الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
Chapters on the description of the Day of Judgement, Ar-Riqaq, and Al-Wara'
حدیث نمبر: 2462
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن معمر، ويونس , عن الزهري، ان عروة بن الزبير اخبره، ان المسور بن مخرمة اخبره، ان عمرو بن عوف وهو حليف بني عامر بن لؤي وكان شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث ابا عبيدة بن الجراح فقدم بمال من البحرين، وسمعت الانصار بقدوم ابي عبيدة فوافوا صلاة الفجر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف، فتعرضوا له، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين رآهم , ثم قال: " اظنكم سمعتم ان ابا عبيدة قدم بشيء "، قالوا: اجل يا رسول الله، قال: " فابشروا واملوا ما يسركم، فوالله ما الفقر اخشى عليكم ولكني اخشى ان تبسط الدنيا عليكم كما بسطت على من قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها فتهلككم كما اهلكتهم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، وَيُونُسَ , عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَقَدِمَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ، وَسَمِعَتِ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَوَافَوْا صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ، فَتَعَرَّضُوا لَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ , ثُمَّ قَالَ: " أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنْ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِشَيْءٍ "، قَالُوا: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ، فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ وَلَكِنِّي أَخْشَى أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ قَبْلَكُمْ فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا فَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ نے خبر دی ہے کہ عمرو بن عوف رضی الله عنہ (یہ بنو عامر بن لوی کے حلیف اور جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے) نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کو بھیجا پھر وہ بحرین (احساء) سے کچھ مال غنیمت لے کر آئے، جب انصار نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، ادھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو لوگ آپ کے سامنے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا: شاید تم لوگوں نے یہ بات سن لی ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں، لوگوں نے کہا جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تمہارے لیے خوشخبری ہے اور اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کرے، اللہ کی قسم! میں تم پر فقر و محتاجی سے نہیں ڈرتا ہوں، البتہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی، پھر تم اس میں حرص و رغبت کرنے لگو جیسا کہ ان لوگوں نے حرص و رغبت کی، پھر دنیا تمہیں تباہ و برباد کر دے جیسا کہ اس نے ان کو تباہ و برباد کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجزیہ 1 (3158)، والمغازي 12 (4015)، والرقاق 7 (6425)، صحیح مسلم/الزہد 1 (2961)، سنن ابن ماجہ/الفتن 18 (3997) (تحفة الأشراف: 10784) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال و اسباب کی فراوانی دینی اعتبار سے فقر و تنگ دستی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس فتنہ سے آگاہ کیا، تاکہ لوگ اس کے خطرناک نتائج سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں، لیکن افسوس صد افسوس مال و اسباب کی اسی کثرت نے لوگوں کی اکثریت کو دین سے غافل کر دیا، اور آج وہ چیز ہمارے سامنے ہے جس کا آپ کو اندیشہ تھا، حالانکہ مال جمع کرنے سے آدمی سیر نہیں ہوتا بلکہ مال کی فروانی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر مال کی بھوک بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کی مٹی ہی اس کا پیٹ بھر سکتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3997)

   صحيح البخاري3158مسور بن مخرمةلا الفقر أخشى عليكم ولكن أخشى عليكم أن تبسط عليكم الدنيا كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها وتهلككم كما أهلكتهم
   صحيح البخاري6425مسور بن مخرمةما الفقر أخشى عليكم ولكن أخشى عليكم أن تبسط عليكم الدنيا كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها وتلهيكم كما ألهتهم
   صحيح البخاري4015مسور بن مخرمةما الفقر أخشى عليكم ولكني أخشى أن تبسط عليكم الدنيا كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها وتهلككم كما أهلكتهم
   صحيح مسلم7425مسور بن مخرمةما الفقر أخشى عليكم ولكني أخشى عليكم أن تبسط الدنيا عليكم كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها وتهلككم كما أهلكتهم
   جامع الترمذي2462مسور بن مخرمةما الفقر أخشى عليكم ولكني أخشى أن تبسط الدنيا عليكم كما بسطت على من قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها فتهلككم كما أهلكتهم
   سنن ابن ماجه3997مسور بن مخرمةما الفقر أخشى عليكم ولكني أخشى عليكم أن تبسط الدنيا عليكم كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها فتهلككم كما أهلكتهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3997  
´مال دولت کا فتنہ۔`
عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ جو بنو عامر بن لوی کے حلیف تھے اور جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین کا جزیہ وصول کرنے کے لیے بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی، اور ان پر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا تھا، ابوعبیدہ (ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ) بحرین سے مال لے کر آئے، اور جب انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی تو سب نماز فجر میں آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی، پھر جب آپ نماز پڑھ کر لوٹے، تو راستے م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3997]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دولت ایک آزمائش ہے۔
اس کی حرص کی وجہ سے ظلم اور گناہ کا ارتکاب ہوتا ہے۔

(2)
مال حلال طریقے سے حاصل ہو اور اس پر قناعت کی جائے تو برا نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3997   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2462  
´باب:۔۔۔`
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ نے خبر دی ہے کہ عمرو بن عوف رضی الله عنہ (یہ بنو عامر بن لوی کے حلیف اور جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے) نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کو بھیجا پھر وہ بحرین (احساء) سے کچھ مال غنیمت لے کر آئے، جب انصار نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، ادھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو لوگ آپ کے سامنے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا: شاید تم لوگوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2462]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال واسباب کی فراوانی دینی اعتبار سے فقرو تنگ دستی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے،
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی امت کو اس فتنہ سے آگاہ کیا،
تاکہ لوگ اس کے خطرناک نتائج سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں،
لیکن افسوس صد افسوس مال واسباب کی اسی کثرت نے لوگوں کی اکثریت کو دین سے غافل کردیا،
اور آج وہ چیز ہمارے سامنے ہے جس کا آپﷺ کو اندیشہ تھا،
حالاں کہ مال جمع کرنے سے آدمی سیر نہیں ہوتا بلکہ مال کی فروانی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر مال کی بھوک بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کی مٹی ہی اس کا پیٹ بھرسکتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2462   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.