الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
105. بَابُ : ذُيُولِ النِّسَاءِ
105. باب: عورتوں کے دامن کی لمبائی کی حد کا بیان۔
حدیث نمبر: 5338
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا نوح بن حبيب، قال: حدثنا عبد الرزاق، قال: حدثنا معمر، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من جر ثوبه من الخيلاء لم ينظر الله إليه". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قالت ام سلمة: يا رسول الله , فكيف تصنع النساء بذيولهن؟ قال:" ترخينه شبرا". قالت: إذا تنكشف اقدامهن؟ قال:" ترخينه ذراعا لا تزدن عليه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا نُوحُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ مِنَ الْخُيَلَاءِ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَكَيْفَ تَصْنَعُ النِّسَاءُ بِذُيُولِهِنَّ؟ قَالَ:" تُرْخِينَهُ شِبْرًا". قَالَتْ: إِذًا تَنْكَشِفَ أَقْدَامُهُنَّ؟ قَالَ:" تُرْخِينَهُ ذِرَاعًا لَا تَزِدْنَ عَلَيْهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے تکبر (گھمنڈ) سے اپنا کپڑا لٹکایا، اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا، ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! تو پھر عورتیں اپنے دامن کیسے رکھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اسے ایک بالشت لٹکائیں، وہ بولیں: تب تو ان کے قدم کھلے رہیں گے؟، آپ نے فرمایا: تو ایک ہاتھ لٹکائیں، اس سے زیادہ نہ کریں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس 9 (2085)، سنن الترمذی/اللباس 9 (1731)، (تحفة الأشراف: 7526)، مسند احمد (2/5، 55، 101) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   صحيح البخاري3665عبد الله بن عمرمن جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة قال أبو بكر إن أحد شقي ثوبي يسترخي إلا أن أتعاهد ذلك منه فقال رسول الله إنك لست تصنع ذلك خيلاء
   صحيح البخاري5784عبد الله بن عمرمن جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة قال أبو بكر يا رسول الله إن أحد شقي إزاري يسترخي إلا أن أتعاهد ذلك منه فقال النبي لست ممن يصنعه خيلاء
   صحيح البخاري5783عبد الله بن عمرلا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلاء
   صحيح البخاري5791عبد الله بن عمرمن جر ثوبه مخيلة لم ينظر الله إليه يوم القيامة
   صحيح مسلم5461عبد الله بن عمرالذي يجر إزاره من الخيلاء شيئا لا ينظر الله إليه يوم القيامة
   صحيح مسلم5455عبد الله بن عمرالذي يجر ثيابة من الخيلاء لا ينظر الله إليه يوم القيامة
   صحيح مسلم5457عبد الله بن عمرمن جر ثوبه من الخيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة
   صحيح مسلم5453عبد الله بن عمرلا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلاء
   صحيح مسلم5459عبد الله بن عمرمن جر إزاره لا يريد بذلك إلا المخيلة فإن الله لا ينظر إليه يوم القيامة
   جامع الترمذي1731عبد الله بن عمرمن جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة
   جامع الترمذي1730عبد الله بن عمرلا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر ثوبه خيلاء
   سنن أبي داود4085عبد الله بن عمرمن جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة قال أبو بكر إن أحد جانبي إزاري يسترخي إني لأتعاهد ذلك منه قال لست ممن يفعله خيلاء
   سنن النسائى الصغرى5330عبد الله بن عمرمن جر ثوبه من مخيلة فإن الله لم ينظر إليه يوم القيامة
   سنن النسائى الصغرى5330عبد الله بن عمرمن جر ثوبه من الخيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة
   سنن النسائى الصغرى5338عبد الله بن عمرمن جر ثوبه من الخيلاء لا ينظر الله إليه يوم القيامة قال أبو بكر يا رسول الله إن أحد شقي إزاري يسترخي إلا أن أتعاهد ذلك منه فقال النبي إنك لست ممن يصنع ذلك خيلاء
