الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
Chapters On Al-Fitan
63. باب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ ابْنِ صَائِدٍ
63. باب: ابن صائد (ابن صیاد) کا بیان۔
حدیث نمبر: 2249
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بابن صياد في نفر من اصحابه فيهم عمر بن الخطاب، وهو يلعب مع الغلمان عند اطم بني مغالة وهو غلام، فلم يشعر حتى ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم ظهره بيده، ثم قال: " اتشهد اني رسول الله؟ " فنظر إليه ابن صياد، قال: اشهد انك رسول الاميين، ثم قال ابن صياد للنبي صلى الله عليه وسلم: اتشهد انت اني رسول الله؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " آمنت بالله وبرسله "، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم: " ما ياتيك؟ " قال ابن صياد: ياتيني صادق وكاذب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " خلط عليك الامر "، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني خبات لك خبيئا وخبا له يوم تاتي السماء بدخان مبين سورة الدخان آية 10 "، فقال ابن صياد: هو الدخ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اخسا فلن تعدو قدرك "، قال عمر: يا رسول الله، ائذن لي فاضرب عنقه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن يك حقا فلن تسلط عليه، وإن لا يكنه فلا خير لك في قتله "، قال عبد الرزاق: يعني الدجال، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلَامٌ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ " فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ، ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ "، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا يَأْتِيكَ؟ " قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا وَخَبَأَ لَهُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10 "، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ "، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ يَكُ حَقًّا فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَا يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ "، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: يَعْنِي الدَّجَّالَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہا تھا، وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا، پھر فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ہوں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: تمہارے پاس (غیب کی) کون سی چیز آتی ہے؟ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس ایک سچا اور ایک جھوٹا آتا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اوپر تیرا معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے لیے (دل میں) ایک بات چھپاتا ہوں اور آپ نے آیت: «يوم تأتي السماء بدخان مبين» ۱؎ چھپا لی، ابن صیاد نے کہا: وہ (چھپی ہوئی چیز) «دخ» ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھٹکار ہو تجھ پر تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا، عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے میں اس کی گردن اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ حقیقی دجال ہے تو تم اس پر غالب نہیں آ سکتے اور اگر وہ نہیں ہے تو اسے قتل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: «حقا» سے آپ کی مراد دجال ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 79 (1354)، والجھاد 178 (3055)، والأدب 97 (6618)، صحیح مسلم/الفتن 19 (2930)، سنن ابی داود/ الملاحم 16 (4329) (تحفة الأشراف: 6932)، و مسند احمد (2/148) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔
۲؎: بعض صحابہ کرام یہ سمجھتے تھے کہ یہی وہ مسیح دجال ہے جس کے متعلق قرب قیامت میں ظہور کی خبر دی گئی ہے، لیکن فاطمہ بنت قیس کی روایت سے جس میں تمیم داری نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ قطعیت اس بات میں ہے کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیں بلکہ کوئی اور ہے، ابن صیاد تو ان دجاجلہ، کذابین میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، اور ان میں سے اکثر کا ظہور ہو چکا ہے، رہے وہ صحابہ جنہوں نے وثوق کے ساتھ قسم کھا کر ابن صیاد کو دجال کہا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی اسے دجال کہا گیا اور آپ خاموش رہے تو یہ سب تمیم داری والے واقعہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔

