلال نہ ہوتی، اور صحابیٔ رسول بھی اسے نہ اٹھاتے، رسول اللہ ﷺ بھی موجود تھے، وہ بھی منع فرما دیتے، لیکن بجائے روکنے کے آپ علیہ السلام اسے دیکھ کر مسکرا دئیے جس سے اس چربی کے حلال ہونے کا پتا چلتا ہے، نیز معلوم ہوا کہ اہل کتاب کے ساتھ جنگ ہو رہی ہو تب بھی ان کا ذبیحہ اور اس کے، تمام اجزاء حلال ہیں۔
(3) یہودیوں کی بدکرداری کی وجہ سے گائے اور بکری کی کچھ چربی ان کے لیے حرام کر دی گئی تھی، اس کے باوجود حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اسے اٹھا لیا کیونکہ وہ یہودیوں کے لیے حرام تھی، نہ کہ مسلمانوں کے لیے، اور رسول اللہ ﷺ نے مسکرا کر ان کے اس عمل کی توثیق فرما دی۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو مجھے حیا آ گئی، یعنی میں شرمندہ سا ہو گیا۔ دیکھئے (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3153، و صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 1772)
(4) مسکرا رہے تھے میری حرص دیکھ کر۔ اسے تقریری حدیث کہا جاتا ہے۔ اور یہ بالاتفاق حجت شرعی ہے۔ یہ قطعی طور پر نا ممکن ہے کہ شرعاً ایک کام ناجائز اور حرام ہو اور نبی ﷺ اسے دیکھ کر مسکرائیں یا خاموش رہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4440   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2702  
´دشمن کے ملک میں (غنیمت میں) غلہ یا کھانے کی چیز آئے تو کھانا جائز ہے۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کے دن چربی کا ایک مشک لٹکایا گیا تو میں آیا اور اس سے چمٹ گیا، پھر میں نے کہا: آج میں اس میں سے کسی کو بھی کچھ نہیں دوں گا، پھر میں مڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری اس حرکت پر کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2702]
فوائد ومسائل:
فقہائے حدیث بیان کرتے ہیں کہ مطعومات (کھانے پینے والی چیزوں) میں سے خمس نہیں نکالا جاتا۔
اور مجاہدین کو حسب حاجت کھا پی لینے کی رخصت ہے۔
البتہ بہت زیادہ مقدار میں حاصل ہونے والا غلہ بعد از استعمال بطور غنیمت تقسیم ہوگا۔


خمس کا مسئلہ آگے باب۔
158 میں آرہا ہے۔


اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے۔
اور ان کی چربی بھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2702   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.