الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
41. بَابُ : اخْتِلاَفِ نِيَّةِ الإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ
41. باب: امام اور مقتدی کی نیت کے اختلاف کا بیان۔
Chapter: Difference in the intention of the Imam and the one following him
حدیث نمبر: 836
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور قال: حدثنا سفيان، عن عمرو، قال: سمعت جابر بن عبد الله يقول: كان معاذ يصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم يرجع إلى قومه يؤمهم فاخر ذات ليلة الصلاة وصلى مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم رجع إلى قومه يؤمهم فقرا سورة البقرة فلما سمع رجل من القوم تاخر فصلى، ثم خرج فقالوا: نافقت يا فلان، فقال: والله ما نافقت ولآتين النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إن معاذا يصلي معك، ثم ياتينا فيؤمنا وإنك اخرت الصلاة البارحة فصلى معك، ثم رجع فامنا فاستفتح بسورة البقرة فلما سمعت ذلك تاخرت فصليت وإنما نحن اصحاب نواضح نعمل بايدينا فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" يا معاذ افتان انت اقرا بسورة كذا وسورة كذا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: كَانَ مُعَاذٌ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى قَوْمِهِ يَؤُمُّهُمْ فَأَخَّرَ ذَاتَ لَيْلَةٍ الصَّلَاةَ وَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ يَؤُمُّهُمْ فَقَرَأَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَلَمَّا سَمِعَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ تَأَخَّرَ فَصَلَّى، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالُوا: نَافَقْتَ يَا فُلَانُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا نَافَقْتُ وَلَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخْبِرُهُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ مُعَاذًا يُصَلِّي مَعَكَ، ثُمَّ يَأْتِينَا فَيَؤُمُّنَا وَإِنَّكَ أَخَّرْتَ الصَّلَاةَ الْبَارِحَةَ فَصَلَّى مَعَكَ، ثُمَّ رَجَعَ فَأَمَّنَا فَاسْتَفْتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ فَلَمَّا سَمِعْتُ ذَلِكَ تَأَخَّرْتُ فَصَلَّيْتُ وَإِنَّمَا نَحْنُ أَصْحَابُ نَوَاضِحَ نَعْمَلُ بِأَيْدِينَا فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا مُعَاذُ أَفَتَّانٌ أَنْتَ اقْرَأْ بِسُورَةِ كَذَا وَسُورَةِ كَذَا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر اپنی قوم میں واپس جا کر ان کی امامت کرتے، ایک رات انہوں نے نماز لمبی کر دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انہوں نے نماز پڑھی، پھر وہ اپنی قوم کے پاس آ کر ان کی امامت کرنے لگے، تو انہوں نے سورۃ البقرہ کی قرآت شروع کر دی، جب مقتدیوں میں سے ایک شخص نے قرآت سنی تو نماز توڑ کر پیچھے جا کر الگ سے نماز پڑھ لی، پھر وہ (مسجد سے) نکل گیا، تو لوگوں نے پوچھا، فلاں! تو منافق ہو گیا ہے؟ تو اس نے کہا: اللہ کی قسم میں نے منافقت نہیں کی ہے، اور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا، اور آپ کو اس سے باخبر کروں گا ؛ چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، پھر ہمارے پاس آتے ہیں، اور ہماری امامت کرتے ہیں، پچھلی رات انہوں نے نماز بڑی لمبی کر دی، انہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر واپس آ کر انہوں نے ہماری امامت کی، تو سورۃ البقرہ پڑھنا شروع کر دی، جب میں نے ان کی قرآت سنی تو پیچھے جا کر میں نے (تنہا) نماز پڑھ لی، ہم پانی ڈھونے والے لوگ ہیں، دن بھر اپنے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو تم (نماز میں) فلاں، فلاں سورت پڑھا کرو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 36 (465)، سنن ابی داود/الصلاة 68 (600)، 127 (790)، (تحفة الأشراف: 2533) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی نماز صحیح ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح البخاري6106جابر بن عبد اللهأفتان أنت ثلاثا اقرأ والشمس وضحاها و سبح اسم ربك الأعلى ونحوها