   سنن ابن ماجه3569عبد الله بن عمرالذي يجر ثوبه من الخيلاء لا ينظر الله إليه يوم القيامة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم417عبد الله بن عمرا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر ثوبه بطرا
   بلوغ المرام1249عبد الله بن عمرلا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلا
   المعجم الصغير للطبراني614عبد الله بن عمر من جر ثيابه من الخيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة
   مسندالحميدي650عبد الله بن عمرإذا جئت فاستأذن، فإذا أذن لك فسلم إذا دخلت
   مسندالحميدي651عبد الله بن عمرلا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلاء
   مسندالحميدي664عبد الله بن عمرإنك لست منهم
   سنن أبي داود4119عبد الله بن عمررخص رسول الله لأمهات المؤمنين في الذيل شبرا ثم استزدنه فزادهن شبرا فكن يرسلن إلينا فنذرع لهن ذراعا
   سنن ابن ماجه3581عبد الله بن عمرأن أزواج النبي رخص لهن في الذيل ذراعا فكن يأتينا فنذرع لهن بالقصب ذراعا
   سنن النسائى الصغرى5338عبد الله بن عمرترخينه ذراعا لا تزدن عليه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 417  
´مخلوق کے لئے تکبر کرنا حرام ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر ثوبه بطرا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ قیامت کے دن اس شخص کو (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا جو اپنا کپڑا تکبر سے گھسیٹ کے چلتا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 417]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5783، 5791، ومسلم 42/2085، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مخلوق کے لئے تکبر کرنا حرام ہے۔
➋ تکبر سے کپڑا گھسیٹ کر چلنا حرام ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 165   
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1249  
´ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا`
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلا . متفق عليه»
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف دیکھے گا نہیں جس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ کھینچا۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1249]
تخریج:
[بخاري: 5791، 5783]،
[مسلم: اللباس 5461]،
[بلوغ المرام: 1249]،
[تحفة الاشراف 466/5، 347/5، 215/6]

مفردات:
«الخيلاء» تکبر یہ مصدر ہے۔ گھوڑوں کو «خيل» اس لئے کہتے ہیں کہ ان کی چال میں تکبر پایا جاتا ہے۔ [قاموس]

فوائد:
دیکھے گا نہیں
کا مطلب یہ ہے کہ رحمت اور محبت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔ کیونکہ اللہ کی نظر سے کوئی چیز غائب تو ہو ہی نہیں سکتی وجہ یہ ہے کہ متواضع مسکین مہربانی کی نظر کا حق دار ہوتا ہے متکبر و مغرور اس سے محروم ہو جا تا ہے بلکہ قہر کی نظر کا حقدار بن جاتا ہے۔ فرمان الہی ہے:
«إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا» [4-النساء: 36]
یقیناًً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے شیخی خور کو پسند نہیں فرماتا۔
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب اليم المسبل والمنان والمنفق سلعته بالحلف الكاذب» [مسلم 71/1]
تین آدمی ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے عذاب الیم ہے (کپڑا) لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سامان بیچنے والا۔
