الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
19. بَابُ مَا جَاءَ إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ مَنَامِهِ فَلاَ يَغْمِسْ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ حَتَّى يَغْسِلَهَا
19. باب: جب آدمی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے دھو نہ لے۔
حدیث نمبر: 24
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد احمد بن بكار الدمشقي، يقال هو: من ولد بسر بن ارطاة صاحب النبي صلى الله عليه وسلم، حدثنا الوليد بن مسلم، عن الاوزاعي، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب , وابى سلمة , عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا استيقظ احدكم من الليل فلا يدخل يده في الإناء حتى يفرغ عليها مرتين او ثلاثا فإنه لا يدري اين باتت يده ". وفي الباب عن ابن عمر , وجابر , وعائشة. قال ابو عيسى: وهذا حسن صحيح، قال الشافعي: واحب لكل من استيقظ من النوم قائلة كانت او غيرها، ان لا يدخل يده في وضوئه حتى يغسلها، فإن ادخل يده قبل ان يغسلها كرهت ذلك له، ولم يفسد ذلك الماء إذا لم يكن على يده نجاسة , وقال احمد بن حنبل: إذا استيقظ من النوم من الليل فادخل يده في وضوئه قبل ان يغسلها، فاعجب إلي ان يهريق الماء , وقال إسحاق: إذا استيقظ من النوم بالليل او بالنهار، فلا يدخل يده في وضوئه حتى يغسلها.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ أَحْمَدُ بْنُ بَكَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ، يُقَالُ هُوَ: مِنْ وَلَدِ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاةَ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , وَأبِى سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنَ اللَّيْلِ فَلَا يُدْخِلْ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ حَتَّى يُفْرِغَ عَلَيْهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَجَابِرٍ , وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَأُحِبُّ لِكُلِّ مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنَ النَّوْمِ قَائِلَةً كَانَتْ أَوْ غَيْرَهَا، أَنْ لَا يُدْخِلَ يَدَهُ فِي وَضُوئِهِ حَتَّى يَغْسِلَهَا، فَإِنْ أَدْخَلَ يَدَهُ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا كَرِهْتُ ذَلِكَ لَهُ، وَلَمْ يُفْسِدْ ذَلِكَ الْمَاءَ إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَى يَدِهِ نَجَاسَةٌ , وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِذَا اسْتَيْقَظَ مِنَ النَّوْمِ مِنَ اللَّيْلِ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي وَضُوئِهِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا، فَأَعْجَبُ إِلَيَّ أَنْ يُهْرِيقَ الْمَاءَ , وقَالَ إِسْحَاق: إِذَا اسْتَيْقَظَ مِنَ النَّوْمِ بِاللَّيْلِ أَوْ بِالنَّهَارِ، فَلَا يُدْخِلْ يَدَهُ فِي وَضُوئِهِ حَتَّى يَغْسِلَهَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی رات کو نیند سے اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن ۱؎ میں نہ ڈالے جب تک کہ اس پر دو یا تین بار پانی نہ ڈال لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابن عمر، جابر اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۳- شافعی کہتے ہیں: میں ہر سو کر اٹھنے والے کے لیے - چاہے وہ دوپہر میں قیلولہ کر کے اٹھا ہو یا کسی اور وقت میں - پسند کرتا ہوں کہ وہ جب تک اپنا ہاتھ نہ دھوئے اسے وضو کے پانی میں نہ ڈالے اور اگر اس نے دھونے سے پہلے ہاتھ ڈال دیا تو میں اس کے اس فعل کو مکروہ سمجھتا ہوں لیکن اس سے پانی فاسد نہیں ہو گا بشرطیکہ اس کے ہاتھ میں کوئی نجاست نہ لگی ہو ۲؎، احمد بن حنبل کہتے ہیں: جب کوئی رات کو جاگے اور دھونے سے پہلے پانی میں ہاتھ ڈال دے تو اس پانی کو میرے نزدیک بہا دینا بہتر ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب وہ رات یا دن کسی بھی وقت نیند سے جاگے تو اپنا ہاتھ وضو کے پانی میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے دھو نہ لے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 26 (162)، صحیح مسلم/الطہارة 26 (278)، سنن ابی داود/ الطہارة 49 (103)، سنن النسائی/الطہارة 1 (1)، و116 (161)، والغسل 29 (442)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 40 (393)، (تحفة الأشراف: 13189 و15203)، موطا امام مالک/الطہارة 12 (9)، مسند احمد (2/241، 253، 259، 349، 382) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: برتن کی قید سے حوض، تالاب اور نہر وغیرہ اس حکم سے مستثنیٰ ہوں گے کیونکہ ان کا پانی قلتین سے زیادہ ہوتا ہے، پس سو کر اٹھنے کے بعد ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔
۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی نے باب کی اس حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے، یہی جمہور کا قول ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے اسے وجوب پر محمول کیا ہے، لیکن احمد نے اسے رات کی نیند کے ساتھ خاص کر دیا ہے اور اسحاق بن راہویہ نے اسے عام رکھا ہے، صاحب تحفہ الأحوذی نے اسحاق بن راہویہ کے مذہب کو راجح قرار دیا ہے، احتیاط اسی میں ہے، رات کی قید صرف اس لیے ہے کہ آدمی رات میں عموماً سوتا ہے، نیز صحیحین کی روایات میں «من الليل» کی بجائے «ممن نومه» اپنی نیند سے ہے تو یہ رات اور دن ہر نیند کے لیے عام ہوا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (393)

