الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Military Expeditions
3. باب مَا جَاءَ فِي الْبَيَاتِ وَالْغَارَاتِ
3. باب: رات میں دشمن پر چھاپہ مارنے اور حملہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1550
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثني مالك بن انس، عن حميد، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرج إلى خيبر، اتاها ليلا، وكان إذا جاء قوما بليل، لم يغر عليهم حتى يصبح، فلما اصبح، خرجت يهود بمساحيهم ومكاتلهم، فلما راوه، قالوا: محمد وافق والله محمد الخميس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الله اكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم، فساء صباح المنذرين ".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجَ إِلَى خَيْبَرَ، أَتَاهَا لَيْلًا، وَكَانَ إِذَا جَاءَ قَوْمًا بِلَيْلٍ، لَمْ يُغِرْ عَلَيْهِمْ حَتَّى يُصْبِحَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، خَرَجَتْ يَهُودُ بِمَسَاحِيهِمْ وَمَكَاتِلِهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْهُ، قَالُوا: مُحَمَّدٌ وَافَقَ وَاللَّهِ مُحَمَّدٌ الْخَمِيسَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ، فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ ".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر روانہ ہوئے تو وہاں رات کو پہنچے، اور آپ جب بھی کسی قوم کے پاس رات کو پہنچتے تو جب تک صبح نہ ہو جاتی اس پر حملہ نہیں کرتے ۱؎، پھر جب صبح ہو گئی تو یہود اپنے پھاوڑے اور ٹوکریوں کے ساتھ نکلے، جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہا: محمد ہیں، اللہ کی قسم، محمد لشکر کے ہمراہ آ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر! خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں اس وقت ڈرائے گئے لوگوں کی صبح، بڑی بری ہوتی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 101 (2945)، والمغازي 38 (4197)، (وانظر أیضا: الصلاة 12 (371)، صحیح مسلم/النکاح 14 (1365/84)، والجہاد 43 (120/1365)، سنن النسائی/المواقیت 26 (548)، (تحفة الأشراف: 734)، و مسند احمد (3/102، 186، 206، 263) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: آپ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ اذان سے یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ مسلمانوں کی بستی ہے یا نہیں، چنانچہ اگر اذان سنائی دیتی تو حملہ سے رک جاتے بصورت دیگر حملہ کرتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري371أنس بن مالكغزا خيبر فصلينا عندها صلاة الغداة بغلس فركب نبي الله وركب أبو طلحة وأنا رديف أبي طلحة فأجرى نبي الله في زقاق خيبر وإن ركبتي لتمس فخذ نبي الله ثم حسر الإزار عن فخذه حتى إني أنظر إلى بياض فخذ نبي الله
   صحيح البخاري4197أنس بن مالكخربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح البخاري3647أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح البخاري2945أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح البخاري2944أنس بن مالكإذا غزا قوما لم يغر حتى يصبح فإن سمع أذانا أمسك وإن لم يسمع أذانا أغار بعد ما يصبح فنزلنا خيبر ليلا
   صحيح البخاري947أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين خرجوا يسعون في السكك ويقولون محمد والخميس قال والخميس الجيش قتل المقاتلة وسبى الذراري صارت صفية لدحية الكلبي وصارت لرسول الله
   صحيح البخاري610أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح البخاري2991أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين أصبنا حمرا فطبخناها فنادى منادي النبي إن الله ورسوله ينهيانكم عن لحوم الحمر أكفئت القدور بما فيها
   صحيح البخاري4200أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين خرجوا يسعون في السكك قتل النبي المقاتلة وسبى الذرية كان في السبي صفية صارت إلى دحية الكلبي ثم صارت إلى النبي فجعل عتقها صداقها
   صحيح مسلم4667أنس بن مالكإنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح مسلم4666أنس بن مالكخربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين هزمهم الله
   صحيح مسلم4665أنس بن مالكغزا خيبر قال فصلينا عندها صلاة الغداة بغلس فركب نبي الله وركب أبو طلحة وأنا رديف أبي طلحة فأجرى نبي الله في زقاق خيبر وإن ركبتي لتمس فخذ نبي الله وانحسر الإزار عن فخذ نبي الله وإ
