(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم , اخبرنا عيسى بن يونس , عن سعيد بن ابي عروبة , عن قتادة , عن النضر بن انس , عن بشير بن نهيك , عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اعتق نصيبا , او قال شقصا في مملوك , فخلاصه في ماله إن كان له مال , فإن لم يكن له مال , قوم قيمة عدل , ثم يستسعى في نصيب الذي لم يعتق غير مشقوق عليه ". قال: وفي الباب , عن عبد الله بن عمرو , حدثنا محمد بن بشار , حدثنا يحيى بن سعيد , عن سعيد بن ابي عروبة نحوه , وقال: شقيصا , قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح , وهكذا روى ابان بن يزيد , عن قتادة مثل رواية سعيد بن ابي عروبة , وروى شعبة هذا الحديث , عن قتادة , ولم يذكر فيه امر السعاية , واختلف اهل العلم في السعاية , فراى بعض اهل العلم السعاية في هذا , وهو قول: سفيان الثوري , واهل الكوفة , وبه يقول إسحاق , وقد قال بعض اهل العلم: إذا كان العبد بين الرجلين فاعتق احدهما نصيبه , فإن كان له مال غرم نصيب صاحبه , وعتق العبد من ماله , وإن لم يكن له مال , عتق من العبد ما عتق , ولا يستسعى , وقالوا بما روي عن ابن عمر , عن النبي صلى الله عليه وسلم , وهذا قول اهل المدينة , وبه يقول مالك بن انس , والشافعي , واحمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ , أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ , عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا , أَوْ قَالَ شِقْصًا فِي مَمْلُوكٍ , فَخَلَاصُهُ فِي مَالِهِ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ , فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ , قُوِّمَ قِيمَةَ عَدْلٍ , ثُمَّ يُسْتَسْعَى فِي نَصِيبِ الَّذِي لَمْ يُعْتَقْ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ نَحْوَهُ , وَقَالَ: شَقِيصًا , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَهَكَذَا رَوَى أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ قَتَادَةَ مِثْلَ رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ , وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ , عَنْ قَتَادَةَ , وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ أَمْرَ السِّعَايَةِ , وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي السِّعَايَةِ , فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ السِّعَايَةَ فِي هَذَا , وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَأَهْلِ الْكُوفَةِ , وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاق , وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا كَانَ الْعَبْدُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَأَعْتَقَ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ , فَإِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ غَرِمَ نَصِيبَ صَاحِبِهِ , وَعَتَقَ الْعَبْدُ مِنْ مَالِهِ , وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ , عَتَقَ مِنَ الْعَبْدِ مَا عَتَقَ , وَلَا يُسْتَسْعَى , وَقَالُوا بِمَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهَذَا قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ , وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا تو باقی حصے کی آزادی بھی اسی کے مال سے ہو گی اگر اس کے پاس مال ہے، اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگائی جائے گی، پھر غلام کو پریشانی میں ڈالے بغیر اسے موقع دیا جائے گا کہ وہ کمائی کر کے اس شخص کا حصہ ادا کر دے جس نے اپنا حصہ آزاد نہیں کیا ہے“۔ محمد بن بشار سے بھی ایسے ہی روایت ہے اور اس میں «شقصاً» کے بجائے «شقیصا» ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور اسی طرح ابان بن یزید نے قتادہ سے سعید بن ابی عروبہ کی حدیث کے مثل روایت کی ہے، ۳- اور شعبہ نے بھی اس حدیث کو قتادہ سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے اس سے آزادی کے لیے کمائی کرانے کا ذکر نہیں کیا ہے، ۴- سعایہ (کمائی کرانے) کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم نے اس بارے میں سعایہ کو جائز کہا ہے۔ اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے، اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں، ۵- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۶- اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ جب غلام دو آدمیوں میں مشترک ہو اور ان میں سے ایک اپنا حصہ آزاد کر دے تو اگر اس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے ساجھی دار کے حصے کا تاوان ادا کرے گا اور غلام اسی کے مال سے آزاد ہو جائے گا، اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو غلام کو جتنا آزاد کیا گیا ہے اتنا آزاد ہو گا، اور باقی حصہ کی آزادی کے لیے اس سے کمائی نہیں کرائی جائے گی۔ اور ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کی رو سے یہ بات کہی ہے، اور یہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے۔ اور مالک بن انس، شافعی اور احمد بھی اسی کے قائل ہیں۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2527
´ساجھے کا غلام ہو اور ساجھی دار اپنا حصہ آزاد کر دے تو ایسے غلام کا حکم۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی کسی (مشترک) غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دے، تو اس کی ذمہ داری ہے کہ اگر اس کے پاس مال ہو تو اپنے مال سے اس کو مکمل آزاد کرائے، اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غلام سے باقی ماندہ قیمت کی ادائیگی کے لیے مزدوری کرائے، لیکن اس پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2527]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ایک غلام ایک سے زیادہ افرد کا مملوک ہوسکتا ہے مثلاً: ایک شخص کے پاس ایک غلام تھا وہ فوت ہوا تو اس کے دو بیٹے اس وارث ہوگئے یہ ونوں اس کی ملکیت میں برابر شریک ہیں۔ یا چند افراد نے رقم ملا کرخرید لیا تو یہ ان کی مشترکہ ملکیت ہو گا۔
(2) مشترکہ غلام کا ایک مالک اپنا حصہ آزاد کردے تو باقی حصہ خود بخود آزاد نہیں ہوگا۔
(3) اس صورت میں آزاد کرنے والے کو چاہیے کہ غلام کی جائز قیمت میں سے اس کے شریکو ں کا جو حصہ ہے انھیں ادا کرکے غلام کا باقی حصہ بھی خرید کر آزادکردے تاکہ غلام کی آزادی مکمل کی ہوجائے۔
(4) دوسری صورت یہ ہے کہ اس آدھے غلام کو موقع دیا جائے کہ وہ کما کراپنی آدھی قیمت اپنے مالک کو ادا کردے جس نے اپنے حصے کا غلام آزاد نہیں کیا۔
(5) اس غلام پر جلد آدائیگی کے لیے ناجائز سختی کرنا منع ہے بلکہ جس طرح مقروض کو مہلت دی جاتی ہے اسے بھی مناسب مہلت دی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2527
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3938
´جس شخص کے نزدیک آزاد کرنے والا مفلس ہو تو غلام سے محنت کرائی جائے اس کی دلیل کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو اگر وہ مالدار ہے تو اس پر اس کی مکمل خلاصی لازم ہو گی اور اگر وہ مالدار نہیں ہے تو غلام کی واجبی قیمت لگائی جائے گی“ پھر اس قیمت میں دوسرے شریک کے حصہ کے بقدر اس سے اس طرح محنت کرائی جائے گی کہ وہ مشقت میں نہ پڑے (یہ علی کے الفاظ ہیں)۔ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3938]
فوائد ومسائل: اس حدیث میں ترغیب ہے کہ اپنا حصہ آزاد کر نے والا باقی بھی آزاد کر کے مکمل فضیلت حاصل کرے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3938