   سنن النسائى الصغرى442عبد الرحمن بن صخرإذا قام أحدكم من الليل فلا يدخل يده في الإناء حتى يفرغ عليها مرتين أو ثلاثا فإن أحدكم لا يدري أين باتت يده
   سنن النسائى الصغرى1عبد الرحمن بن صخرإذا استيقظ أحدكم من نومه فلا يغمس يده في وضوئه حتى يغسلها ثلاثا فإن أحدكم لا يدري أين باتت يده
   سنن النسائى الصغرى161عبد الرحمن بن صخرإذا استيقظ أحدكم من منامه فلا يدخل يده في الإناء حتى يفرغ عليها ثلاث مرات فإنه لا يدري أين باتت يده
   صحيفة همام بن منبه70عبد الرحمن بن صخرإذا استيقظ أحدكم فلا يضع يده على الوضوء حتى يغسلها إنه لا يدري أحدكم أين باتت يده
   جامع الترمذي24عبد الرحمن بن صخرإذا استيقظ أحدكم من الليل فلا يدخل يده في الإناء حتى يفرغ عليها مرتين أو ثلاثا فإنه لا يدري أين باتت يده
   سنن أبي داود103عبد الرحمن بن صخرإذا قام أحدكم من الليل فلا يغمس يده في الإناء حتى يغسلها ثلاث مرات فإنه لا يدري أين باتت يده
   سنن أبي داود105عبد الرحمن بن صخرإذا استيقظ أحدكم من نومه فلا يدخل يده في الإناء حتى يغسلها ثلاث مرات فإن أحدكم لا يدري أين باتت يده أو أين كانت تطوف يده
   صحيح مسلم643عبد الرحمن بن صخرإذا استيقظ أحدكم من نومه فلا يغمس يده في الإناء حتى يغسلها ثلاثا فإنه لا يدري أين باتت يده
   سنن ابن ماجه393عبد الرحمن بن صخرإذا استيقظ أحدكم من الليل فلا يدخل يده في الإناء حتى يفرغ عليها مرتين أو ثلاثا فإن أحدكم لا يدري فيم باتت يده
   مسندالحميدي981عبد الرحمن بن صخرإذا استيقظ أحدكم من نومه، فلا يغمسن يده في الإناء حتى يغسلها ثلاثا، فإنه لا يدري أين باتت يده