   صحيح البخاري705جابر بن عبد اللهأفتان أنت فلولا صليت بسبح اسم ربك والشمس وضحاها والليل إذا يغشى فإنه يصلي وراءك الكبير والضعيف وذو الحاجة
   صحيح مسلم1041جابر بن عبد اللهأتريد أن تكون فتانا يا معاذ إذا أممت الناس فاقرأ ب الشمس وضحاها وسبح اسم ربك الأعلى واقرأ باسم ربك والليل إذا يغشى
   صحيح مسلم1040جابر بن عبد اللهأفتان أنت اقرأ بكذا واقرأ بكذا
   سنن أبي داود790جابر بن عبد اللهأفتان أنت أفتان أنت اقرأ بكذا اقرأ بكذا
   سنن النسائى الصغرى985جابر بن عبد اللهأفتان يا معاذ ألا قرأت سبح اسم ربك الأعلى و الشمس وضحاها ونحوهما
   سنن النسائى الصغرى998جابر بن عبد اللهأفتان يا معاذ أين كنت عن سبح اسم ربك الأعلى و الضحى و إذا السماء انفطرت
   سنن النسائى الصغرى999جابر بن عبد اللهأتريد أن تكون فتانا يا معاذ إذا أممت الناس فاقرأ ب الشمس وضحاها و سبح اسم ربك الأعلى و الليل إذا يغشى و اقرأ باسم ربك
   سنن النسائى الصغرى836جابر بن عبد اللهأفتان أنت اقرأ بسورة كذا وسورة كذا
   سنن النسائى الصغرى832جابر بن عبد اللهأفتان يا معاذ
   سنن ابن ماجه836جابر بن عبد اللهاقرأ ب الشمس وضحاها و سبح اسم ربك الأعلى و الليل إذا يغشى و اقرأ باسم ربك
   سنن ابن ماجه986جابر بن عبد اللهأتريد أن تكون فتانا يا معاذ إذا صليت بالناس فاقرأ ب الشمس وضحاها و سبح اسم ربك الأعلى و الليل إذا يغشى و اقرأ باسم ربك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 790  
´نماز ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر لوٹتے تو ہماری امامت کرتے تھے - ایک روایت میں ہے: پھر وہ لوٹتے تو اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز دیر سے پڑھائی اور ایک روایت میں ہے: عشاء دیر سے پڑھائی، چنانچہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پھر گھر واپس آ کر اپنی قوم کی امامت کی اور سورۃ البقرہ کی قرآت شروع کر دی تو ان کی قوم میں سے ایک شخص نے جماعت سے الگ ہو کر اکیلے نماز پڑھ لی، لوگ کہنے لگے: اے فلاں! تم نے منافقت کی ہے؟ اس نے کہا: میں نے منافقت نہیں کی ہے، پھر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر یہاں سے واپس جا کر ہماری امامت کرتے ہیں، ہم لوگ دن بھر اونٹوں سے کھیتوں کی سینچائی کرنے والے لوگ ہیں، اور اپنے ہاتھوں سے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں (اس لیے تھکے ماندے رہتے ہیں) معاذ نے آ کر ہماری امامت کی اور سورۃ البقرہ کی قرآت شروع کر دی (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے؟ فلاں اور فلاں سورۃ پڑھا کرو۔‏‏‏‏ ابوزبیر نے کہا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): تم «سبح اسم ربك الأعلى»، «والليل إذا يغشى» پڑھا کرو، ہم نے عمرو بن دینار سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میرا بھی خیال ہے کہ آپ نے اسی کا ذکر کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 790]
790۔ اردو حاشیہ:
➊ امام کو اپنے مقتدیوں کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز مختصر پڑھانی چاہیے۔
➋ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نماز اور جماعت سے پیچھے رہنے کو نفاق سے تعبیر کیا کرتے تھے۔
➌ امام، مفتی اور داعی کو کسی عمل خیر میں اس نکتے کو نہیں بھولنا چاہیے کہ عام مسلمانوں پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ ایسی صورت نہ ہو کہ لوگ دین ہی سے بدک جائیں۔ مردہ سنتوں کے احیاء کے لئے ضروری ہے کہ پہلے لوگوں کی فکری تربیت کی جائے اور ان میں سنت کی محبت بھر دی جائے اور دلائل محکمہ سے انہیں مطمئین کیا جائے۔ پھر عمل شروع کیا جائے۔ بعض اوقات ایک شخص کا ارادہ تو نیکی کا ہوتا ہے، مگر اس سے فتنہ پیدا ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنی عافیت میں رکھے۔ آئمہ اور داعی حضرات کی ذمہ دای انتہائی اہم اور حساس ہے۔