➋ کپڑا لٹکانے پر یہ وعید عورتوں اور مردوں سب کے لئے ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث سے یہی بات سمجھی چنانچہ ترمذی اور نسائی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس روایت میں ساتھ ہی یہ الفاظ ہیں کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ عورتیں اپنے دامنوں کا کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک بالشت لٹکا لیا کریں۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس صورت میں ان کے پاؤں کھل جائیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ایک ہاتھ لٹکا لیں اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔ [سنن ترمذي اللباس]
اس سے معلوم ہوا کہ جو عورتیں کئی گز کپڑا اپنے پیچھے کھینچتے ہوئے چلتی ہیں، خصوصا شادی کے موقعہ پر وہ بھی اس وعید میں شامل ہیں۔ یورپی اقوام میں اور ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں کی عورتوں میں بھی یہ رسم بد چل پڑی ہے کہ وہ شادی کے موقعہ پر کئی گز لمبا غرارہ پہنتی ہیں جو پیچھے گھسٹتا جاتا ہے اور بعض اوقات اسے کئی عورتوں نے اٹھا رکھا ہوتا ہے جو ساتھ ساتھ چلتی جاتی ہیں۔ نمود و نمائش اور کبر و نخوت کی ماری ہوئی یہ عورتیں بھی اللہ کی نگاہ لطف سے محروم ہیں۔ عورت مردوں کی طرح اپنے ٹخنے ننگے نہ رکھے بلکہ پاؤں کو چھپائے مگر ایک ہاتھ (دو بالشت) سے زیادہ کپڑا نہ لٹکائے بہتر یہ ہے کہ ایک بالشت ہی لٹکائے۔
جس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ کھینچا۔
اس سے معلوم ہوا کہ تکبر کے بغیر کسی کا کپڑا نیچے چلا جائے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! میری چادر کا ایک کنارہ لٹک جاتا ہے سوائے اس کے کہ میں اس کا خاص خیال رکھوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إنك لست ممن يصنعه خيلاء» تم ان لوگوں سے نہیں ہو جو یہ کام تکبر سے کرتے ہیں۔ [بخاري 5784]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: «إلا أن أتعاهد ذلك منه» سوائے اس کے کہ میں اس کا خیال رکھوں۔ یعنی جب میں اس سے غافل ہو جاؤں تو وہ نیچے چلی جاتی ہے۔ احمد کے ہاں معمر عن زید بن اسلم کی روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا: «إن إزارى يسترخى أحيانا»، میری چادر کبھی کبھی نیچے ڈھلک جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ چلنے یا ہلنے جلنے سے ان کے اختیار کے بغیر چادر کی گرہ کھل جاتی تھی جب خاص خیال رکھتے تو نہیں ڈھلکتی تھی کیونکہ جب بھی ڈھلکنے لگتی اسے کس لیتے تھے۔ ابن سعد نے طلحہ بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر عن عائشہ کے طریق سے روایت کیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: «كان أبوبكر أحنى لا يستمسك إزاره یسترخى عن حقويه» ابوبکر رضی اللہ عنہ کا قد جھکا ہوا تھا اپنی چادر تھام نہیں سکتے تھے وہ ان کے کولہوں سے ڈھلک جاتی تھی۔ [فتح الباري 266/10]
اب صاف ظاہر ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جان بوجھ کر چادر نیچے نہیں لٹکا تے تھے کبھی کبھی بے توجھی ہو جاتی تو نیچے ڈھلک جاتی تھی۔ اس طرح اگر کسی کی چادر ڈھلک جائے تو نہ یہ تکبر ہے نہ اس پر مواخذہ ہے۔
➍ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کپڑا لٹکائے اور کہے کہ میں نے تکبر سے نہیں لٹکایا تو اس کی یہ بات درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی چادر کا مقام پنڈلی کا عضلہ (موٹا حصہ) مقرر فرمایا اس کے بعد پنڈلی کا نصف مقرر فرمایا زیادہ سے زیادہ ٹخنے کے اوپر تک رکھنے کی اجازت دی اور اس سے نیچے لٹکانا منع فرمایا بطور دلیل چند احادیث درج کی جاتی ہیں۔
«عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار» [صحيح بخاري]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چادر کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہے وہ آگ میں ہے۔
«عن حذيفة قال: اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بعضلة ساقي او ساقه فقال: هذا موضع الإزار فإن ابيت فاسفل فإن ابيت فلا حق للإزار فى الكعبين . قال ابوعيسى: هذا حديث حسن صحيح» [ترمذي اللباس 1783]
حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پنڈلی یا اپنی پنڈلی کا عضلہ (موٹا حصہ) پکڑ کر فرمایا: چادر کی جگہ یہ ہے اگر نہ مانو تو اس سے کچھ نیچے اگر یہ بھی نہ مانو تو چادر کا ٹخنوں میں کوئی حق نہیں۔ ابوعیسیٰ (ترمذی) نے فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
علاوہ ازیں یہ حدیث احمد، نسائی، ابن ماجہ میں بھی ہے اور دیکھئے صحیح الترمذی 1457
ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام نے فرمایا:
«إزرة المؤمن إلى نصف الساق ولا جناح عليه فيما بينه وبين الكعبين ما كان أسفل من الكعبين فهو فى النار من جر إزاره بطرا لم ينظر الله إليه» [صحيح - مالك، أحمد، أبوداود، ابن ماجه، ابن حبان، بيهقي، صحيح الجامع 921]
مومن کے چادر باندھنے کی حالت نصف پنڈلی تک ہے اور اس کے اور ٹخنوں کے درمیان اس پر کوئی گناہ نہیں۔ جو ٹخنوں سے نیچے ہو وہ آگ میں ہے جو شخص تکبر سے اپنی چادر لٹکائے اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھے گا نہیں۔
➎ جان بوجھ کر چادر لٹکانا تکبر میں شامل ہے خواہ ایسا کرنے والا یہ کہے کہ میں نے اسے تکبر سے نہیں لٹکایا۔ جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور کئی باتوں کے علاوہ ان سے فرمایا:
«وارفع إزارك إلى نصف الساق فإن ابيت فإلى الكعبين وإياك وإسبال الإزار فإنها من المخيلة وإن الله لا يحب المخيلة» [أبوداود 4084، نسائي، حاكم، صحيح أبى داود 3442]
اور اپنی چادر نصف پنڈلی تک اونچی رکھو اگر نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اور چادر لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ یہ تکبر سے ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو یقیناًً پسند نہیں فرماتا۔ اور دیکھیے [صحيح ابي داود 3442]
➏ اگر کوئی شخص اپنی پنڈلیاں ٹیڑھی یا باریک ہونے کی وجہ سے چادر لٹکائے تو یہ بھی ناجائز ہے۔
«عن الشريد رضى الله عنه قال: أبصر رسول الله رجلا يجر إزاره فأسرع إليه أو هرول فقال: إرفع إزارك واتق الله، قال: إني أحنف تصطك ركبتاي . فقال: ارفع إزارك كل خلق الله حسن، فما رؤي ذلك الرجل بعد إلا إزاره يصيب أنصاف ساقيه .» [مسند أحمد 390/4]
شرید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنی چادر کھینچتا ہوا جا رہا تھا آپ اس کی طرف جلدی سے گئے یا دوڑ کر گئے اور فرمایا اپنی چادر اوپر اٹھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس نے کہا: میرے پاؤں ٹیڑھے ہیں میرے گھٹنے آپس میں رگڑ کھاتے ہیں، آپ نے فرمایا اپنی چادر اوپر اٹھاؤ کیونکہ اللہ عزوجل کی پیدا کی ہوئی ہر چیز ہی خوبصورت ہے تو اس کے بعد اس آدمی کو جب بھی دیکھا گیا، اس کی چادر نصف پنڈلی پر ہوتی تھی۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے تمام راوی بخاری اور مسلم کے راوی ہیں۔ [سلسلة الأحاديث الصحيحة 1441]
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ اس صحابی کا چادر لٹکانا تکبر کی وجہ سے نہیں تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے منع فرمایا کہ اس میں تکبر پائے جانے کا گمان ہو سکتا تھا۔
«عن عمرو بن فلان الأنصاري قال بينا هو يمشي قد أسبل إزاره إذ لحقه رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أخذ بناصية نفسه وهو يقول: اللهم عبدك، ابن عبدك، ابن أمتك قال عمرو: قلت: يا رسول الله! إني رجل حمش الساقين فقال: يا عمرو! إن الله عز وجل قد أحسن كل شيء خلقه يا عمرو! وضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بأربع أصابع من كفه اليمنى تحت ركبة عمرو فقال: يا عمرو! هذا موضع الإزار ثم رفعها ثم وضعها تحت الثانية فقال: يا عمرو! هذا موضع الإزار» [مسند أحمد 200/4]