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 105  
´سو کر اٹھنے والا آدمی ہاتھ دھونے سے پہلے اسے برتن میں نہ ڈالے`
«. . . سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلَا يُدْخِلْ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ حَتَّى يَغْسِلَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ، أَوْ أَيْنَ كَانَتْ تَطُوفُ يَدُهُ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے تین بار دھو نہ لے اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں رہا؟ یا کدھر پھرتا رہا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 105]
فوائد و مسائل:
➊ یہ حکم ہر قسم کے برتن کے لیے ہے، البتہ نہر اور بڑا حوض و تالاب اس حکم سے مستثنیٰ ہیں اور ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں یہی رائے بیان کی ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ حکم استحباب پر مبنی ہے، مگر امام احمد رحمہ اللہ اسے واجب قرار دیتے ہیں، لیکن جمہور کی رائے اقرب الی الصواب ہے، البتہ جب اسے یقین ہو جائے کہ اس کا ہاتھ نجاست و گندگی سے آلودہ ہوا ہے، تو ہاتھ برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھونا ضروری ہے۔
➋ مذکورہ بالا حدیث میں صرف رات کا تذکر ہ اس لیے کہا گیا ہے کہ رات میں نجاست لگ جانے کا زیادہ احتمال ہوتا ہے بہ نسبت دن کے، بہرحال مذکورہ حکم دن اور رات دونوں کے لیے یکساں ہے، لہٰذا دن کو سو کر جاگے تو بھی اس ارشاد پر عمل کرنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 105   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 1  
´اللہ عزوجل کے فرمان: «إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا ...» ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے جاگ جائے تو اپنا ہاتھ اپنے وضو کے پانی میں نہ ڈالے، یہاں تک کہ اسے تین بار دھو لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الطهارة/حدیث: 1]
1۔ اردو حاشیہ:
➊ مذکورہ حدیث سے امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وضو کرنے کے لیے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے انہیں تین دفعہ دھو لینا چاہیے، اس کے بعد وضو کا آغاز کرنا چاہیے۔
➋ اس سے یہ مسئلہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ وضو کا پانی نجس نہ ہو جیسا کہ دیگر احادیث میں اسی کی صراحت آئی ہے۔ دیکھیے: [صحيح البخاري، الوضوء، حدیث: 185، 186 و صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 235]
➌ اس حدیث میں رات کی نیند سے اٹھنے کے بعد ہاتھ دھونے کا ذکر ہے، مگر یہ علت عام ہے اور یہی صورت دن کی نیند میں بھی پیش آ سکتی ہے، اس لیے عموم علت کی وجہ سے ہر نیند کے بعد ہاتھ دھونا ضروری ہیں۔
➍ وضو کا مقصد صرف شرعی طہارت ہی نہیں بلکہ جسمانی صفائی بھی ہے۔
➎ نظر نہ آنے والی نجاست، مثلاًً: پیشاب خشک ہو جائے، یا مشکوک چیز لگ جائے تو انہیں تین دفعہ دھونا بہتر ہے، اس طرح وہ پاک ہو جائے گی، البتہ اگر نجاست نظر آ رہی ہو یا محسوس ہو رہی ہو تو اس کا زائل کرنا ضروری ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 161  
´نیند سے وضو کے ٹوٹ جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اس پر تین مرتبہ پانی نہ ڈال لے کیونکہ اسے خبر نہیں کہ رات میں اس کا ہاتھ کہاں کہاں رہا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 161]
161۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا کہ نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تبھی تو جاگنے کے بعد پانی کے برتن کا ذکر ہے۔
➋ نیند سے اس بنا پر وضو ٹوٹتا ہے کہ اس میں جسم سے ہوا خارج ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے اور سونے والے کو اس کا پتا نہیں چلتا، اسی طرح اگر اونگھ اس درجہ غالب ہو کہ شعور و ادراک ہی ختم ہو جائے تو یہ بھی نیند ہے اور مطلق نیند ناقض وضو ہے، خواہ جس حالت میں بھی آ جائے کیونکہ مطلق نیند آنے پر وضو کے ٹوٹنے کی احادیث موجود ہیں۔ لیکن اگر نیند میں حواس قائم ہوں، شعور زندہ ہو تو ہماری زبان میں اسے اونگھ کہتے ہیں، یہ کسی بھی حالت میں آ جائے، وضو نہیں ٹوٹتا۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 161   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 442  
´نیند کی وجہ سے وضو کا حکم۔`
سعید بن مسیب کہتے ہیں: مجھ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی رات میں اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن میں داخل نہ کرے، یہاں تک کہ دو یا تین مرتبہ اس پر پانی ڈال لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 442]
442 ۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے سنن نسائی حدیث: 161، 162 اور ان کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 442   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث393  
´کیا سو کر اٹھنے کے بعد ہاتھ دھونے سے پہلے آدمی اپنے ہاتھ کو برتن میں ڈالے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص رات کو سو کر بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے، جب تک کہ دو یا تین مرتبہ اس پہ پانی نہ بہا لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ رات میں اس کا ہاتھ کہاں کہاں رہا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 393]
اردو حاشہ:
(1)
رات اور دن کا حکم ایک ہی ہے۔
حدیث میں رات کا لفظ اس لیے بولا کیا ہے کہ انسان رات ہی کو زیادہ سوتا ہے۔