➍ پیچھے یہ گزر چکا ہے کے کسی بھی مشروع سبب سے نماز کو دہرانا اور نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض ادا کرنا جائز ہے۔ دیکھیے: [حديث 599]
کیونکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ جو اپنی قوم کو پڑھایا کرتے تھے، وہ ان کی نفل نماز ہوتی تھی۔
ملحوظہ۔ اس روایت میں صرف مسافر کا ذکر صحیح نہیں ہے۔ [شيخ الباني]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 790   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 832  
´مقتدی کا امام کی نماز سے نکل جانے اور جا کر مسجد کے ایک گوشے میں اپنی نماز پڑھ لینے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار کا ایک شخص آیا اور نماز کھڑی ہو چکی تھی تو وہ مسجد میں داخل ہوا، اور جا کر معاذ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنے لگا، انہوں نے رکعت لمبی کر دی، تو وہ شخص (نماز توڑ کر) الگ ہو گیا، اور مسجد کے ایک گوشے میں جا کر (تنہا) نماز پڑھ لی، پھر چلا گیا، جب معاذ رضی اللہ عنہ نے نماز پوری کر لی تو ان سے کہا گیا کہ فلاں شخص نے ایسا ایسا کیا ہے، تو معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں نے صبح کر لی تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور بیان کروں گا ؛ چنانچہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بلا بھیجا، وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں کس چیز نے ایسا کرنے پر ابھارا؟ تو اس نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں نے دن بھر (کھیت کی) سینچائی کی تھی، میں آیا، تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی، تو میں مسجد میں داخل ہوا، اور ان کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا، انہوں نے فلاں فلاں سورت پڑھنی شروع کر دی، اور (قرآت) لمبی کر دی، تو میں نے نماز توڑ کر جا کر الگ ایک کونے میں نماز پڑھ لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 832]
832 ۔ اردو حاشیہ:
➊ امام نسائی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ اب بھی اگر کوئی معقول وجہ بن جائے تو آدمی نماز باجماعت سے نکل کر اپنی الگ نماز پڑھ سکتا ہے مثلاً: جماعت کھڑی ہے کہ ٹرین آگئی۔ امام صاحب لمبی قرأت کر رہے ہیں تو ٹرین کا مسافر اپنی نماز الگ سے پڑھ لے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی خیال ہے۔ اس قسم کی کوئی اور معقول وجہ بھی عذر بن سکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ یہ عشاء کی نماز کا واقعہ ہے۔ اس انصاری کو ادائیگی نماز کی داد دیجیے کہ سارا دن کام کرنے بلکہ رات کا ایک حصہ بھی گزر جانے کے باوجود اس نے کھانے اور آرام کرنے کی بجائے نماز کو ترجیح دی۔
➌ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو تنبیہ کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم «وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَالضُّحَى، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَي» اور «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأعْلَى» جیسی سورتیں پڑھا کرو۔ دیکھیے: [صحیح البخاري الأذان حدیث: 705 و صحیح مسلم الصلاة حدیث: 465]
➍ عصر اور مغرب کی نماز میں قرآن مجید کی آخری چھوٹی سورتیں ظہر اور عشاء میں آخری درمیانی سورتیں اور صبح کی نماز میں آخری بڑی سورتیں مسنون ہیں۔ ویسے مقتدیوں کے لحاظ سے کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 832   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 836  
