الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
43. بَابُ : بَيْعِ الْبُرِّ بِالْبُرِّ
43. باب: گیہوں کے بدلے گیہوں بیچنے کا بیان۔
Chapter: Selling Wheat For Wheat
حدیث نمبر: 4564
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن بزيع , قال: حدثنا يزيد , قال: حدثنا سلمة وهو ابن علقمة , عن محمد بن سيرين , عن مسلم بن يسار , وعبد الله بن عتيك , قالا: جمع المنزل بين عبادة بن الصامت , ومعاوية , حدثهم عبادة , قال:" نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الذهب بالذهب , والورق بالورق , والبر بالبر , والشعير بالشعير , والتمر بالتمر , قال احدهما: والملح بالملح , ولم يقله الآخر إلا مثلا بمثل يدا بيد , وامرنا ان نبيع الذهب بالورق , والورق بالذهب , والبر بالشعير , والشعير بالبر يدا بيد كيف شئنا , قال احدهما: فمن زاد , او ازداد , فقد اربى".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَلْقَمَةَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ , عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَتِيكٍ , قَالَا: جَمَعَ الْمَنْزِلُ بَيْنَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , وَمُعَاوِيَةَ , حَدَّثَهُمْ عُبَادَةُ , قَالَ:" نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ , وَالْوَرِقِ بِالْوَرِقِ , وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ , وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ , وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ , قَالَ أَحَدُهُمَا: وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ , وَلَمْ يَقُلْهُ الْآخَرُ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ يَدًا بِيَدٍ , وَأَمَرَنَا أَنْ نَبِيعَ الذَّهَبَ بِالْوَرِقِ , وَالْوَرِقَ بِالذَّهَبِ , وَالْبُرَّ بِالشَّعِيرِ , وَالشَّعِيرَ بِالْبُرِّ يَدًا بِيَدٍ كَيْفَ شِئْنَا , قَالَ أَحَدُهُمَا: فَمَنْ زَادَ , أَوِ ازْدَادَ , فَقَدْ أَرْبَى".
مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ ایک دن عبادہ بن صامت اور معاویہ رضی اللہ عنہما اکٹھا ہوئے، عبادہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سونے کو سونے کے بدلے، چاندی کو چاندی کے بدلے، گیہوں کو گیہوں کے بدلے، جَو کو جَو کے بدلے اور کھجور کو کھجور کے بدلے (ان میں سے ایک نے کہا: نمک کو نمک کے بدلے، دوسرے نے یہ نہیں کہا) بیچنے سے منع کیا، مگر برابر برابر اور نقدا نقد، اور ہمیں حکم دیا کہ ہم سونا چاندی کے بدلے، چاندی سونے کے بدلے، گیہوں جو کے بدلے، جَو گیہوں کے بدلے نقداً نقد بیچیں جیسے بھی ہم چاہیں ۱؎ ان (دونوں تابعی راویوں) میں سے ایک نے یہ بھی کہا: جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے سود لیا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 48 (2254)، (تحفة الأشراف: 5113)، مسند احمد (5/320)، انظرأیضا حدیث رقم: 4565، 4566 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی کمی زیادتی کے ساتھ بیچ سکتے ہیں جب جنس مختلف ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   صحيح مسلم4063عبادة بن الصامتالذهب بالذهب الفضة بالفضة البر بالبر الشعير بالشعير التمر بالتمر الملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء يدا بيد إذا اختلفت هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يدا بيد
   صحيح مسلم4061عبادة بن الصامتالذهب بالذهب الفضة بالفضة البر بالبر الشعير بالشعير التمر بالتمر الملح بالملح إلا سواء بسواء عينا بعين من زاد فقد أربى
   جامع الترمذي1240عبادة بن الصامتالذهب بالذهب مثلا بمثل الفضة بالفضة مثلا بمثل التمر بالتمر مثلا بمثل البر بالبر مثلا بمثل الملح بالملح مثلا بمثل الشعير بالشعير مثلا بمثل من زاد فقد أربى بيعوا الذهب بالفضة كيف شئتم يدا بيد بيعوا البر بالتمر كيف شئتم يدا بيد وبيعوا الشعير بالبر
   سنن أبي داود3349عبادة بن الصامتالذهب بالذهب تبرها وعينها الفضة بالفضة تبرها وعينها البر بالبر مدي بمدي الشعير بالشعير مدي بمدي التمر بالتمر مدي بمدي الملح بالملح مدي بمدي فمن زاد فقد أربى لا بأس ببيع الذهب بالفضة والفضة أكثرهما يدا بيد أما نسيئة فلا لا بأس ببيع البر بالشعير
