الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: مساجد کے فضائل و مسائل
The Book of the Masjids
12. بَابُ : نَبْشِ الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ أَرْضِهَا مَسْجِدًا
12. باب: قبروں کو اکھیڑنے اور ان کی جگہ مسجد بنانے کا بیان۔
Chapter: Digging Up Graves And Using The Land As A Masjid
حدیث نمبر: 703
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمران بن موسى، قال: حدثنا عبد الوارث، عن ابي التياح، عن انس بن مالك، قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل في عرض المدينة في حي يقال لهم: بنو عمرو بن عوف، فاقام فيهم اربع عشرة ليلة ثم ارسل إلى ملإ من بني النجار فجاءوا متقلدي سيوفهم، كاني انظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على راحلته وابو بكر رضي الله عنه رديفه وملا من بني النجار حوله حتى القى بفناء ابي ايوب، وكان يصلي حيث ادركته الصلاة فيصلي في مرابض الغنم، ثم امر بالمسجد، فارسل إلى ملإ من بني النجار فجاءوا، فقال: يا بني النجار، ثامنوني بحائطكم هذا، قالوا: والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله عز وجل، قال انس: وكانت فيه قبور المشركين وكانت فيه خرب وكان فيه نخل فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقبور المشركين فنبشت وبالنخل فقطعت وبالخرب فسويت فصفوا النخل قبلة المسجد وجعلوا عضادتيه الحجارة وجعلوا ينقلون الصخر وهم يرتجزون ورسول الله صلى الله عليه وسلم معهم وهم، يقولون:" اللهم لا خير إلا خير الآخرة فانصر الانصار والمهاجرة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ فِي عُرْضِ الْمَدِيِنَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ: بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ فَجَاءُوا مُتَقَلِّدِي سُيُوفِهِمْ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَدِيفَهُ وَمَلَأٌ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّى أَلْقَى بِفِنَاءِ أَبِي أَيُّوبَ، وَكَانَ يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ فَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، ثُمَّ أَمَرَ بِالْمَسْجِدِ، فَأَرْسَلَ إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ فَجَاءُوا، فَقَالَ: يَا بَنِي النَّجَّارِ، ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا، قَالُوا: وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ أَنَسٌ: وَكَانَتْ فِيهِ قُبُورُ الْمُشْرِكِينَ وَكَانَتْ فِيهِ خَرِبٌ وَكَانَ فِيهِ نَخْلٌ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَنُبِشَتْ وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَتْ وَبِالْخَرِبِ فَسُوِّيَتْ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ الْحِجَارَةَ وَجَعَلُوا يَنْقُلُونَ الصَّخْرَ وَهُمْ يَرْتَجِزُونَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ وَهُمْ، يَقُولُونَ:" اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَةِ فَانْصُرْ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو اس کے ایک کنارے بنی عمرو بن عوف نامی ایک قبیلہ میں اترے، آپ نے ان میں چودہ دن تک قیام کیا، پھر آپ نے بنو نجار کے لوگوں کو بلا بھیجا تو وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، آپ ان کے ساتھ چلے گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی سواری پر ہیں، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے سوار ہیں، اور بنی نجار کے لوگ آپ کے اردگرد ہیں، یہاں تک کہ آپ ابوایوب رضی اللہ عنہ کے دروازے پر اترے، جہاں نماز کا وقت ہوتا وہاں آپ نماز پڑھ لیتے، یہاں تک کہ آپ بکریوں کے باڑوں میں بھی نماز پڑھ لیتے، پھر آپ کو مسجد بنانے کا حکم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نجار کے لوگوں کو بلوایا، وہ آئے تو آپ نے فرمایا: بنو نجار! تم مجھ سے اپنی اس زمین کی قیمت لے لو، ان لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم ہم اس کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس میں مشرکین کی قبریں، کھنڈر اور کھجور کے درخت تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو مشرکین کی قبریں کھود ڈالی گئیں، کھجور کے درخت کاٹ دیئے گئے، اور کھنڈرات ہموار کر دیئے گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھجور کے درختوں کو مسجد کے قبلہ کی جانب لائن میں رکھ دیا، اور چوکھٹ کے دونوں پٹ پتھر کے بنائے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پتھر ڈھوتے، اور اشعار پڑھتے جاتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ تھے، وہ لوگ کہہ رہے تھے: اے اللہ! بھلائی صرف آخرت کی بھلائی ہے، انصار و مہاجرین کی تو مدد فرما۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 48 (428)، فضائل المدینة 1 (1868)، فضائل الأنصار 46 (3932)، صحیح مسلم/المساجد 1 (524)، سنن ابی داود/الصلاة 12 (453، 454)، سنن ابن ماجہ/المساجد 3 (742)، (تحفة الأشراف: 1691)، مسند احمد 3/118، 123، 180، 211، 212، 244 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري3795أنس بن مالكلا عيش إلا عيش الآخرة فأصلح الأنصار والمهاجرة
   صحيح البخاري2834أنس بن مالكاللهم إن العيش عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري3796أنس بن مالكالأنصار يوم الخندق تقول نحن الذين بايعوا محمدا على الجهاد ما حيينا أبدا فأجابهم اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري4099أنس بن مالكخرج رسول الله إلى الخندق فإذا المهاجرون والأنصار يحفرون في غداة باردة فلم يكن لهم عبيد يعملون ذلك لهم فلما رأى ما بهم من النصب والجوع قال اللهم إن العيش عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره فقالوا مجيبين له نحن الذين بايعوا محمدا على الجهاد ما بقينا أبدا