(2)
پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھونے کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ نیند میں انسان کو اپنے افعال وحرکات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا، اس لیے ممکن ہے کہ ہاتھ ناک وغیرہ یا پردے کے اعضاء کو یا زمین میں سونے کی صورت میں مٹی وغیرہ میں لگ جائے لہذا صفائی اور طہارت کا تقاضہ ہے کہ نیند سے جاگ کر ہاتھ دھولیے جائیں۔

(3)
دو تین دفعہ دھونے کا حکم اس لیے ہے کہ ہاتھ اچھی طرح صاف ہوجائے اور کسی قسم کا شک باقی نہ رہے اس لیے اگر ایک بار دھونے سے صفائی کا یقین ہوجائےتوکافی ہے۔

(4)
بعض علماء نے برتن کے لفظ سے استدلال کیا ہے کہ یہ حکم ہر قسم کے برتن کے لیے ہے البتہ نہر اور حوض وتالاب اس حکم سے مستثنی ہیں۔
اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حوض اور تالاب کا پانی بہت زیادہ ہوتا ہے۔
اس میں قلیل نجاست مل جانے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا اور مذکورہ بالا صورت میں تو یہ نجاست بھی یقینی نہیں بلکہ نجاست کا محض احتمال ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 393   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 24  
´جب آدمی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے دھو نہ لے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی رات کو نیند سے اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن ۱؎ میں نہ ڈالے جب تک کہ اس پر دو یا تین بار پانی نہ ڈال لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 24]
اردو حاشہ:
1؎:
برتن کی قید سے حوض،
تالاب اور نہر وغیرہ اس حکم سے مستثنیٰ ہوں گے کیونکہ ان کا پانی قلتین سے زیادہ ہوتا ہے،
پس سو کر اٹھنے کے بعد ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔

2؎:
اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی نے باب کی اس حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے،
یہی جمہور کا قول ہے،
احمد اور اسحاق بن راہویہ نے اسے وجوب پر محمول کیا ہے،
لیکن احمد نے اسے رات کی نیند کے ساتھ خاص کر دیا ہے اور اسحاق بن راہویہ نے اسے عام رکھا ہے،
صاحب تحفہ الأحوذی نے اسحاق بن راہویہ کے مذہب کو راجح قرار دیا ہے،
احتیاط اسی میں ہے،
رات کی قید صرف اس لیے ہے کہ آدمی رات میں عموماً سوتا ہے،
نیز صحیحین کی روایات میں ((مِنَ اللَّيْلِ)) کی بجائے ((مِنْ نَوْمِه)) اپنی نیند سے ہے تو یہ رات اور دن ہرنیند کے لیے عام ہوا۔
 
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 24   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.