   سنن ابن ماجه2254عبادة بن الصامتالورق بالورق الذهب بالذهب البر بالبر الشعير بالشعير التمر بالتمر الملح بالملح أمرنا أن نبيع البر بالشعير والشعير بالبر يدا بيد كيف شئنا
   سنن ابن ماجه18عبادة بن الصامتلا تبتاعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل لا زيادة بينهما ولا نظرة
   سنن النسائى الصغرى4564عبادة بن الصامتبيع الذهب بالذهب الورق بالورق البر بالبر الشعير بالشعير التمر بالتمر الملح بالملح إلا مثلا بمثل يدا بيد أمرنا أن نبيع الذهب بالورق الورق بالذهب البر بالشعير الشعير بالبر يدا بيد كيف شئنا من زاد أو ازداد فقد أربا
   سنن النسائى الصغرى4565عبادة بن الصامتبيع الذهب بالذهب الفضة بالفضة التمر بالتمر البر بالبر الشعير بالشعير الملح بالملح إلا سواء بسواء مثلا بمثل من زاد أو ازداد فقد أربى أمرنا أن نبيع الذهب بالفضة الفضة بالذهب البر بالشعير الشعير بالبر
   سنن النسائى الصغرى4566عبادة بن الصامتنبيع الذهب بالذهب الورق بالورق البر بالبر الشعير بالشعير التمر بالتمر الملح بالملح إلا سواء بسواء مثلا بمثل من زاد أو ازداد فقد أربى أمرنا أن نبيع الذهب بالورق الورق بالذهب البر بالشعير الشعير بالبر
   سنن النسائى الصغرى4567عبادة بن الصامتالذهب بالذهب وزنا بوزن تبرها وعينها الفضة بالفضة وزنا بوزن تبرها وعينها لا بأس ببيع الفضة بالذهب يدا بيد الفضة أكثرهما ولا تصلح النسيئة البر بالبر والشعير بالشعير مديا بمدي لا بأس ببيع الشعير بالحنطة يدا بيد الشعير أكثرهما لا يصلح نسيئة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4564  
´گیہوں کے بدلے گیہوں بیچنے کا بیان۔`
مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ ایک دن عبادہ بن صامت اور معاویہ رضی اللہ عنہما اکٹھا ہوئے، عبادہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سونے کو سونے کے بدلے، چاندی کو چاندی کے بدلے، گیہوں کو گیہوں کے بدلے، جَو کو جَو کے بدلے اور کھجور کو کھجور کے بدلے (ان میں سے ایک نے کہا: نمک کو نمک کے بدلے، دوسرے نے یہ نہیں کہا) بیچنے سے منع کیا، مگر برابر برابر اور نقدا نقد، اور ہمیں حکم دیا کہ ہم سونا چاندی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4564]
اردو حاشہ:
1) گندم کے بدلے گندم بیچنی شرعاََ جائز ہے بشر طیکہ دونوں طرف سے گندم برابر ہو، نیز فریقین اسے اسی مجلس میں اپنے اپنے قبضے میں بھی لے لیں۔
(2) اس حدیث مبارکہ کے مختلف طرق (سندیں) دیکھنے سے بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے جو عہد وفا باندھا تھا اسے نہ صرف نبھایا بلکہ وفا کا حق ادا کر دیا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر جو بیعت کی تھی اس کے تقاضے پورے کیے، خواہ اس ایفائے عہد سے ان کے کسی امیر کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو یا نا گواری محسوس ہوتی ہو۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی انھی جلیل القدر عظماء میں سے تھے جنھوں نے نبی ﷺ سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے حدیث بیان کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک غزوے میں لوگوں کو بہت سی غنیمتیں حاصل ہوئیں۔ غنیمتوں میں چاندی کے برتن بھی تھے۔ اس وقت ان لوگوں کے امیر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے اور انھوں نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو، وہ چاندی کے برتن جو بطور غنیمت ملے تھے، وہ برتن بیچ دے اور لوگوں کو بیت المال سے جو عطایا ملتے تھے جب وہ ملیں گے تو اس وقت ان چاندی کے برتنوں کی قیمت ان سے وصولی کر لی جائے گی۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ یہ سودا کرنا شروع کر دیا۔ سیدنا عبادہ بن صامت تک یہ بات پہنچی تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ حدیث سنا دی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے سونے چاندی کی بیع ادھار پر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ان کی خرید و فروخت نقد کی صورت میں ہو سکتی ہے ورنہ نہیں۔ یہ سن کر لوگوں نے چاندی کے جو برتن ان سے خرید لیے تھے واپس کر دیے اور سودا ختم کر دیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو ہم نے آپ سے نہیں سنی ہوتیں، حالانکہ ہم بھی رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے ہیں۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ یہ بات سن کر پھر کھڑے ہو گئے اور وہی حدیث مبارکہ دوبارہ سنا دی جو انھوں نے پہلے سنائی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ہم نے جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے وہ ضرور بیان کریں گے، خواہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتنا ہی نا گوار گزرے یا فرمایا کہ اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی ذلت محسوس کریں اور ساتھ ہی حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ یہ مسئلہ بیان کرنے کی وجہ سے اگر میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ایک رات بھی نہ رہ سکوں تو مجھے اس کی قطعاََ کوئی پروا نہیں۔ میں نے جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سن رکھا ہے، وہ ضرور بیان کروں گا، خواہ آج کا کوئی حکمران اسے پسند کرے یا نہ کرے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحيح مسلم، المساقاة، باب الصرف و بيع الذهب بالورق نقدا، حديث:1587) اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لا يخافون لومة لائم کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے علمائے حق پر جو بھاری ذمہ داری عائد کی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کھل کر بیان کریں، حق کو قطعاََ نہ چھپائیں، نیز عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے والے بن جائیں اور دنیا میں شهداء الله بن کر رہیں۔
(3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سنن کی تبلیغ کا خصوصی اہتمام کیا جائے علم رسول پھیلا یا جائے چاہے کوئی بڑے سے بڑا شخص اس کو نا پسند ہی کرتا ہو۔ حق بات برملا اور سب کے سامنے کہنی چاہیے۔
(4) حدیث مبارکہ سے مذکورہ اشیاء کی باہمی خرید و فروخت کا جواز بھی نکلتا ہے۔ ہم جنس اشیاء میں برابری اور تقابض کی شرط ہے۔ لیکن اگر جنس مختلف ہو جائے تو ان میں کمی بیشی تو جائز ہے لیکن سودے کا ہاتھوں ہاتھ ہونا شرط ہے۔
(5) اس حدیث مبارکہ سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو گندم اور جو، کو ایک ہی جنس شمار کرتے ہیں۔ یہ دونوں ایک جنس نہیں بلکہ دو مختلف جنسیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ الفاظ اس کی صریح دلیل ہیں، آپ نے فرمایا: گندم کے عوض جو اور جو کے عوض گندم بیچ سکتے ہو جس طرح چاہو بشرطیکہ سودا نقد بہ نقد ہو، یعنی ادھار کسی طرف سے نہ ہو۔
(6) مذکورہ چھ چیزوں میں کمی بیشی تو واقعی سود ہے، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ ان چھ کے علاوہ دوسری کون سی اشیاء میں کمی بیشی سود میں شمار ہو گی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے تمام مکیلات و موزونات (جن چیزوں کو ماپا تولا جا سکے) کو اس حکم میں داخل کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ان کے علاوہ تمام ماکولات (جو چیزیں کھانے اور خوراک کے کام آتی ہیں) اس حکم کے تحت داخل ہیں بشر طیکہ ان کو ذخیرہ کیا جا سکے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے دونوں قیود کو ملحوظ رکھا ہے، یعنی وہ مکیلہ و موزون بھی ہوں خوراک بھی ہوں۔ اہل ظاہر کا موقف ہے کہ سود صرف ان مذکورہ چھ چیزوں میں منحصر ہے۔ ان کے علاوہ کسی بھی چیز میں کمی بیشی سود شمار نہیں ہو گی، مگر یہ بات عقلی طور پر قابل قبول نہیں کیونکہ شریعت کے احکام کسی نہ کسی مقصد کی خاطر لاگو ہوتے ہیں۔ مذکورہ چیزوں کی بیع کمی بیشی کے ساتھ روکنے میں ایک مقصد سادگی اور قناعت پسندی بھی ہے۔ ظاہر ہے اچھی گندم ناقص گندم کے مقابلے میں ملنے سے تو رہی۔ کوئی شخص بھی ردی کھجوروں کے مقابلے میں اعلیٰ قسم کی کھجوریں نہیں دے گا۔ مذکور قسم کی بیع سے روکنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ لوگ اپنے پاس موجود گندم، جو کھجوروں پر ہی قناعت کریں گے اور ذائقے کی تلاش میں سر گرداں نہیں ہوں گے۔ اس سے مہنگائی ختم ہو گی۔ عموما لوگوں کے پاس جنس ہی ہوتی ہے۔ پیسے کم ہی ہوتے ہیں، لہٰذا وہ اعلیٰ سے اعلیٰ کے حصول کے چکر میں نہیں پڑیں گے اور سادگی اور قناعت کا دور دورہ ہو گا۔ معاشرہ افرا تفری سے محفوظ رہے گا۔ اس مقصد کو پیش نظر رکھا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ کی بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ یہ حکم ان تمام چیزوں کے بارے میں ہے جو بطور خوراک استعمال ہوتی ہوں اور ان کو ذخیرہ بھی کیا جا سکے۔ جبکہ اہل ظاہر کا مسلک اس حدیث سے بھی رد ہوتا ہے جس میں بیل پر لگے انگوروں کی بیع معین منقیٰ سے کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ایسی بیع میں بھی کمی بیشی کا خطرہ ہو سکتا ہے، حالانکہ منقیٰ یا انگور اس حدیث میں مذکور چھ چیزوں میں داخل نہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کی رو سے لوہا، پیتل وغیرہ بھی اس حکم میں آ جائیں گے، حالانکہ یہ چیزیں بذات خود فروخت ہونے کی بجائے عموما ان کی مصنوعات ہی فروخت ہوتی ہیں اور مصنوعات میں یہ حکم جاری کرنا تقریباََ نا ممکن ہے کیونکہ وہاں سودا صرف مادے کا نہیں بلکہ کار یگری اور مہارت کا بھی ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
(7) ایک منزل میں ان الفاظ سے ظاہرََا گھر بھی مراد ہو سکتا ہے۔ اور سفر کی منزل بھی، یہ دوسرا معنی ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی مذکورہ بالا تفصیلی حدیث: 1587 سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دشمنوں کے ساتھ ایک لڑائی کے موقع پر پیش آیا اور وہ یقینا سفر میں تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4564   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث18  
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔`
قبیصہ سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے (جو کہ عقبہ کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والے صحابی ہیں) معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سر زمین روم میں جہاد کیا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دینار (اشرفی) کے بدلے اور چاندی کے ٹکڑوں کو درہم کے بدلے بیچتے ہیں، تو کہا: لوگو! تم سود کھاتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: تم سونے کو سونے سے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ تو اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار ۱؎، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 18]
اردو حاشہ:
(1)
سونے کا سونے سے، یا چاندی کا چاندی سے تبادلہ صرف اسی صورت میں جائز ہے جب دونوں طرف مقدار برابر ہو اور دونوں فریق بیک وقت ادائیگی کر دیں۔
البتہ سونے کا تبادلہ چاندی سے کیا جائے تو دونوں کی مقدار برابر ہونے کی شرط نہیں، تاہم دونوں طرف سے ادائیگی ایک ہی مجلس میں ہو جانی چاہیے۔
اسی پر قیاس کر کے کہا جا سکتا ہے کہ پرانے کرنسی نوٹوں کا نئے نوٹوں سے تبادلہ بھی انہی شروط کے ساتھ جائز ہے۔
مثلا سو روپے کے نئے نوٹوں کے بدلے ایک سو دس روپے کے پرانے نوٹ لینا دینا جائز نہیں۔

(2)
حدیث نبوی کے مقابلے میں کسی کی رائے معتبر نہیں، اگرچہ وہ ایک صحابی کی رائے ہو۔
تاہم ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک صحابی نے حدیث سے ایک مطلب سمجھا ہے، دوسرے صحابی کی رائے میں اس سے وہ مسئلہ نہیں نکلتا یا دوسری حدیث کو راجح سمجھتا ہے۔
اس صورت میں دونوں آراء کو سامنے رکھ کر غو ر کیا جا سکتا ہے کہ کون سا قول زیادہ صحیح ہے۔
اس اجتہاد میں اگر غلطی ہو جائے تو عنداللہ معاف ہے۔

(3)
صحابہ کرام کی نظر میں حدیث کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ حدیث سے ہٹ کر ایک رائے ظاہر کی گئی تو صحابی رسول اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے وہ علاقہ ہی چھوڑ دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اس جذبہ کی قدر کی حتیٰ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکم دے دیا کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ تمہارے ماتحت نہیں ہوں گے۔

(4)
جب کسی مسئلہ میں صحابہ رضی اللہ عنھم کی مختلف آراء ہوں تو وہ رائے زیادہ قابل قبول ہو گی جس کی تائید قرآن و حدیث سے ہو جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں آراء معلوم ہونے پر اس قول کو ترجیح دی جو فرمان نبوی سے ثابت تھا اور اسے قانونا نافذ کر دیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 18   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.