الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book on Jana\'iz (Funerals)
54. باب مَا يَقُولُ إِذَا أُدْخِلَ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ
54. باب: جب میت قبر میں رکھ دی جائے تو کون سی دعا پڑھی جائے؟
حدیث نمبر: 1046
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا ابو خالد الاحمر، حدثنا الحجاج، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا ادخل الميت القبر قال، وقال ابو خالد: مرة إذا وضع الميت في لحده قال مرة: " بسم الله وبالله وعلى ملة رسول الله "، وقال مرة: " بسم الله وبالله وعلى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، وقد روي هذا الحديث من غير هذا الوجه، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ورواه ابو الصديق الناجي، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقد روي عن ابي الصديق الناجي، عن ابن عمر موقوفا ايضا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أُدْخِلَ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ قال، وَقَالَ أَبُو خَالِدٍ: مَرَّةً إِذَا وُضِعَ الْمَيِّتُ فِي لَحْدِهِ قَالَ مَرَّةً: " بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ "، وَقَالَ مَرَّةً: " بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ أَبُو الصِّدِّيقِ النَّاجِيُّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا أَيْضًا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت قبر میں داخل کر دی جاتی (اور کبھی راوی حدیث ابوخالد کہتے) جب میت اپنی قبر میں رکھ دی جاتی تو آپ کبھی: «بسم الله وبالله وعلى ملة رسول الله»، پڑھتے اور کبھی «بسم الله وبالله وعلى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم» اللہ کے نام سے، اللہ کی مدد سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر میں اسے قبر میں رکھتا ہوں پڑھتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے،
۲- یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی ابن عمر سے مروی ہے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے اور اسے ابوالصدیق ناجی نے بھی ابن عمر سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے،
۳- نیز یہ صدیق الناجی کے واسطہ سے ابن عمر سے بھی موقوفاً مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز38 (1550) (تحفة الأشراف: 7644) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1550)

   جامع الترمذي1046عبد الله بن عمربسم الله وبالله وعلى ملة رسول الله
   سنن أبي داود3213عبد الله بن عمربسم الله وعلى سنة رسول الله
   سنن ابن ماجه1550عبد الله بن عمربسم الله وعلى ملة رسول الله
   سنن ابن ماجه1553عبد الله بن عمربسم الله وفي سبيل الله وعلى ملة رسول الله لما أخذ في تسوية اللبن على اللحد قال اللهم أجرها من الشيطان ومن عذاب القبر اللهم جاف الأرض عن جنبيها وصعد روحها ولقها منك رضوانا
   بلوغ المرام466عبد الله بن عمر‏‏‏‏إذا وضعتم موتاكم في القبور فقولوا: بسم الله وعلى مله رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 1553  
´میت کو قبر میں داخل کرنے کا بیان`
«. . . حَضَرْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي جِنَازَةٍ، فَلَمَّا وَضَعَهَا فِي اللَّحْدِ، قَالَ:" بِسْمِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ . . .»
. . . میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک جنازے میں حاضر ہوا۔ جب انہوں نے میت کو لحد میں رکھا گیا تو فرمایا: اللہ کے نام سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر۔. . . [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز: 1553]

تخریج الحدیث
[سنن ابن ماجه: 1553]، [المعجم الكبير للطبراني 4 1309]، [السنن الكبري للبيهقي: 55/4]
تبصرہ:
یہ سخت ترین ضعیف روایت ہے، کیونکہ:
① اس کا راوی حماد بن عبدالرحمن کلبی ضعیف ہے۔ [تقريب التهذيب: 1502]
◈ حافظ بوصیری (م: 840 ھ) کہتے ہیں:
«هذا إسناد فيه حماد بن عبد الرحمن، هو متفق على تضعيفه .»
اس سند میں حماد بن عبدالرحمن راوی موجود ہے جس کو ضعیف قرار دینے پر تمام محدثین متفق ہیں۔ [مصباح الزجاجة فى زوائد ابن ماجه: 505/1]

② ادریس بن صبیح اودی راوی مجہول ہے۔
◈ امام ابوحاتم الرازی نے اسے مجہول قرار دیا ہے۔ [الجرح و التعديل لابن أبى حاتم: 264/2]

◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
«يغرب ويخطيء على قلته.»
بہت کم روایات بیان کرنے کے باوجود اس کی روایات میں نکارت اور غلطیاں موجود ہیں۔ [الثقات: 78/6]