   صحيح مسلم3500أنس بن مالكخربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين هزمهم الله وقعت في سهم دحية جارية جميلة اشتراها رسول الله بسبعة أرؤس ثم دفعها إلى أم سليم تصنعها له وتهيئها تعتد في بيتها وهي صفية بنت حيي قال وجعل
   جامع الترمذي1550أنس بن مالكإذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   سنن أبي داود3009أنس بن مالكغزا خيبر فأصبناها عنوة فجمع السبي
   سنن النسائى الصغرى548أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر مرتين إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   سنن النسائى الصغرى3382أنس بن مالكغزا خيبر فصلينا عندها الغداة بغلس فركب النبي وركب أبو طلحة وأنا رديف أبي طلحة فأخذ نبي الله في زقاق خيبر وإن ركبتي لتمس فخذ رسول الله وإني لأرى بياض فخذ نبي الله فلما دخل القرية ق
   بلوغ المرام23أنس بن مالك ان الله ورسوله ينهيانكم عن لحوم الحمر الاهلية،‏‏‏‏ فإنها رجس
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم563أنس بن مالكالله اكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   المعجم الصغير للطبراني581أنس بن مالك الله أكبر ، خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 23  
´گدھے کا گوشت بالاتفاق حرام ہے`
«. . . فنادى: ان الله ورسوله ينهيانكم عن لحوم الحمر الاهلية،‏‏‏‏ فإنها رجس . . .»
. . . باآواز بلند اعلان کیا کہ اللہ اور اس کا رسول دونوں تمہیں گھریلو گدھوں کے گوشت کو کھانے سے منع فرماتے ہیں، کیونکہ وہ «رجس» (ناپاک) ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 23]

لغوی تشریح:
«يَوْمُ خَيْبَرَ» غزوۂ خیبر کا دن مراد ہے۔ خیبر مدینہ کی شمالی جانب 96 میل کے فاصلے پر ایک شہر ہے۔ یہاں یہود رہتے تھے۔ یہ غزوہ یہود کے ساتھ محرم 7 ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد واقع ہوا۔ فتح خیبر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسی جگہ اس شرط پر رہنے کا حق دیا کہ وہ اپنے کھیتوں کے اناج اور باغات کے پھلوں کا آدھا حصہ مسلمانوں کو دیں گے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو تیماء اور اریحا کی طرف جلا وطن کر دیا۔
«يَنْهَيَانِكُمْ» میں تثنیہ کی ضمیر اللہ اور اس کے رسول کی طرف راجع ہے، یعنی تمہیں اللہ اور اس کا رسول منع فرماتے ہیں۔
«الْحُمُرِ» حا اور میم کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ اس کا واحد حمار ہے یعنی گدھا۔
«الْأَهْلِيَّةِ» گھریلو، پالتو (جنگلی نہیں) اہل کی طرف نسبت ہے، یعنی وہ جانور جسے انسان اپنے گھر میں اہل و عیال کی طرح پرورش کرتا اور پالتا ہے۔
«رِجْسٌ» را کے کسرہ اور جیم کے سکون کے ساتھ ہے۔ ہر وہ چیز جسے انسان گندگی تصور کرتا ہے، خواہ وہ نجس ہو یا نہ ہو، لہٰذا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ گدھے کا جوٹھا نجس اور ناپاک ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ گدھے کا گوشت بالاتفاق حرام ہے۔ صرف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اسے جائز سمجھتے تھے۔
➋ گدھے کا جوٹھا پاک ہے یا نہیں، اس بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام مالک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ پاک کہتے ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ کا ایک قول ہے کہ یہ نجس ہے۔ امام حسن بصری، ابن سیرین، اوزاعی اور اسحاق رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر کوئی پانی نہ ملے تو گدھے کے جوٹھے پانی سے وضو کیا جائے اور تیمم بھی کر لیا جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی یہی رائے ہے۔ مگر امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کی بات زیادہ قرین صواب ہے۔ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ «والله اعلم»

راویٔ حدیث: SR سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ER ابوطلحہ کنیت اور نام زید بن سہل بن اسود بن حرام انصاری ہے۔ کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ بیعت عقبہ اور تمام غزوات میں شریک رہے۔ غزوہ احد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے ان کا ہاتھ شل ہو گیا۔ معرکہ حنین میں بیس دشمنان اسلام کو قتل کیا۔ 34 یا بقول بعض 51 ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 23   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 563  
