الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
83. بَابُ : ذِكْرِ النَّهْىِ عَنْ لُبْسِ السِّيَرَاءِ
83. باب: سیراء چادر پہننے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5297
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن منصور، قال: انبانا عبد الله بن نمير، قال: حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر بن الخطاب , انه راى حلة سيراء تباع عند باب المسجد , فقلت: يا رسول الله , لو اشتريت هذا ليوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما يلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة"، قال فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد منها بحلل فكساني منها حلة، فقال: يا رسول الله , كسوتنيها وقد قلت فيها ما قلت، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لم اكسكها لتلبسها، إنما كسوتكها لتكسوها , او لتبيعها"، فكساها عمر اخا له من امه مشركا.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , أَنَّهُ رَأَى حُلَّةَ سِيَرَاءَ تُبَاعُ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذَا لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ"، قَالَ فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ مِنْهَا بِحُلَلٍ فَكَسَانِي مِنْهَا حُلَّةً، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , كَسَوْتَنِيهَا وَقَدْ قُلْتَ فِيهَا مَا قُلْتَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا، إِنَّمَا كَسَوْتُكَهَا لِتَكْسُوَهَا , أَوْ لِتَبِيعَهَا"، فَكَسَاهَا عُمَرُ أَخًا لَهُ مِنْ أُمِّهِ مُشْرِكًا.
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسجد کے دروازے کے پاس میں نے ایک ریشمی دھاری والا جوڑا بکتے دیکھا، تو عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اسے جمعہ کے دن کے لیے اور اس وقت کے لیے جب آپ کے پاس وفود آئیں خرید لیتے (تو اچھا ہوتا) ۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سب وہ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ پھر اس میں کے کئی جوڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو ان میں سے آپ نے ایک جوڑا مجھے دے دیا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ جوڑا آپ نے مجھے دے دیا، حالانکہ اس سے پہلے آپ نے اس کے بارے میں کیا کیا فرمایا تھا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں یہ پہننے کے لیے نہیں دیا ہے، بلکہ کسی (اور) کو پہنانے یا بیچنے کے لیے دیا ہے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ایک ماں جائے بھائی کو دے دیا جو مشرک تھا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس 2 (2068)، (تحفة الٔاشراف: 10551) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات پر کوئی نکیر نہیں کی، اس سے ثابت ہوا کہ ان مواقع کے لیے اچھا لباس اختیار کرنے کی بات پر آپ نے صاد کیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح البخاري2619عبد الله بن عمررأى عمر حلة على رجل تباع فقال للنبي ابتع هذه الحلة تلبسها يوم الجمعة وإذا جاءك الوفد فقال إنما يلبس هذا من لا خلاق له في الآخرة فأتي رسول الله منها بحلل فأرسل إلى عمر منها بحلة فقال عمر كيف ألبسها وقد قلت فيها ما قلت
   صحيح البخاري948عبد الله بن عمرهذه لباس من لا خلاق له وأرسلت إلي بهذه الجبة
   صحيح البخاري5981عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له
   صحيح البخاري6081عبد الله بن عمريلبس الحرير من لا خلاق له
   صحيح البخاري5841عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له النبي بعث بعد ذلك إلى عمر حلة سيراء حرير كساها إياه فقال عمر كسوتنيها وقد سمعتك تقول فيها ما قلت فقال إنما بعثت إليك لتبيعها أو تكسوها
   صحيح البخاري886عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاءت رسول الله منها حلل فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة
   صحيح البخاري5835عبد الله بن عمريلبس الحرير في الدنيا من لا خلاق له في الآخرة
   صحيح البخاري3054عبد الله بن عمرهذه لباس من لا خلاق له