◈ امام ابن عدی نے اسے ادریس بن یزید اودی قرار دیا ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقول ابن عدي أصوب.» امام ابن عدی رحمہ اللہ کا قول ہی زیادہ صائب ہے۔ [تهذيب التهذيب: 171/1، وفي نسخة: 195/1]
↰ یہ بات بے دلیل ہونے کی وجہ سے درست نہیں۔
اس ضعیف روایت کا مروجہ بدعتی تلقین سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ معلوم ہوا شواہد کی رٹ لگانے والوں کا دامن بالکل خالی ہے۔

فائدہ نمبر ① حلبی، علامہ سبکی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«حديث تلقين النبى صلى الله عليه وسلم لابنه، ليس له أصل، أى صحيح أو حسن.»
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بیٹے کو تلقین کرنے والی روایت کی کوئی صحیح یا حسن سند موجود نہیں۔ [السيرة الحلبية: 437/3]

فائده نمبر ② حافظ ابن القیم رحمہ اللہ (691-751 ھ) لکھتے ہیں:
«فهذا الحديث، وإن لم يثبت، فاتصال العمل به فى سائر الأمصار والأعصار من غير إنكاره كاف فى العمل به.»
یہ حدیث اگرچہ صحیح ثابت نہیں، لیکن تمام علاقوں میں ہر زمانے میں اس پر بغیر انکار کے عمل ہوتا رہا ہے۔ یہی بات اس پر عمل کے جائز ہونے کے لئے کافی ہے۔ [الروح، ص: 16]

◈ کتاب الروح کے متعلق محدث العصر، علامہ، ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فاني فى شك كبير من صحة نسبة (الروح) إليه، أو لعله ألفه فى أول طلبه للعلم، والله أعلم.»
میں کتاب الروح کی علامہ ابن القیم کی طرف نسبت کے حوالے سے کافی شک و شبہ میں مبتلا ہوں۔ (یا تو یہ ان کی تصنیف ہی نہیں) یا پھر انہوں نے اپنے طلب علم کے اوائل میں اسے تالیف کیا تھا۔ «والله اعلم!» [تحقيق الأيات البينات فى عدم سماع الأموت: 39]
↰ ہو سکتا ہے کہ یہ عبارت الحاقی ہو، یعنی کسی ناسخ کی غلطی سے درج ہو گئی ہو، کیونکہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ خود سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«ولم يكن يجلس يقرا عند القبر، ولا يلقن الميت، كما يفعله الناس اليوم.»
آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس قرأت کرنے نہیں بیٹھے تھے، نہ ہی (قبر پر) میت کو تلقین کرتے تھے، جیسا کہ موجودہ زمانے میں لوگ کرتے ہیں۔ [زاد المعاد فى هدي خير العباد: 522/1]

↰ اگر کسی ضعیف روایت کے حکم پر بعض لوگ عمل کریں تو وہ صحیح نہیں ہو جاتی ہے۔ لوگوں کے عمل سے سند کا صحیح ہونا محدثین کرام کا مذہب نہیں۔ اگر کسی روایت کے حکم پر یعنی اس سے ماخوذ مسئلہ پر اجماع امت ثابت ہو جائے، تب بھی وہ سند ضعیف ہی رہے گی۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث\صفحہ نمبر: 56   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1550  
´میت کو قبر میں داخل کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب مردے کو قبر میں داخل کیا جاتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم «بسم الله وعلى ملة رسول الله» اور ابوخالد نے اپنی روایت میں ایک بار یوں کہا: جب میت کو اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا تو آپ «بسم الله وعلى سنة رسول الله» کہتے، اور ہشام نے اپنی روایت میں «بسم الله وفي سبيل الله وعلى ملة رسول الله» کہا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1550]
اردو حاشہ:
فائده:
جب میت کو قبر میں اُتارا جائے۔
تو اتارنے والوں کو چاہیے کہ مذکورہ بالا دعا پڑھیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1550   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 466  
´میت کو قبر میں داخل کرتے ہوئے یہ دعا`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب اپنے مرنے والوں کو قبروں میں اتارو تو «بسم الله وعلى مله رسول الله» کہو۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 466]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت کو قبر میں داخل کرتے ہوئے یہ دعا پڑھنا مسنون ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ کی طرح امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو گو موقوف ہی قرار دیا ہے مگر یہ صحیح نہیں۔ اس کی تائید مستدرک کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کی سند حسن ہے۔ [المستدرك للحاكم: 3661]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 466   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.