´اہم موقع پر اللہ اکبر کہنا مسنون ہے`
«. . . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الله اكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر، خراب ہوا خیبر، جب ہم کسی قوم کے پاس پہنچتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جنہیں (جہنم اور عذاب سے) ڈرایا گیا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 563]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2945، من حديث مالك به وصرح حميد الطّويل بالسماع عند البخاري 2943]

تفقه:
➊ جن کافروں تک دین اسلام کی دعوت پہلے پہنچ چکی ہو تو انھیں جنگ کے وقت دوبارہ دعوت دینا ضروری نہیں ہے۔
➋ کفار کے خلاف جہادی مہم میں رات کو تیاری کر کے صبح کے وقت حملہ کرنا بہتر ہے۔
➌ اپنی بات کی تائید کے لئے شرعی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے عند الضرورت قرآنی آیات سے استشہاد و استدلال جائز ہے۔
➍ اہم موقع پر اللہ اکبر کہنا مسنون ہے لیکن یاد رہے کہ ہمارے زمانے میں مروجہ نعرہ تکبیر کا کوئی ثبوت ہمارے علم میں نہیں ہے بلکہ سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ مرفوع حدیث سے اس کی ممانعت ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 2992، وصحيح مسلم 2704]
➎ وہ کافر جو دن رات مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوشاں ہیں، ان کے خلاف حملہ کی ابتداء کر کے اقدامی جہاد کیا جا سکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 149   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 548  
´سفر میں غلس میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھی، (آپ خیبر والوں کے قریب ہی تھے) پھر آپ نے ان پر حملہ کیا، اور دو بار کہا: «اللہ أكبر» اللہ سب سے بڑا ہے خیبر ویران و برباد ہوا، جب ہم کسی قوم کے علاقہ میں اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 548]
548 ۔ اردو حاشیہ:
➊۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حملہ صبح کے بعد کیا کیونکہ آپ صبح کی اذان کا انتظار فرماتے تھے۔ اگر اذان سنتے تو حملہ نہ کرتے تاکہ وہاں مسلمان حملے میں نہ مارے جائیں اور اگر اذان نہ سنتے تو حملہ کر دیتے کہ سب کافر ہیں۔
خیبر ویران ہوا۔ یہ پیش گوئی ہو سکتی ہے جو واقعتاً پوری ہوئی۔ دعا بھی ہو سکتی ہے، پھر معنی ہوں گے خیبر ویران ہو جائے۔ یہ جملہ بطور فال بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر پہنچے تو وہ آگے سے ٹوکرے اور کدالیں لے کر آرہے تھے۔
➌جن کفار کو پہلے اسلام کی دعوت دی جاچکی ہو، ان پرچڑھائی کرنا جائز ہے۔
➍دشمن کا سامنا کرتے وقت اللہ اکبر کہنا مسنون عمل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 548   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1550  
´رات میں دشمن پر چھاپہ مارنے اور حملہ کرنے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر روانہ ہوئے تو وہاں رات کو پہنچے، اور آپ جب بھی کسی قوم کے پاس رات کو پہنچتے تو جب تک صبح نہ ہو جاتی اس پر حملہ نہیں کرتے ۱؎، پھر جب صبح ہو گئی تو یہود اپنے پھاوڑے اور ٹوکریوں کے ساتھ نکلے، جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہا: محمد ہیں، اللہ کی قسم، محمد لشکر کے ہمراہ آ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر! خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں اس وقت ڈرائے گئے لوگوں کی صبح، بڑی بری ہوتی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1550]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ اذان سے یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ مسلمانوں کی بستی ہے یا نہیں،
چنانچہ اگراذان سنائی دیتی تو حملہ سے رک جاتے بصورت دیگر حملہ کرتے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1550   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3009  
´خیبر کی زمینوں کے حکم کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے جہاد کیا، ہم نے اسے لڑ کر حاصل کیا، پھر قیدی اکٹھا کئے گئے (تاکہ انہیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3009]
فوائد ومسائل:
امام ابو دائود یہ حدیث بیا ن کرکے واضح کرنا چاہتے ہیں۔
کہ خیبر کا کچھ حصہ قتال سے اور کچھ حصہ صلح سے حاصل ہوا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3009   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.