   صحيح البخاري2612عبد الله بن عمريلبسها من لا خلاق له في الآخرة
   صحيح البخاري2104عبد الله بن عمرلم أرسل بها إليك لتلبسها إنما يلبسها من لا خلاق له
   صحيح مسلم5404عبد الله بن عمرهذه لباس من لا خلاق له أو إنما يلبس هذه من لا خلاق له
   صحيح مسلم5406عبد الله بن عمريلبس هذا من لا خلاق له أهدي إلى رسول الله حلة سيراء فأرسل بها إلي قال قلت أرسلت بها إلي وقد سمعتك قلت فيها ما قلت قال إنما بعثت بها إليك لتستمتع بها
   صحيح مسلم5403عبد الله بن عمريلبس الحرير في الدنيا من لا خلاق له في الآخرة أتي رسول الله بحلل سيراء فبعث إلى عمر بحلة وبعث إلى أسامة بن زيد بحلة وأعطى علي بن أبي طالب حلة وقال شققها خمرا بين نسائك
   صحيح مسلم5401عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاءت رسول الله منها حلل فأعطى عمر منها حلة
   سنن أبي داود4040عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاء رسول الله منها حلل فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة فقال عمر يا رسول الله كسوتنيها وقد قلت في حلة عطارد ما قلت فقال رسول الله إني لم أكسكها لتلبسها فكساها عمر بن الخطاب أخا
   سنن أبي داود1076عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاءت رسول الله منها حلل فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة
   سنن النسائى الصغرى5302عبد الله بن عمررأى عمر مع رجل حلة سندس فأتى بها النبي فقال اشتر هذه
   سنن النسائى الصغرى5308عبد الله بن عمرمن لبس الحرير في الدنيا فلا خلاق له في الآخرة
   سنن النسائى الصغرى1383عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاء رسول الله مثلها فأعطى عمر منها حلة فقال عمر يا رسول الله كسوتنيها وقد قلت في حلة عطارد ما قلت قال رسول الله لم أكسكها لتلبسها
   سنن النسائى الصغرى5301عبد الله بن عمريلبس هذا من لا خلاق له أتي رسول الله بثلاث حلل منها فكسا عمر حلة وكسا عليا حلة وكسا أسامة حلة
   سنن النسائى الصغرى5309عبد الله بن عمريلبس الحرير من لا خلاق له
   سنن النسائى الصغرى1561عبد الله بن عمرهذه لباس من لا خلاق له ثم أرسلت إلي بهذه
   سنن النسائى الصغرى5297عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة أتي رسول الله منها حلل
   سنن ابن ماجه3591عبد الله بن عمريلبس هذا من لا خلاق له في الآخرة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم412عبد الله بن عمرإنما يلبس هذه من لا خلاق له فى الآخرة
   مسندالحميدي696عبد الله بن عمرإني لم أكسكها لتلبسها إنما أعطيتكها لتكسوها النساء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 412  
´مردوں کے لئے ریشم کا لباس پہننا جائز نہیں ہے`
«. . . 252- وبه: أن عمر بن الخطاب رأى حلة سيراء تباع عند باب المسجد، فقال: يا رسول الله، لو اشتريت هذه فلبستها يوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما يلبس هذه من لا خلاق له فى الآخرة، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم منها حلل، فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة، فقال عمر: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، كسوتنيها وقد قلت فى حلة عطارد ما قلت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لم أكسكها لتلبسها، فكساها عمر بن الخطاب أخا له مشركا بمكة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی کپڑا بکتے ہوئے دیکھا تو کہا: یا رسول اللہ! اگر آپ اسے خرید لیں تو جمعہ کے دن اور جب آپ کے پاس کوئی وفد آئے تو پہن لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو وہی شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ریشم کے کپڑے (مال غنیمت میں) لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کپڑا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے یہ کپڑا دیا ہے حالانکہ آپ نے عطارد کے کپڑے کے بارے میں جو ارشاد فرمایا تھا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں یہ کپڑا پہننے کے لئے نہیں دیا۔ پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مکہ میں اپنے مشرک بھائی کو یہ کپڑا پہننے کے لئے دے دیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 412]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 886، 2612، ومسلم 6/2068، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ جمعہ، عیدین اور خاص موقعوں پر بہترین نیا یا پاک و صاف لباس پہننا مسنون ہے۔