عمرو بن فلان الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ اپنی چادر لٹکائے ہوئے چل رہے تھے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر ملے آپ نے اپنی پیشانی کے بال پکڑے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے، اے اللہ! تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری بندی کا بیٹا ہوں (لٹکی ہوئی چادر سے ظاہر ہونے والے تکبر کی طرف توجہ دلانے کے لئے اپنی عاجزی کا اظہار فرما رہے تھے) عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (یہ سن کر میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں پتلی پنڈلیوں والا آدمی ہوں (اس لئے چادر اٹھا رکھی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرو! یقیناًً اللہ عزوجل نے جو چیز پیدا کی ہے خوبصورت پیدا کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دائیں ہتھیلی کی چار انگلیاں عمرو کے گھٹنے کے نیچے رکھ کر فرمایا: اے عمرو! یہ چادر کی جگہ ہے پھر انگلیاں اٹھا کر دوبارہ اس سے نیچے رکھ کر فرمایا: اے عمرو! یہ چادر کی جگہ ہے، پھر انگلیاں اٹھا کر دوبارہ اس سے نیچے رکھیں اور فرمایا اے عمرو! یہ چادر کی جگہ ہے۔
یہ حدیث طبرانی نے ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور انہوں نے عمرو بن زرارہ کا یہ واقعہ اپنا چشم دید بیان کیا ہے۔ مسند احمد کی روایت جو اوپر بیان ہوئی ہے اس میں عمرو نے خود اپنا واقعہ بیان کیا ہے مگر اس میں عمرو بن فلاں بیان ہوا ہے یہ وہی عمرو بن زرارہ ہیں اور طبرانی نے خود عمرو بن زرارہ سے بھی یہ روایت بیان کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے راوی ثقہ ہیں۔ [فتح 275/10]
➐ جو شخص جان بوجھ کر چادر یا شلوار ضرورت سے بڑی سلواتا ہے اور اسے ٹخنوں سے نیچے رکھتا ہے تکبیر کے علاوہ اس کے ناجائز ہونے کی چند اور وجھیں بھی ہیں۔
پہلی وجہ:
اسراف (فضول خرچی) ہے جو کہ حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
«وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ» [7-الأعراف:31]
اور فضول خرچی نہ کرو وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ «وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ٭ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا» [17-الإسراء:26]
اور فضول خرچی نہ کرو بلاشبہ فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان تو اپنے رب کا ناشکرا ہے۔
دوسری وجہ:
عورتوں سے مشابہت ہے جو اس میں اسراف سے بھی زیادہ نمایاں ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں:
«أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن المرأة تلبس لبسة الرجل والرجل يلبس لبسة المرأة»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر لعنت فرمائی جو مرد کی طرح کا لباس پہنے اور اس مرد پر لعنت فرمائی جو عورت کا لباس پہنے۔ [حاكم 194/4]
حاکم نے فرمایا یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ عورت اگر اپنے ٹخنے ننگے رکھے تو مرد سے مشابہت ہے اور مرد اپنے ٹخنے ڈھانک کر رکھے تو عورت سے مشابہت ہے۔
تیسری وجہ:
یہ ہے کہ چادر لٹکانے والے کی چادر کے ساتھ کوئی نہ کوئی نجاست لگنے کا اندیشہ رہتا ہے جب کہ اللہ تعلق کا حکم ہے «وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ» [74-المدثر:4] اپنے کپڑے پاک رکھ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے چادر لٹکانے سے منع فرماتے ہوئے ایک وجہ یہ بھی بیان فرمائی۔