   صحيح البخاري4100أنس بن مالكجعل المهاجرون والأنصار يحفرون الخندق حول المدينة وينقلون التراب على متونهم وهم يقولون نحن الذين بايعوا محمدا على الإسلام ما بقينا أبدا قال يقول النبي وهو يجيبهم اللهم إنه لا خير إلا خير الآخره فبارك في الأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري7201أنس بن مالكاللهم إن الخير خير الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري6413أنس بن مالكاللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأصلح الأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري2961أنس بن مالكاللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري428أنس بن مالكاللهم لا خير إلا خير الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره
   صحيح البخاري2835أنس بن مالكاللهم إنه لا خير إلا خير الآخره فبارك في الأنصار والمهاجره
   صحيح مسلم4674أنس بن مالكاللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره
   صحيح مسلم4676أنس بن مالكاللهم إن الخير خير الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره
   صحيح مسلم4673أنس بن مالكاللهم لا عيش إلا عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره
   صحيح مسلم4675أنس بن مالكاللهم لا خير إلا خير الآخره فانصر الأنصار والمهاجره
   جامع الترمذي3857أنس بن مالكاللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره
   سنن أبي داود453أنس بن مالكاللهم لا خير إلا خير الآخره فانصر الأنصار والمهاجره
   سنن النسائى الصغرى703أنس بن مالكاللهم لا خير إلا خير الآخرة فانصر الأنصار والمهاجرة
   سنن ابن ماجه742أنس بن مالكألا إن العيش عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 703  
´قبروں کو اکھیڑنے اور ان کی جگہ مسجد بنانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو اس کے ایک کنارے بنی عمرو بن عوف نامی ایک قبیلہ میں اترے، آپ نے ان میں چودہ دن تک قیام کیا، پھر آپ نے بنو نجار کے لوگوں کو بلا بھیجا تو وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، آپ ان کے ساتھ چلے گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی سواری پر ہیں، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے سوار ہیں، اور بنی نجار کے لوگ آپ کے اردگرد ہیں، یہاں تک کہ آپ ابوایوب رضی اللہ عنہ کے دروازے پر اترے، جہاں نماز کا وقت ہوتا وہاں آپ نماز پڑھ لیتے، یہاں تک کہ آپ بکریوں کے باڑوں میں بھی نماز پڑھ لیتے، پھر آپ کو مسجد بنانے کا حکم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نجار کے لوگوں کو بلوایا، وہ آئے تو آپ نے فرمایا: بنو نجار! تم مجھ سے اپنی اس زمین کی قیمت لے لو، ان لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم ہم اس کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس میں مشرکین کی قبریں، کھنڈر اور کھجور کے درخت تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو مشرکین کی قبریں کھود ڈالی گئیں، کھجور کے درخت کاٹ دیئے گئے، اور کھنڈرات ہموار کر دیئے گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھجور کے درختوں کو مسجد کے قبلہ کی جانب لائن میں رکھ دیا، اور چوکھٹ کے دونوں پٹ پتھر کے بنائے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پتھر ڈھوتے، اور اشعار پڑھتے جاتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ تھے، وہ لوگ کہہ رہے تھے: اے اللہ! بھلائی صرف آخرت کی بھلائی ہے، انصار و مہاجرین کی تو مدد فرما۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 703]
703 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ہجرت کے موقع پر تشریف آوری کا ذکر ہے۔ آپ مدینہ منورہ کی مضافاتتی بستی قباء میں ٹھہرے تھے۔ آپ چند دن یہاں ٹھہرے رہے، چار یا چودہ دن۔
➋ بنو نجار آپ کا ننھیال تھا۔ ہاشم کی بیوی اور عبدالمطلب کی والدہ اس قبیلے سے تھیں۔ آپ نے ان کی عزت افزائی کرنی چاہی، اس لیے انہیں پیغام بھیجا۔
➌ بکریوں کے باڑے سے مراد وہ جگہ ہے جہاں بکریاں باندھی جاتی ہوں۔
➍ یہ احاطہ آپ کی عا رضی رہائش گاہ کے بالکل سامنے تھا۔ آپ نے اسے مسجد اور اپنی رہائش کے لیے مناسب خیال فرمایا۔
مشرکین کی قبریں چونکہ مشرکین کی قبریں قابل احترام نہیں ہیں، لہٰذا انہیں اکھیڑا جا سکتا ہے۔ یہ قبریں پر ان ی تھیں۔ ان کے قریبی ورثاء فوت ہوچکے ہوں گے ورنہ مسلمان ورثاء کی دل شکنی بھی منع ہے۔ روایات میں ہے کہ وہ احاطہ بنونجار کے دو یتیم بچوں کا تھا، اسی لیے آپ نے باوجود پیش کش کے بلاقیمت لینا منظور نہ کیا بلکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہہ کر ان بچوں کو قیمت دلوائی۔
رجز ایک قسم کا شعر اور ہم آہنگ سا کلام ہوتا ہے۔ اس میں وزن بھی ہوتا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جنگ میں یا کسی خاص موقع پر اس قسم کا کلام پڑھ لیا تو آپ شاعرنہ بن گئے کیونکہ شاعر وہ ہوتا ہے جو شعر کو بطور پیشہ اور فن اپناتا ہے، نہ کہ وہ جو کبھی کبھار کوئی ہم آہنگ اور باوزن کلام بول لے جس میں شعر کہنے کا کوئی قصد بھی نہ ہو یا کسی کا کہا: ہوا شعر پڑھ لے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 703   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث742  
´مسجد کس جگہ بنانی جائز ہے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مسجد نبوی کی زمین قبیلہ بنو نجار کی ملکیت تھی، جس میں کھجور کے درخت اور مشرکین کی قبریں تھیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: تم مجھ سے اس کی قیمت لے لو، ان لوگوں نے کہا: ہم ہرگز اس کی قیمت نہ لیں گے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بنا رہے تھے اور صحابہ آپ کو (سامان دے رہے تھے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: سنو! زندگی تو دراصل آخرت کی زندگی ہے، اے اللہ! تو مہاجرین اور انصار کو بخش دے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مسجد کی تعمیر سے پہلے جہاں نماز کا وقت ہو ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 742]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مسجد کے لیے زمین خریدنا جائز ہے اور زمین کا مالک مسجد کی انتظامیہ کے ہاتھ زمین فروخت کرسکتا ہے۔
اسی طرح مسجد کے دوسرے کاموں کے لیے مثلاً:
تعمیرومرمت، پانی اور بجلی کے نظام کی تنصیب کی محنت پر اجرت وصول کرنا جائز ہے۔