➋ مردوں کے لئے ریشمی لباس پہننا حرام ہے۔
➌ اگر خیر کی امید ہو تو کفار و مشرکین کو تحائف دینا جائز ہے۔
➍ مسجد کے قریب اور دروازے سے باہر خرید و فروخت جائز ہے۔
➎ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا جب وہ امیر المؤمنین تھے، آپ کے کرتے پر دونوں کندھوں کے درمیان میں ایک دوسرے کے اوپر تین پیوند لگے ہوئے تھے۔ [الموطا 918/1 ح1771، وسنده صحيح]
➏ اس پر اجماع ہے کہ عورتوں کے لئے ریشمی لباس (اور سونا پہننا) حلال ہے۔ [التمهيد 241/14،]
➐ کفار ومشرکین پر شریعتِ اسلامیہ کے عمومی احکامات نافذ نہیں اِلا یہ کہ کسی خاص حکم کی کوئی تخصیص ثابت ہو۔
➑ بعض روایات وآثار سے ثابت ہے کہ اگر مردانہ لباس میں بعض جگہ تھوڑا سا ریشم استعمال کر لیا جائے تو جائز ہے اور اسی طرح سونے کا دانت لگانا بھی جائز ہے۔
➒ اگر کوئی شخص بیمار ہو اور اس کے لئے ریشمی لباس مفید ہو تو استثنائی حکم کی وجہ سے اس کے لئے ریشمی لباس پہننا جائز ہے۔
➓ حافظ ابن عبدالبر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ غیرمسلموں کو (جو اسلام کے دشمن ہیں) فرض زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے اور باقی صدقات مثلاً صدقۂ فطر، کفارہ قسم اور کفارۂ ظہار بھی اسی حکم میں ہیں جبکہ نفلی صدقات دینا جائز ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 14/263]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 252   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1076  
´جمعہ کے لباس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا بکتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش! آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جس دن آپ کے پاس باہر کے وفود آئیں، اسے پہنا کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے تو صرف وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی قسم کے کچھ جوڑے آئے تو آپ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا تو عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ کپڑا مجھے پہننے کو دیا ہے؟ حالانکہ عطارد کے جوڑے کے سلسلہ میں آپ ایسا ایسا کہہ چکے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں یہ جوڑا اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم پہنو، چنانچہ عمر نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں رہتا تھا پہننے کے لیے دے دیا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1076]
1076۔ اردو حاشیہ:
➊ جمعہ، عید اور خاص مواقع پر عمدہ لباس کا اہتمام مسنون و مستحب ہے۔
➋ ریشمی لباس مردوں کے لئے حرام مگر عورتوں کے لئے مباح ہے جیسے کہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔
➌ کافر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک اسلامی اخلاق و آداب کا حصہ ہے نیز ان کوتحفہ یا ہدیہ دینا بھی جائز ہے۔ جبکہ دینی قلبی محبت اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان ہی کا حق ہے۔
➍ ریشم فی نفسہ جائز اور حلال ہے یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے لئے اس کا استعمال بھی درست ہے۔ مردوں کے لئے حرمت کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جو صحیحین یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی وارد ہے۔ دیکھیے: [صحيح بخاري۔ حديث: 886، وصحيح مسلم، حديث: 2068]
یہ حدیث قرآن مقدس کی اس آیت کی مخصص ہے۔ جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: «قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِه» [الأعراف: 32]
اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)! کہہ دیجیے جو زینت اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں وہ کس نے حرام کی ہیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ صحیح حدیث سے عموم قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہے۔ «والله أعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1076   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5297  
´سیراء چادر پہننے کی ممانعت کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسجد کے دروازے کے پاس میں نے ایک ریشمی دھاری والا جوڑا بکتے دیکھا، تو عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اسے جمعہ کے دن کے لیے اور اس وقت کے لیے جب آپ کے پاس وفود آئیں خرید لیتے (تو اچھا ہوتا) ۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سب وہ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‏‏‏‏ پھر اس میں کے کئی جوڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو ان میں سے آپ نے ایک جوڑا مجھے دے دیا، میں نے کہا: الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5297]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تجمل اور خوبصورتی اختیار کرنا بالخصوص خاص موقعوں پر پسندیدہ ہے۔
(2) مسجد کے دروازے پر خرید وفروخت کرنا جائز ہے نیز فضلاء اور عظماء اہل علم اور نیک لوگوں کا منڈی میں جانا شرعاً درست ہے خواہ وہ خرید وفروخت کے لیے ہو یا ویسے ہی جائزہ لینے کے لیے ہو۔
(3) ریشمی کپڑا کا کاروبار جائز ہے۔
(4) کافر قرابت دار کےساتھ صلہ رحمی کرنا نیز اسے ہدیہ وغیرہ دینا بھی شرعاً جائز ہے۔ اس کا مقصد اگر تالیف قلب اور اسے اسلام کے قریب کرنا ہو تو یہ سونے پر سہاگا ہے۔
(5) ایسا حلہ دھاریوں کی وجہ سے ممنوع نہیں بلکہ ریشمی دھاریون کی وجہ سے ممنوع ہے۔
(6) کوئی حصہ نہیں مراد کفار ہیں یعنی اس قسم کے کپڑے تو کافر پہنتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جوشخص ایسے کپڑے پہنے گا وہ کافر بن جائے گا کیونکہ ریشم پہننا کبیرہ گناہ ضرور ہے کفر نہیں اور اگر ریشم پہننے سےمقصود دوسرے لوگوں کی تحقیر کرنا ہو یا ازراہ تکبر ریشم پہنا جائے تو گناہ کی قباحت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔
(7) بھائی کو دے دیا جوچیز کچھ افراد کے لیے حلال ہو کچھ کے لیے حرام، اس کا لین دین، خرید وفروخت، تحفہ و عطیہ وغیرہ سب کچھ جائز ہے مثلاً: ریشم اور سونا وغیرہ البتہ جوچیز سب کےلیے حرام ہے اس کا کاروبار لین دین خرید وفروخت تحفہ عطیہ وغیرہ سب کچھ حرام ہے مثلا: شراب اوربت وغیرہ۔
(8) یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ ریشم صرف مردوں کےلیے ناجائز اور حرام ہے عورتوں کو ہر قسم کا ریشم پہننے کی مطلقاً اجازت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 5297   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3591  
´ریشمی کپڑے پہننے کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ریشم کا ایک سرخ جوڑا دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس جوڑے کو وفود سے ملنے کے لیے اور جمعہ کے دن پہننے کے لیے خرید لیتے تو اچھا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3591]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (حله)
ایک طرح کے دو کپڑوں کو کہتے ہیں ایک جسم کے اوپر کے حصے پر پہننے یا اوڑھنے کے لیے دوسرا جسم کے زیریں حصے پر پہننے کے لیے جیسے تہ بند وغیرہ اس لئے اس کا ترجمہ جوڑا کیا گیا ہے۔

(2)
جمعہ اور عید وغیرہ کے موقع پر عمدہ لباس پہننا مستحب ہے اس لئے حضرت عمر ؓ نے مشورہ دیا۔

(3)
مہمانوں کے استقبال کے موقع پر عمدہ لباس پہننا مستحسن ہے۔

(4)
صحابہ کرام ؓ نبی ﷺسے بہت محبت رکھتے تھے اس لئے آپﷺ کے لئے عمدہ چیزیں پسند کرتے تھے۔

(5)
کوئی شخص خلوص اور محبت سے مشورہ دے اور وہ مشورہ درست نہ ہو تو سختی سے رد کرنے کے بجائے اس کی غلطی وضح کر دی جائے تاکہ اسے رنج نہ ہو اور آئندہ اس غلطی سے بچ سکے۔

(6)
آخرت میں حصہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لبال کافر پہنتے ہیں جنہیں آخرت میں کوئی بھلائی نصیب نہیں ہوگی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3591   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.