´امام اور مقتدی کی نیت کے اختلاف کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر اپنی قوم میں واپس جا کر ان کی امامت کرتے، ایک رات انہوں نے نماز لمبی کر دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انہوں نے نماز پڑھی، پھر وہ اپنی قوم کے پاس آ کر ان کی امامت کرنے لگے، تو انہوں نے سورۃ البقرہ کی قرآت شروع کر دی، جب مقتدیوں میں سے ایک شخص نے قرآت سنی تو نماز توڑ کر پیچھے جا کر الگ سے نماز پڑھ لی، پھر وہ (مسجد سے) نکل گیا، تو لوگوں نے پوچھا، فلاں! تو منافق ہو گیا ہے؟ تو اس نے کہا: اللہ کی قسم میں نے منافقت نہیں کی ہے، اور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا، اور آپ کو اس سے باخبر کروں گا ؛ چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، پھر ہمارے پاس آتے ہیں، اور ہماری امامت کرتے ہیں، پچھلی رات انہوں نے نماز بڑی لمبی کر دی، انہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر واپس آ کر انہوں نے ہماری امامت کی، تو سورۃ البقرہ پڑھنا شروع کر دی، جب میں نے ان کی قرآت سنی تو پیچھے جا کر میں نے (تنہا) نماز پڑھ لی، ہم پانی ڈھونے والے لوگ ہیں، دن بھر اپنے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو تم (نماز میں) فلاں، فلاں سورت پڑھا کرو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 836]
836 ۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھتے اور وہی نماز جاکر اپنی قوم کو پڑھاتے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے اور اپنی قوم کو عشاء کی نماز پڑھاتے تھے البتہ جس دن یہ واقعہ ہوا اس دن انہوں نے بالاتفاق عشاء کی نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی تھی۔
➋ ظاہر ہے آپ کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز فرض ہوتی تھی اور جو اپنی قوم کو پڑھاتے تھے وہ ان (معاذ رضی اللہ عنہ) کے لیے نفل ہوتی تھی اور مقتدیوں کے لیے فرض۔ اور یہی امام نسائی رحمہ اللہ کا استدلال ہے کہ امام نفل کی نیت سے پڑھ رہا ہو اور مقتدی فرض کی نیت سے تو کوئی حرج نہیں۔ محدثین اسے جائز سمجھتے ہیں مگر احناف کے نزدیک نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض نہیں پڑھے جاسکتے۔ اس حدیث کو وہ منسوخ سمجھتے ہیں مگر نسخ ثابت نہیں لہٰذا حدیث میں مذکورہ صورت جائز ہے یعنی امام نماز پہلے پڑھ چکا ہو وہ نفل نماز کی نیت کے ساتھ ہو جب کہ مقتدیوں کی نیت فرض کی ہو تو یہ صورت بالکل صحیح ہے اور حدیث معاذ اس کی واضح دلیل ہے۔ واللہ آعلم۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھیے حدیث نمبر: 832۔
➌ امام اور مقتدی کے اختلاف نیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امام مثلاً: عصر کی نماز پڑھا رہا ہو تو کوئی شخص اس کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھ سکتا ہے جس کی نماز ظہر رہ گئی ہو اور نماز عصر وہ بعد میں اکیلا پڑھ لے۔ اور جن کے نزدیک ترتیب کے بغیر بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے ان کے نزدیک مذکورہ صورت میں یہ بھی جائز ہے کہ وہ امام کے ساتھ نماز عصر ہی ادا کرے اور سلام پھیرنے کے بعد وہ ظہر کی قضا پڑھ لے۔ دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔ واللہ آعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 836   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 985  
´مغرب میں «سبح اسم ربک الاعلی» پڑھنے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: انصار کا ایک شخص دو اونٹوں کے ساتھ جن پر سنچائی کے لیے پانی ڈھویا جاتا ہے معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا، اور وہ مغرب ۱؎ پڑھ رہے تھے، تو انہوں نے سورۃ البقرہ شروع کر دی، تو اس شخص نے (الگ جا کر) نماز پڑھی، پھر وہ چلا گیا تو یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ! کیا تم فتنہ پرداز ہو؟ معاذ کیا تم فتنہ پرداز ہو؟ «‏سبح اسم ربك الأعلى» اور «‏والشمس وضحاها» اور اس طرح کی سورتیں کیوں نہیں پڑھتے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 985]
