الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
105. بَابُ : الشَّرِكَةِ بِغَيْرِ مَالٍ
105. باب: مال لگائے بغیر تجارت میں حصہ دار بننے کا بیان۔
Chapter: Partnership Without Contributing
حدیث نمبر: 4702
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا نوح بن حبيب، قال: انبانا عبد الرزاق، قال: انبانا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه: ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من اعتق شركا له في عبد اتم ما بقي في ماله إن كان له مال يبلغ ثمن العبد".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا نُوحُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ أُتِمَّ مَا بَقِيَ فِي مَالِهِ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ يَبْلُغُ ثَمَنَ الْعَبْدِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دیا تو جتنا حصہ باقی ہے وہ بھی اسی کے مال سے آزاد ہو گا بشرطیکہ اس کے پاس غلام کی (بقیہ) قیمت بھر مال ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/العتق 1 (1501)، الأیمان 12 (1501)، سنن ابی داود/العتق 6 (3946)، سنن الترمذی/الأحکام 14 (1347)، (تحفة الأشراف: 6935)، مسند احمد (2/ 34) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث کا تعلق اگلے باب سے ہے، کاتبوں کی غلطی سے یہ اس باب میں درج ہو گیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح البخاري2491عبد الله بن عمرمن أعتق شقصا له من عبد أو شركا أو قال نصيبا كان له ما يبلغ ثمنه بقيمة العدل فهو عتيق إلا فقد عتق منه ما عتق
   صحيح البخاري2553عبد الله بن عمرمن أعتق نصيبا له من العبد فكان له من المال ما يبلغ قيمته يقوم عليه قيمة عدل وأعتق من ماله وإلا فقد عتق منه
   صحيح البخاري2522عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد كان له مال يبلغ ثمن العبد قوم العبد عليه قيمة عدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
   صحيح البخاري2521عبد الله بن عمرمن أعتق عبدا بين اثنين إن كان موسرا قوم عليه ثم يعتق
   صحيح البخاري2503عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في مملوك وجب عليه أن يعتق كله إن كان له مال قدر ثمنه يقام قيمة عدل ويعطى شركاؤه حصتهم ويخلى سبيل المعتق
   صحيح البخاري2523عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في مملوك عليه عتقه كله إن كان له مال يبلغ ثمنه إن لم يكن له مال يقوم عليه قيمة عدل فأعتق منه ما أعتق
   صحيح البخاري2524عبد الله بن عمرمن أعتق نصيبا له في مملوك أو شركا له في عبد كان له من المال ما يبلغ قيمته بقيمة العدل فهو عتيق
   صحيح البخاري2525عبد الله بن عمروجب عليه عتقه كله إذا كان للذي أعتق من المال ما يبلغ يقوم من ماله قيمة العدل يدفع إلى الشركاء أنصباؤهم ويخلى سبيل المعتق
   صحيح مسلم3770عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد كان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
   صحيح مسلم4329عبد الله بن عمرمن أعتق عبدا بينه وبين آخر قوم عليه في ماله قيمة عدل لا وكس ولا شطط ثم عتق عليه في ماله إن كان موسرا
   صحيح مسلم4325عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد كان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
   صحيح مسلم4326عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له من مملوك عليه عتقه كله إن كان له مال يبلغ ثمنه فإن لم يكن له مال عتق منه ما عتق
   صحيح مسلم4327عبد الله بن عمرمن أعتق نصيبا له في عبد كان له من المال قدر ما يبلغ قيمته قوم عليه قيمة عدل إلا فقد عتق منه ما عتق
   صحيح مسلم4330عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد عتق ما بقي في ماله إذا كان له مال يبلغ ثمن العبد
   جامع الترمذي1347عبد الله بن عمرمن أعتق نصيبا له في عبد كان له من المال ما يبلغ ثمنه فهو عتيق من ماله
   جامع الترمذي1346عبد الله بن عمرمن أعتق نصيبا أو قال شقصا أو قال شركا له في عبد كان له من المال ما يبلغ ثمنه بقيمة العدل فهو عتيق إلا فقد عتق منه ما عتق
   سنن أبي داود3943عبد الله بن عمرمن أعتق شركا من مملوك له عليه عتقه كله إن كان له ما يبلغ ثمنه إن لم يكن له مال عتق نصيبه
   سنن أبي داود3940عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في مملوك أقيم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وأعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
   سنن أبي داود3946عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد عتق منه ما بقي في ماله إذا كان له ما يبلغ ثمن العبد
   سنن أبي داود3947عبد الله بن عمرإذا كان العبد بين اثنين فأعتق أحدهما نصيبه إن كان موسرا يقوم عليه قيمة لا وكس ولا شطط ثم يعتق
   سنن النسائى الصغرى4702عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد أتم ما بقي في ماله إن كان له مال يبلغ ثمن العبد
   سنن النسائى الصغرى4703عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في مملوك كان له من المال ما يبلغ ثمنه بقيمة العبد فهو عتيق من ماله
   سنن ابن ماجه2528عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد أقيم عليه بقيمة عدل فأعطى شركاءه حصصهم إن كان له من المال ما يبلغ ثمنه وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم518عبد الله بن عمرمن اعتق شركا له فى عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فاعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه، وإلا فقد عتق منه ما عتق