صحیح بخاری میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا مفصل واقعہ مذکور ہے عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ جب امیر المؤمنین کو پیٹ میں خنجر مارا گیا تو انہیں اٹھا کر گھر لایا گیا ہم بھی ساتھ گئے نبیذ بنائی گئی انہوں نے پی تو پیٹ سے نکل گئی پھر دودھ لایا گیا آپ نے پیا تو زخم سے نکل گیا۔ لوگوں کو یقین ہو گیا۔ کہ آپ فوت ہو جائیں گے۔ اب ہم ان کے پاس داخل ہوئے اور لوگ بھی آنے لگے اور ان کی تعریف کرنے لگے ایک نوجوان آیا اس نے کہا: امیر المؤمنین اللہ کی طرف سے خوش خبری کے ساتھ خوش ہو جائیے۔ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور اسلام میں پیش قدی کی جو نعمت حاصل ہوئی آپ کو معلوم ہی ہے، پھر آپ حاکم بنے تو عدل کیا پھر شہادت نصیب ہوئی۔ فرمانے لگے میں تو یہ پسند کرتا ہوں کہ یہ سب کچھ برابر برابر رہ جائے نہ مجھ پر (بوجھ) ہو نہ میرے لئے (کچھ) ہو۔ جب وہ واپس جانے لگا تو اس کی چادر زمین پر لگ رہی تھی فرمایا اس نوجوان کو میرے پاس واپس لاؤ فرمایا:
«يا ابن أخي إرفع ثوبك فانه انقي لثوبك واتقي لربك»
بھتیجے اپنا کپڑا اوپر اٹھا لو کیونکہ یہ تمہارے کپڑے کو زیادہ صاف رکھنے کا باعث ہے اور تمہارے پروردگار سے زیادہ ڈرنے کا باعث ہے۔ [بخاري 3700]
یہاں ان بھائیوں کو غور کرنا چاہئیے جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کو معمولی خیال کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے اتنی تکلیف کی حالت میں بھی کپڑا لٹکانے سے منع فرمانے کو ضروری سمجھا ہے۔
➑ زیر بحث حدیث میں مذکور لفظ «من جر ثوبه إلخ» سے صاف ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف چادر لٹکانے سے ہی منع نہیں فرمایا بلکہ چادر شلوار قمیص کوئی بھی کپڑا ہو اسے لٹکانا منع ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 52   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5338  
´عورتوں کے دامن کی لمبائی کی حد کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے تکبر (گھمنڈ) سے اپنا کپڑا لٹکایا، اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا، ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! تو پھر عورتیں اپنے دامن کیسے رکھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اسے ایک بالشت لٹکائیں، وہ بولیں: تب تو ان کے قدم کھلے رہیں گے؟، آپ نے فرمایا: تو ایک ہاتھ لٹکائیں، اس سے زیادہ نہ کریں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5338]
اردو حاشہ:
(1) ایک بالشت یعنی نصف پنڈلی سے ایک بالشت نیچے تبھی پاؤں ننگے ہوں گے۔ اگر ٹخنوں سے بالشت نیچے ہو تو پاؤں ڈھانکے جائیں گے۔ ایک ہاتھ سے مراد بھی نصف پنڈلی سے نیچے ایک ہاتھ ہے۔ اس صورت میں دامن زمین پرگھسیٹنے لگے گا اور پاؤں بھی ننگے نہیں ہوں گے خواہ عورت چل ہی رہی ہو۔
(2) ننگے ہوں گویا عورتوں کے لیے مناسب ہے کہ ان کے قدم ننگے نہ ہوں البتہ قدم ڈھانکنا ضروری نہیں کیونکہ آپ نے ایک بالشت نیچے ہی کو ضروری قرار دیا ہے۔
(3) ایک ہاتھ عربی میں لفظ ذراع استعمال کیا گیا ہے یعنی کہنی کی ہڈی کے کنارے سے درمیانی انگلی کے بالائی کنارے تک عربی میں اس فاصلے کو ذراع کہتے ہیں۔ اردو میں اسے ہاتھ کہہ لیتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 5338   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3569  
´فخر و غرور سے ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے والے پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے کپڑے فخر و غرور سے گھسیٹے گا، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3569]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کپڑا گھسیٹنے کا مطلب یہ ہے کہ کپڑا اتنا لمبا ہو کہ زمیں پر گھسیٹا ہو یا زمین سے چھوتا ہو۔

(2)
تہبند، شلوار، پتلون، پاجامہ، عربی قمیض جو پاؤں تک ہوتی ہے ان سب میں مرد کے لئے جائز حد یہ ہے کہ کپڑا ٹخنوں سے اوپر رہے۔
اور افضل یہ ہے کہ آدھی پنڈلی تک رہے۔

(3)
جائز حد سے نیچے کپڑا لٹکانا کبیرا گناہ ہے۔

(4)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کپڑا تکبر کی نیت سے نہیں لٹکاتے ان کا یہ عذر درست نہیں کیونکہ ارشاد نبوی ﷺہے:
تہبند لٹکانے سے پرہیز کرو کیونکہ وہ تکبر ہے اور اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں۔ (سنن أبي داؤد، اللباس، باب ماجاء في اسبال الإزار، حديث: 4084)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3569   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1249  
´ادب کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظر رحمت سے نہ دیکھے گا جو تکبر سے اپنا کپڑا (پاؤں کے) نیچے گھسیٹتا پھرے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1249»
تخریج:
«أخرجه البخاري، اللباس، باب قول الله تعالي: "قل من حرم..."، حديث:5783، ومسلم، اللباس، باب تحريم جر الثوب خيلاء...، حديث:2085.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مردوں کے لیے چادر‘ شلوار اور پینٹ وغیرہ کا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا حرام ہے کیونکہ یہ متکبرین کی علامت ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1249   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1730  
´تہ بند گھسیٹنے کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جس نے تکبر سے اپنا تہ بند گھیسٹا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1730]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
گویا تکبر کیے بغیر غیر ارادی طورپر تہ بند کا نیچے لٹک جانا اس میں کوئی حرج نہیں ہے،
لیکن ارادۃ وقصداً نیچے رکھنا اور حدیث میں جو سزا بیان ہوئی ہے اسے معمولی جاننا یہ بڑا جرم ہے،
کیوں کہ کپڑا گھسیٹ کرچلنا یہ تکبر کی ایک علامت ہے،
جو لباس کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1730   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4085  
´تہ بند (لنگی) کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی غرور اور تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا تو اللہ اسے قیامت کے دن نہیں دیکھے گا یہ سنا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے تہبند کا ایک کنارہ لٹکتا رہتا ہے جب کہ میں اس کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تم ان میں سے نہیں ہو جو غرور سے یہ کام کیا کرتے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4085]
فوائد ومسائل:
1: بیٹھے بیٹھے یا کام کاج میں تہ بند یا شلوار وغیر ہ کا ڈھیلا ہو جانا اور ٹخنوں سے نیچے چلے جانا اس تکبر میں شمار نہیں جس کا ذکر اوپر کی حدیث میں ہوا۔

2: صحابہ کرام تعلیمات نبویہ کی روشنی میں انتہائی حساس تھے کہ کسی بھی وقت ان سے کوئی مخالفت نہ ہونے پائے اسی وجہ سے حٖت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے وضاحت چاہی تھی، اس سے انہیں اور دیگر مسلمانوں کے لئے راحت ہو گئی اور شدت نہ رہی، مگر آخری جملے کو اپنے لئے دلیل سمجھ لینا کسی طرح جائز نہیں، جیسا کہ اوپر وضاحت گزری ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4085   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4119  
´عورت کے دامن لٹکانے کی مقدار کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امہات المؤمنین (رضی اللہ عنہن) کو ایک بالشت دامن لٹکانے کی رخصت دی، تو انہوں نے اس سے زیادہ کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے انہیں مزید ایک بالشت کی رخصت دے دی چنانچہ امہات المؤمنین ہمارے پاس کپڑے بھیجتیں تو ہم انہیں ایک ہاتھ ناپ دیا کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4119]
فوائد ومسائل:
عورتوں کے لئے چادروں کی لمبائی مردوں کی قمیضوں کے مقابلے میں ہے، نہ کہ زمین کے مقابلے میں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4119   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.