985 ۔ اردو حاشیہ:
➊ صحیح بخاری (حدیث: 701) میں عشاء کی نماز کا ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یا تو اسے تعدد واقعات پر محمول کیا جائے گا، یعنی مغرب اور عشاء دونوں نمازوں میں یہ واقعہ ہوا، یا عشاء کی نماز کے لیے مغرب کا لفظ مجاراً بول دیا گیا (کیونکہ یہ دونوں رات کی نمازیں ہیں جیسے احادیث میں عشاء اولی اور عشاء آخرہ کے لفظ ملتے ہیں)۔ ورنہ جو صحیح بخاری میں ہے، وہی زیادہ صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔ دیکھیے: [فتح الباري: 251/2، تحت حدیث: 701]
➋ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مفترض (فرض پڑھنے والا) متنفل (نفل پڑھنے والا) کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے، یعنی امام متنفل ہو اور مقتدی مفترض کیونکہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ کر آتے تھے، پھر اپنی قوم کو آکر پڑھاتے تھے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی نماز نفل ہوتی تھی۔
➌ کسی عذر کی بنا پر مقتدی نماز سے نکل سکتا ہے۔
➍ مقتدیوں کا خیال رکھتے ہوئے نماز ہلکی پڑھانا مستحب ہے۔
➎ جب مسجد میں جماعت ہو رہی ہو تو کسی شرعی عذر کی وجہ سے کوئی آدمی اکیلا نماز پڑھ لے تو جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 985   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث836  
´عشاء میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی اور نماز لمبی کر دی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ سورتیں پڑھا کرو: «والشمس وضحاها»، «سبح اسم ربك الأعلى»، «والليل إذا يغشى» اور «اقرأ بسم ربك» ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 836]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشاء کی نماز نبی اکرمﷺ کی اقتداء میں ادا کرنے کے بعد اپنے محلے کی مسجد میں جا کر نماز کی امامت کیا کرتے تھے۔
ایسی صورت میں جب کہ ان کی نماز مسجد نبوی ﷺ کی نماز سے بھی لیٹ ادا ہوتی تھی۔
طویل قراءت لوگوں کےلئے مزید مشقت اور گرانی کا باعث ہوتی حتیٰ کہ بعض لوگوں نے آ کر نبی ﷺ سے ان کی شکایت بھی کی۔
جس پر آپﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ فرمائی۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، باب القراءۃ فی العشاء، حدیث: 465)

(2)
اس موقع پر شکایت کرنے والے صاحب کو ایک اور وجہ سے بھی مشقت ہوئی۔
وہ محنت مشقت سے روزی کمانے والے آدمی تھے۔
مزدوری سے فارغ ہوکر آئے۔
دو اونٹ ساتھ تھے۔
دیکھا مسجد میں جماعت کھڑی ہے۔
تو نماز میں شامل ہوگئے۔
کچھ دن بھر کی تھکاوٹ کچھ اونٹوں کا فکر کچھ جلدی گھر پہنچ کرکھانے پینے اور آرام کی خواہش۔
ادھر حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ بقرہ شروع کردی۔
اب معلوم نہیں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت سے لطف وانداز ہوتے ہوئے کہاں تک پڑھتے چلے جایئں۔
چنانچہ اس صحابی نے جماعت سے الگ ہوکر اپنی نماز پڑھی اور چلے گئے۔
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے نامناسب خیال کیا۔
اور تنقید کے طور پرکچھ ارشاد فرمایا۔
انھیں خبر ملی تو رسول اللہ ﷺ سے جا شکایت کی۔
تب آپﷺ نے یہ بات فرمائی۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، الأذان، باب من شکا إمامه اذا طوّل، حدیث: 705)

(3)
امام کو نماز میں کمزور اور ضرورت مند مقتدیوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔

(4)
اگرکسی سے شکایت ہوتو اس کے متعلق کسی اعلیٰ شخصیت کو بتانا غیبت میں شامل نہیں۔
کیونکہ اس سے غلطی کی تلافی اور اس کی اصلاح مقصود ہے۔

(5)
عشاء کی نماز میں قراءت مختصر ہونی چاہیے۔
اس میں مذکورہ بالاسورتیں یا اس مقدار میں تلاوت کرنا مسنون ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 836   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.