(2)
مسجد کے لیے زمین مفت دے دینا یا مسجد کے کام بلامعاوضہ کردینا اور مسجد کی ضرورت کی اشیاء بلا قیمت دے دینا افضل اور بہت ثواب کا باعث ہے۔

(3)
رسول اللہ ﷺ ثواب کے کام میں بنفس نفیس شریک ہوتے تھے۔
اس طرح یا قبیلے کا معزز فرد اور عالم اگر خود ایسے کاموں میں شریک ہوتو اچھی بات ہے کیونکہ اس سے دوسروں کو ترغٰیب ہوتی ہےاور جو لوگ پہلے سے کام میں شریک ہیں ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

(4)
غیر مسلموں کی قبروں کا وہ احترام نہیں جو مسلمانوں کی قبروں کا ہے اس لیے انھیں بوقت ضرورت مسمار کیا جا سکتا ہے۔

(5)
قبرستان میں نماز پڑھنا منع ہے لیکن اگر قبروں کے نشانات ختم ہوجائیں تو وہ جگہ عام زمین کے حکم میں ہوجائے گی پھر وہاں مسجد بنائی جاسکتی ہے۔

(6)
اسی طرح بت خانہ اور گرجا وغیرہ مسمار کرکے وہاں مسجد تعمیر کرنا درست ہے۔
یا عمارت میں اس انداز سے تبدیلی کرلی جائےکہ ظاہری طور پر بت خانہ یا گرجا معلوم نہ ہو مسجد معلوم ہو۔

(7)
ایسے شعر پڑھنا اور سننا جائز ہیں جن کے الفاظ ومعانی میں کوئی خلاف شریعت چیز نہ ہو لیکن موسیقی کے آلات کا استعمال حرام ہے۔

(8)
جہاں مسجد قریب نہ ہو وہاں کسی بھی مناسب جگہ نماز ادا کی جاسکتی ہے، اس سے اس جگہ پر مسجد کے احکام لاگو نہیں ہوں گے جب تک مسجد کی نیت سے عمارت بنالی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 742   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3857  
´ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره» بار الٰہا زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، تو انصار و مہاجرین کی تکریم فرما ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3857]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اگلی حدیث کے استشہاد میں لائے ہیں،
یہی اس باب سے اس کی مناسبت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3857   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.