قال الشيخ الألباني: **

   صحيح البخاري6618عبد الله بن عمرخبأت لك خبيئا قال الدخ قال اخسأ فلن تعدو قدرك قال عمر ائذن لي فأضرب عنقه قال دعه إن يكن هو فلا تطيقه وإن لم يكن هو فلا خير لك في قتله
   صحيح البخاري3055عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين فقال ابن صياد للنبي أتشهد أني رسول الله قال له النبي آمنت بالله ورسله قال النبي ماذا ترى قال ابن صياد يأتيني صادق وكاذب قال النبي صل
   صحيح البخاري3056عبد الله بن عمرانطلق النبي وأبي بن كعب يأتيان النخل الذي فيه ابن صياد حتى إذا دخل النخل طفق النبي يتقي بجذوع النخل وهو يختل ابن صياد أن يسمع من ابن صياد شيئا قبل أن يراه وابن صياد مضطجع على فراشه في قطيفة له فيها رمزة فرأت أم ابن صياد
   صحيح البخاري6173عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله فنظر إليه فقال أشهد أنك رسول الأميين ثم قال ابن صياد أتشهد أني رسول الله فرضه النبي ثم قال آمنت بالله ورسله ثم قال لابن صياد ماذا ترى قال يأتيني صادق وكاذب قال رسول الله خلط عليك الأمر قال رسول الل
   صحيح البخاري2638عبد الله بن عمرانطلق رسول الله وأبي بن كعب الأنصاري يؤمان النخل التي فيها ابن صياد حتى إذا دخل رسول الله طفق رسول الله يتقي بجذوع النخل وهو يختل أن يسمع من ابن صياد شيئا قبل أن يراه وابن صياد مضطجع على فراشه في قط
   صحيح البخاري1354عبد الله بن عمرتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين فقال ابن صياد للنبي أتشهد أني رسول الله فرفضه وقال آمنت بالله وبرسله فقال له ماذا ترى قال ابن صياد يأتيني صادق وكاذب فقال النبي خلط عليك الأمر ثم قال له
   صحيح مسلم7354عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين فقال ابن صياد لرسول الله أتشهد أني رسول الله فرفضه رسول الله وقال آمنت بالله وبرسله ثم قال له رسول الله ماذا ترى قال ابن صياد يأتيني
   جامع الترمذي2249عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد قال أشهد أنك رسول الأميين ثم قال ابن صياد للنبي أتشهد أنت أني رسول الله فقال النبي آمنت بالله وبرسله ثم قال النبي ما يأتيك قال ابن صياد يأتيني صادق وكاذب فقال
   سنن أبي داود4329عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله قال فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين ثم قال ابن صياد للنبي أتشهد أني رسول الله فقال له النبي آمنت بالله ورسله ثم قال له النبي ما يأتيك قال يأتيني صادق وكاذب فقال له
   بلوغ المرام1126عبد الله بن عمر الإسلام يعلو ولا يعلى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1126  
´جزیہ اور صلح کا بیان`
سیدنا عائذ بن عمرو المذنی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا۔ (سنن دارقطنی) «بلوغ المرام/حدیث: 1126»
تخریج:
«أخرجه الدار قطني: 3 /252 وسنده ضعيف، وللحديث شواهد عند الطحاوي في معاني الآثار:2 /150 وغيره، وعلقه البخاري، الجنائز، قبل حديث:1354.»
تشریح:
1. اس حدیث میں خبر و اطلاع بھی ہے اور پیش گوئی بھی کہ اسلام ہمیشہ غالب بن کر رہنے کے لیے آیا ہے‘ مغلوب بن کر رہنے کے لیے نہیں‘ لہٰذا اہل اسلام کو چاہیے کہ نظریاتی اور عملی طور پر اسے غالب رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔
اسلام کی صحیح تبلیغ و اشاعت کریں۔
اور اس کے مطابق پہلے خود اپنی عملی زندگی ڈھالیں تاکہ ان کے عمل و کردار اور اخلاق و اطوار سے متاثر ہو کر غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہوں۔
2.اس حدیث کو ہدنہ (صلح) کی تمہید اور ابتدا کے طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ باہمی مصالحت میں اگر بفرض محال کوئی شرط بظاہر اسلام کے ماننے والے کے مفاد کے خلاف بھی معلوم ہو تو پریشان ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
3. اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔
وہ اسے ہمیشہ سربلند و بالاتر اور اعلیٰ و غالب رکھے گا۔
اس کے ماننے والے اگر اس کے مطابق عمل کریں گے تو سرخرو ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اسلام اور اہل اسلام کی نصرت و مدد فرمائے گا۔
4. اسلام کا دلائل و براہین کے اعتبار سے سب پر غالب رہنا تو ایک مسلمہ حقیقت ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عائذ بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابو ہبیرہ ان کی کنیت تھی۔
بصرہ میں فروکش ہوگئے تھے۔
نیک ترین صحابہ میں سے تھے۔
بیعت رضوان میں حاضر تھے۔
یزید بن معاویہ کے عہد میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1126   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2249  
´ابن صائد (ابن صیاد) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہا تھا، وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا، پھر فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2249]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔

2؎:
بعض صحابہ کرام یہ سمجھتے تھے کہ یہی وہ مسیح دجال ہے جس کے متعلق قرب قیامت میں ظہور کی خبردی گئی ہے،
لیکن فاطمہ بنت قیس کی روایت سے جس میں تمیم داری نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ہے،
معلوم ہوتا ہے کہ قطعیت اس بات میں ہے کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیں بلکہ کوئی اور ہے،
ابن صیاد تو ان دجاجلہ،
کذابین میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ ﷺ نے خبردی تھی،
اور ان میں سے اکثر کا ظہور ہوچکا ہے،
رہے وہ صحابہ جنہوں نے وثوق کے ساتھ قسم کھا کر ابن صیاد کو دجال کہا حتی کہ آپ ﷺ کے سامنے بھی اسے دجال کہا گیا اور آپﷺ خاموش رہے تو یہ سب تمیم داری والے واقعہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2249   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4329  
´ابن صیاد کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، وہ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، وہ ایک کمسن لڑکا تھا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا جب تک آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پشت پر مار نہ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو ابن صیاد نے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، اور بولا: ہاں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4329]
فوائد ومسائل:
علامہ ابنِ اثیر النہایہ میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک یہودی تھا جو ان کے ساتھ ملا جلا رہتا تھا۔
اس کا نام صَا فُ کہا گیا ہے۔
اس کے پاس کہانت اور جادو کا علم تھا اور وہ اپنے وقت میں اللہ کے نیک بندوں کے لیئے ایک امتحان تھا تا کہ جو ہلاک ہو دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے دلیل ک ساتھ زندہ رہے۔
اکثر کہتے ہیں کہ یہ مدینہ میں مرا اور یہ بھی کہا گیا کہ واقعہ حرا کے مو قعے پر اسے گم پایا گیا اور پھر ملا نہیں۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4329   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.