الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: شہادت (گواہی) کے احکام و مسائل
Chapters On Witnesses
2. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ لاَ تَجُوزُ شَهَادَتُهُ
2. باب: ان لوگوں کا بیان جن کی گواہی درست نہیں۔
حدیث نمبر: 2298
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا مروان بن معاوية الفزاري، عن يزيد بن زياد الدمشقي، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تجوز شهادة خائن، ولا خائنة، ولا مجلود حدا، ولا مجلودة، ولا ذي غمر لاخيه، ولا مجرب شهادة، ولا القانع اهل البيت لهم، ولا ظنين في ولاء، ولا قرابة "، قال الفزاري: القانع التابع، هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث يزيد بن زياد الدمشقي، ويزيد يضعف في الحديث، ولا يعرف هذا الحديث من حديث الزهري إلا من حديثه، وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، قال: ولا نعرف معنى هذا الحديث، ولا يصح عندي من قبل إسناده، والعمل عند اهل العلم في هذا ان شهادة القريب جائزة لقرابته، واختلف اهل العلم في شهادة الوالد للولد، والولد لوالده، ولم يجز اكثر اهل العلم شهادة الوالد للولد، ولا الولد للوالد، وقال بعض اهل العلم: إذا كان عدلا، فشهادة الوالد للولد جائزة، وكذلك شهادة الولد للوالد، ولم يختلفوا في شهادة الاخ لاخيه انها جائزة، وكذلك شهادة كل قريب لقريبه، وقال الشافعي: لا تجوز شهادة لرجل على الآخر وإن كان عدلا إذا كانت بينهما عداوة، وذهب إلى حديث عبد الرحمن الاعرج، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، لا تجوز شهادة صاحب إحنة، يعني: صاحب عداوة، وكذلك معنى هذا الحديث حيث قال: " لا تجوز شهادة صاحب غمر لاخيه "، يعني: صاحب عداوة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ خَائِنٍ، وَلَا خَائِنَةٍ، وَلَا مَجْلُودٍ حَدًّا، وَلَا مَجْلُودَةٍ، وَلَا ذِي غِمْرٍ لِأَخِيهِ، وَلَا مُجَرَّبِ شَهَادَةٍ، وَلَا الْقَانِعِ أَهْلَ الْبَيْتِ لَهُمْ، وَلَا ظَنِينٍ فِي وَلَاءٍ، وَلَا قَرَابَةٍ "، قَالَ الْفَزَارِيُّ: الْقَانِعُ التَّابِعُ، هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ، وَيَزِيدُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَلَا يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: وَلَا نَعْرِفُ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَا يَصِحُّ عِنْدِي مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ، وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي هَذَا أَنَّ شَهَادَةَ الْقَرِيبِ جَائِزَةٌ لِقَرَابَتِهِ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي شَهَادَةِ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ، وَالْوَلَدِ لِوَالِدِهِ، وَلَمْ يُجِزْ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ شَهَادَةَ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ، وَلَا الْوَلَدِ لِلْوَالِدِ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا كَانَ عَدْلًا، فَشَهَادَةُ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ جَائِزَةٌ، وَكَذَلِكَ شَهَادَةُ الْوَلَدِ لِلْوَالِدِ، وَلَمْ يَخْتَلِفُوا فِي شَهَادَةِ الْأَخِ لِأَخِيهِ أَنَّهَا جَائِزَةٌ، وَكَذَلِكَ شَهَادَةُ كُلِّ قَرِيبٍ لِقَرِيبِهِ، وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا تَجُوزُ شَهَادَةٌ لِرَجُلٍ عَلَى الْآخَرِ وَإِنْ كَانَ عَدْلًا إِذَا كَانَتْ بَيْنَهُمَا عَدَاوَةٌ، وَذَهَبَ إِلَى حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ صَاحِبِ إِحْنَةٍ، يَعْنِي: صَاحِبَ عَدَاوَةٍ، وَكَذَلِكَ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ حَيْثُ قَالَ: " لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ صَاحِبِ غِمْرٍ لِأَخِيهِ "، يَعْنِي: صَاحِبَ عَدَاوَةٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیانت کرنے والے مرد اور عورت کی گواہی درست اور مقبول نہیں ہے، اور نہ ان مردوں اور عورتوں کی گواہی مقبول ہے جن پر حد نافذ ہو چکی ہے، نہ اپنے بھائی سے دشمنی رکھنے والے کی گواہی مقبول ہے، نہ اس آدمی کی جس کی ایک بار جھوٹی گواہی آزمائی جا چکی ہو، نہ اس شخص کی گواہی جو کسی کے زیر کفالت ہو اس کفیل خاندان کے حق میں (جیسے مزدور وغیرہ) اور نہ اس شخص کی جو ولاء یا رشتہ داری کی نسبت میں متہم ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف یزید بن زیاد دمشقی کی روایت سے جانتے ہیں، اور یزید ضعیف الحدیث ہیں، نیز یہ حدیث زہری کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانی جاتی ہے،
۳- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی حدیث مروی ہے،
۴- فزازی کہتے ہیں: «قانع» سے مراد «تابع» ہے،
۵- اس حدیث کا مطلب ہم نہیں سمجھتے اور نہ ہی سند کے اعتبار سے یہ میرے نزدیک صحیح ہے،
۶- اس بارے میں اہل علم کا عمل ہے کہ رشتہ دار کے لیے رشتہ کی گواہی درست ہے، البتہ بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، اکثر اہل علم بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کو درست نہیں سمجھتے،
۷- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب گواہی دینے والا عادل ہو تو باپ کی گواہی بیٹے کے حق میں اسی طرح باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی درست ہے،
۸- بھائی کی گواہی کے جواز کے بارے میں اختلاف نہیں ہے،
۹- اسی طرح رشتہ دار کے لیے رشتہ دار کی گواہی میں بھی اختلاف نہیں ہے،
۱۰- امام شافعی کہتے ہیں: جب دو آدمیوں میں دشمنی ہو تو ایک کے خلاف دوسرے کی گواہی درست نہ ہو گی، گرچہ گواہی دینے والا عادل ہو، انہوں نے عبدالرحمٰن اعرج کی حدیث سے استدلال کیا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً مروی ہے کہ دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے، اسی طرح اس (مذکورہ) حدیث کا بھی مفہوم یہی ہے، (جس میں) آپ نے فرمایا: اپنے بھائی کے لیے دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16690) (ضعیف) (سند میں یزید بن زیاد دمشقی متروک الحدیث راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (2675)، المشكاة (3781 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6199) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2298) ضعيف
وقال الدارقطني: ”يزيد هذا ضعيف لا يحتج به“ (244/4) وهو متروك (تقدم: 1424) ولبعض الحديث شواهد

   جامع الترمذي2298عائشة بنت عبد اللهلا تجوز شهادة خائن ولا خائنة ولا مجلود حدا ولا مجلودة ولا ذي غمر لأخيه ولا مجرب شهادة ولا القانع أهل البيت لهم ولا ظنين في ولاء ولا قرابة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2298  
´ان لوگوں کا بیان جن کی گواہی درست نہیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیانت کرنے والے مرد اور عورت کی گواہی درست اور مقبول نہیں ہے، اور نہ ان مردوں اور عورتوں کی گواہی مقبول ہے جن پر حد نافذ ہو چکی ہے، نہ اپنے بھائی سے دشمنی رکھنے والے کی گواہی مقبول ہے، نہ اس آدمی کی جس کی ایک بار جھوٹی گواہی آزمائی جا چکی ہو، نہ اس شخص کی گواہی جو کسی کے زیر کفالت ہو اس کفیل خاندان کے حق میں (جیسے مزدور وغیرہ) اور نہ اس شخص کی جو ولاء یا رشتہ داری کی نسبت میں متہم ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الشهادات/حدیث: 2298]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں یزید بن زیاد دمشقی متروک الحدیث راوی ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2298   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.