   بلوغ المرام1222عبد الله بن عمر من أعتق شركا له في عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة عدل فأعطي شركاؤه حصصهم وعتق عليه العبد وإلا فقد عتق منه ما عتق
   مسندالحميدي686عبد الله بن عمرأيما عبد كان بين اثنين فأعتق أحدهما نصيبه، فإن كان موسرا فإنه يقوم عليه بأعلى القيمة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 518  
´مشترکہ غلام کی آزادی کا بیان`
«. . . 244- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من أعتق شركا له فى عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه، وإلا فقد عتق منه ما عتق. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (مشترکہ) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے، پھر اس کا مال اگر غلام کی قیمت کے برابر ہو تو غلام کی قیمت کا حساب لگا کر اس کی ملکیت میں شریکوں کو ان کے حصے دیئے جائیں گے اور وہ غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا ورنہ اتنا حصہ ہی اس میں سے آزاد ہو گا جو کہ آزاد ہوا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 518]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2522، ومسلم 1501، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اسلام اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے۔
➋ جس شخص نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کردیا تو یہ غلام اس شخص کی غلامی سے آزاد ہوجائے گا لیکن اگر کسی اور شخص کا حصہ باقی رہا تو یہ غلام دوسرے شخص کا غلام ہی رہے گا اِلا یہ کہ وہ بھی آزاد کردے۔
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کیا تو اس کی پوری آزادی اسی کے ذمہ ہے بشرطیکہ اس کے پاس مال ہو ورنہ غلام کی قیمت لگائی جائے گی اور اس غلام سے کہا: جائے گا کہ وہ کوشش (مال جمع) کرکے اپنے آپ کو آزاد کروالے لیکن اس پر سختی نہ کی جائے۔ [صحيح بخاري: 2527، صحيح مسلم: 1503،]
➍ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کردیا، ان کے علاوہ اس کا اور کوئی مال نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کو بلایا اور ان کے تین حصے کئے پھر قرعہ اندازی کرکے دو غلاموں کو آزاد کردیا اور چار کو غلامی میں برقرار رکھا۔ آپ نے (اس طریقے سے) آزاد کرنے والے شخص کی مذمت فرمائی۔ [صحيح مسلم: 1668، دارالسلام: 4335]
معلوم ہوا کہ مرنے والا صرف ایک ثلث (ایک تہائی) کی وصیت کر سکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 244   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4702  
´مال لگائے بغیر تجارت میں حصہ دار بننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دیا تو جتنا حصہ باقی ہے وہ بھی اسی کے مال سے آزاد ہو گا بشرطیکہ اس کے پاس غلام کی (بقیہ) قیمت بھر مال ہو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4702]
اردو حاشہ:
اس روایت کی مناسبت اگلے باب سے ہے، الا یہ کہ اس باب کے معنیٰ یہ ہوں کہ شراکت مال، یعنی روپے پیسے کے علاوہ اور چیزوں میں بھی ہو سکتی ہے، مثلاً: غلام۔ پھر یہ حدیث اگلے باب سے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4702   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2528  
´ساجھے کا غلام ہو اور ساجھی دار اپنا حصہ آزاد کر دے تو ایسے غلام کا حکم۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی غلام میں سے اپنے حصہ کو آزاد کر دے، تو کسی عادل شخص سے غلام کی قیمت لگوائی جائے گی، اور اس کے بقیہ شرکاء کے حصہ کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہو گی، بشرطیکہ اس کے پاس اس قدر مال ہو جتنی غلام کی قیمت ہے، اور اس طرح پورا غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، لیکن اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو ایسی صورت میں بس اسی قدر غلام آزاد ہو گا جتنا اس نے آزاد کر دیا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2528]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انصاف کے ساتھ قیمت لگانے مطلب یہ ہے کہ یہ اندازہ کیا جائے کہ اس زمانے میں اس جگہ یہ غلام کتنی قیمت میں فروخت ہوسکتا ہے مثلاً:
اگر وہ آدھے غلام کا مالک تھا اور غلام کی قیمت کا اندازہ سو دینار ہے تو پچاس دینار اپنے دوسرے شریک یا شریکوں کو ادا کرکے باقی آدھا غلام بھی خرید کر آزاد کردے۔

(2)
مذکورہ مثال میں اگرآزاد کرنے والا پچاس دینار کی طاقت نہ رکھتا ہو تو یہ غلام آدھا آزاد سمجھا جائے گا اورآدھا غلام لہٰذا اگروہ قتل ہوجائے تو آدھی دیت (پچاس اونٹ)
لی جائے گئی اور غلام کی قیمت سے آدھی رقم بھی لی جائے گئی۔
اور جن معاملات میں اس طرح کی تقسیم ممکن نہیں تواسے غلام ہی تصور کیا جائے گا جس طرح نامکمل ادائیگی کرنے والے مکاتب کا حکم ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2528   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3940  
´جنہوں نے اس حدیث میں محنت کرانے کا ذکر نہیں کیا ان کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو اس کے حصہ کے مطابق ادا کرے گا اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جتنا آزاد ہوا ہے اتنا ہی حصہ آزاد رہے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3940]
فوائد ومسائل:
آزاد کر نے والے کو ترغیب وتشویق دی گئی ہے کہ اگر وہ یہ مالی بوچھ برداشت کرسکتا ہے تو کر لے، اس میں بڑی فضیلت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3940   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.