الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قبلہ کے احکام و مسائل
The Book of the Qiblah
8. بَابُ : التَّشْدِيدِ فِي الْمُرُورِ بَيْنَ يَدَىِ الْمُصَلِّي وَبَيْنَ سُتْرَتِهِ
8. باب: نمازی اور سترہ کے درمیان گزرنے کی شناعت کا بیان۔
Chapter: Stern warning against passing between a praying person and his Sutra
حدیث نمبر: 757
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن ابي النضر، عن بسر بن سعيد، ان زيد بن خالد ارسله إلى ابي جهيم يساله ماذا سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: في المار بين يدي المصلي، فقال ابو جهيم: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه، لكان ان يقف اربعين خيرا له من ان يمر بين يديه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ يَسْأَلُهُ مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي، فَقَالَ أَبُو جُهَيْمٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ".
بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد نے انہیں ابوجہیم رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ انہوں نے نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کہتے سنا ہے؟ تو ابوجہیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس پر کیا گناہ ہے تو وہ چالیس (دن، مہینہ یا سال) تک کھڑا رہنے کو بہتر اس بات سے جانتا کہ وہ اس کے سامنے سے گزرے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 101 (510)، صحیح مسلم/الصلاة 48 (507)، سنن ابی داود/الصلاة 109 (701)، سنن الترمذی/الصلاة 135 (336)، سنن ابن ماجہ/إقامة 37 (945)، (تحفة الأشراف: 11884)، موطا امام مالک/السفر 10 (34)، مسند احمد 4/169، سنن الدارمی/الصلاة 130 (1457) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري510حارث بن الصمةلو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمر بين يديه
   صحيح مسلم1132حارث بن الصمةلو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمر بين يديه
   جامع الترمذي336حارث بن الصمةلو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان أن يقف أربعين خير له من أن يمر بين يديه
   سنن أبي داود701حارث بن الصمةلو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان أن يقف أربعين خير له من أن يمر بين يديه
   سنن النسائى الصغرى757حارث بن الصمةلو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمر بين يديه
   سنن ابن ماجه945حارث بن الصمةلو يعلم أحدكم ما له أن يمر بين يدي أخيه وهو يصلي كان لأن يقف أربعين
   بلوغ المرام180حارث بن الصمة‏‏‏‏لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه من الإثم لكان ان يقف اربعين خيرا له من ان يمر بين يديه
   مسندالحميدي836حارث بن الصمةلأن يمكث أحدكم أربعين، خير له من أن يمر بين يدي المصلي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 180  
´نمازی کے سترے کا بیان`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه من الإثم لكان ان يقف اربعين خيرا له من ان يمر بين يديه . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو یہ معلوم ہو جائے کہ ایسا کرنے کا کتنا گناہ ہے تو اس کو نمازی کے آگے سے گزرنے کے مقابلے میں چالیس (برس) تک وہاں کھڑا رہنا زیادہ پسند ہ . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 180]

لغوی تشریح:
«بَابُ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي» سترہ کے سین پر ضمہ اور تا ساکن ہے۔ جسے نمازی اپنی سجدہ گاہ کے آگے نصب کر لے یا کھڑا کر لے یا رکاوٹ بنا لے، خواہ دیوار ہو، ستون ہو، نیزہ ہو یا لکڑی وغیرہ، تاکہ یہ سترہ گزرنے والے اور اس نمازی کے درمیان حائل رہے۔
«اَلْمَارُّ»، «مُرُور» سے اسم فاعل ہے۔ گزرنے والا۔
«خَرِيفًا» بمعنی سال۔ خریف، ربیع کے بالمقابل ایک فصل کا نام ہے اور یہ سال بھر میں ایک ہی مرتبہ وصول ہوتی ہے، اس لیے یہاں جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ یہ مجاز مرسل ہے۔

راویٔ حدیث:
(سیدنا ابوجہیم بن حارث رضی اللہ عنہ) کہا گیا ہے کہ ان کا نام عبداللہ بن حارث بن صمّہ انصاری ہے۔ خزرج قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ مشہور صحابی ہیں۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت تک زندہ رہے۔ «جُهَيْم»، «جَهْم» کی تصغیر ہے اور «الصِمَّة» صاد کے نیچے کسرہ اور میم کی تشدید کے ساتھ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 180   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 701  
´نمازی کے سامنے سے گزرنا منع ہے۔`
بسر بن سعید کہتے ہیں کہ زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے انہیں ابوجہیم رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں کیا سنا ہے؟ تو ابوجہیم رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا یہ جان لے کہ اس پر کس قدر گناہ ہے، تو اس کو نمازی کے سامنے گزرنے سے چالیس (دن یا مہینے یا سال تک) وہیں کھڑا رہنا بہتر لگتا۔‏‏‏‏ ابونضر کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے چالیس دن کہا یا چالیس مہینے یا چالیس سال۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب السترة /حدیث: 701]
701۔ اردو حاشیہ:
➊ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جان بوجھ کر نمازی کے آگے سے گزرنا کتنا سخت گنا ہ ہے۔ نماز خواہ فرض ہو یا نفل۔
➋ چالیس کے عدد کے بعد دن، مہینے یا سال کا ذکر نہ ہونا اس سزا کی شدت کے لیے ہے۔ تاہم بعض ضعیف طرق میں «خريف» سال کا لفظ آیا ہے، اس سے گناہ کی شناعت و قباحت واضح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 701   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 757  
´نمازی اور سترہ کے درمیان گزرنے کی شناعت کا بیان۔`
بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد نے انہیں ابوجہیم رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ انہوں نے نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کہتے سنا ہے؟ تو ابوجہیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس پر کیا گناہ ہے تو وہ چالیس (دن، مہینہ یا سال) تک کھڑا رہنے کو بہتر اس بات سے جانتا کہ وہ اس کے سامنے سے گزرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 757]
757 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس روایت میں چالیس کے بعد سال کا ذکر نہیں۔ مسند بزار میں خریف کا لفظ ہے، اس کے معنی سال کے ہیں لیکن یہ لفظ سنداً ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [تمام المنة للألباني، ص: 302، و فتح الباري: 585/1، حدیث: 510]
ایک حدیث میں «مائة عام» سو سال کھڑے رہنے کا ذکر ہے، لیکن اس کی سند میں عبیداللہ بن عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن موہب ضعیف ہے اور اس کا چچا عبیداللہ بن عبداللہ بن موہب مجہول ہے۔ دیکھیے: [تھذیب الکمال: 80/19]
شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف ابن ماجہ میں ضعیف کہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معدود کی صراحت درست نہیں ہے۔ معدود مبہم رکھا گیا ہے۔ عربی میں اس طریقے سے زجرو توبیخ اور معاملے کی سنگینی کا بیان مقصود ہوتا ہے بہرحال مقصود عدد نہیں کثرت اور مبالغہ ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ چالیس یا سو سال تک رکے رہنے کی بات بھی یفرض محال ہے ورنہ اتنی دیر تک ایک انسان کا نماز پڑھنا ایک جگہ رکے رہنا قابل تصور نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 757   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.