الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
82. باب وَمِنْ سُورَةِ أَلَمْ نَشْرَحْ
82. باب: سورۃ الم نشرح سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3346
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، وابن ابي عدي، عن سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن انس بن مالك، عن مالك بن صعصعة رجل من قومه، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " بينما انا عند البيت بين النائم واليقظان إذ سمعت قائلا يقول: احد بين الثلاثة، فاتيت بطست من ذهب فيها ماء زمزم فشرح صدري إلى كذا وكذا، قال قتادة: قلت لانس بن مالك: ما يعني؟ قال: إلى اسفل بطني، فاستخرج قلبي فغسل قلبي بماء زمزم ثم اعيد مكانه ثم حشي إيمانا وحكمة "، وفي الحديث قصة طويلة. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه هشام الدستوائي، وهمام، عن قتادة، وفيه عن ابي ذر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بَيْنَمَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ إِذْ سَمِعْتُ قَائِلًا يَقُولُ: أَحَدٌ بَيْنَ الثَّلَاثَةِ، فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهَا مَاءُ زَمْزَمَ فَشَرَحَ صَدْرِي إِلَى كَذَا وَكَذَا، قَالَ قَتَادَةُ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: مَا يَعْنِي؟ قَالَ: إِلَى أَسْفَلِ بَطْنِي، فَاسْتُخْرِجَ قَلْبِي فَغُسِلَ قَلْبِي بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ أُعِيدَ مَكَانَهُ ثُمَّ حُشِيَ إِيمَانًا وَحِكْمَةً "، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، وَهَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، وَفِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ.
انس بن مالک رضی الله عنہ اپنی قوم کے ایک شخص مالک بن صعصہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بیت اللہ کے پاس نیم خوابی کے عالم میں تھا (کچھ سو رہا تھا اور کچھ جاگ رہا تھا) اچانک میں نے ایک بولنے والے کی آواز سنی، وہ کہہ رہا تھا تین آدمیوں میں سے ایک (محمد ہیں) ۱؎، پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں زمزم کا پانی تھا، اس نے میرے سینے کو چاک کیا یہاں سے یہاں تک، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس رضی الله عنہ سے کہا: کہاں تک؟ انہوں نے کہا: آپ نے فرمایا: پیٹ کے نیچے تک، پھر آپ نے فرمایا: اس نے میرا دل نکالا، پھر اس نے میرے دل کو زمزم سے دھویا، پھر دل کو اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا اور ایمان و حکمت سے اسے بھر دیا گیا ۲؎ اس حدیث میں ایک لمبا قصہ ہے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے
۲- اسے ہشام دستوائی اور ہمام نے قتادہ سے روایت کیا ہے،
۳- اس باب میں ابوذر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (3207)، ومناقب الأنصار 42 (3332)، صحیح مسلم/الإیمان 74 (164)، سنن النسائی/الصلاة 1 (449) (تحفة الأشراف: 11202)، و مسند احمد (4/107) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ان تین میں ایک جعفر، ایک حمزہ اور ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے
۲؎: شق صدر کا واقعہ کئی بار ہوا ہے، انہی میں سے ایک یہ واقعہ ہے۔
۳؎: یہ قصہ اسراء اور معراج کا ہے جو بہت معروف ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري349أنس بن مالكفرج عن سقف بيتي وأنا بمكة فنزل جبريل ففرج صدري ثم غسله بماء زمزم ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فأفرغه في صدري ثم أطبقه ثم أخذ بيدي فعرج بي إلى السماء الدنيا فلما جئت إلى السماء الدنيا
   صحيح البخاري3430أنس بن مالكأسري به ثم صعد حتى أتى السماء الثانية فاستفتح قيل من هذا قال جبريل قيل ومن معك قال محمد قيل وقد أرسل إليه قال نعم فلما خلصت فإذا يحيى وعيسى وهما ابنا خالة قال هذا يحيى وعيسى فسلم عليهما فسلمت فردا ثم قالا مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح
   صحيح البخاري3887أنس بن مالكبينما أنا في الحطيم وربما قال في الحجر مضطجعا إذ أتاني آت فقد قال وسمعته يقول فشق ما بين هذه إلى هذه فقلت للجارود وهو إلى جنبي ما يعني به قال من ثغرة نحره إلى شعرته وسمعته يقول من قصه إلى شعرته فاستخرج قلبي ثم أتيت بطست من ذهب مملوءة إيمانا فغسل قلبي
   صحيح البخاري7517أنس بن مالكأولهم أيهم هو فقال أوسطهم هو خيرهم فقال آخرهم خذوا خيرهم فكانت تلك الليلة فلم يرهم حتى أتوه ليلة أخرى فيما يرى قلبه وتنام عينه ولا ينام قلبه وكذلك الأنبياء تنام أعينهم ولا تنام قلوبهم فلم يكلموه حتى احتملوه فوضعوه عند بئر زمزم فتولاه منهم جبريل فشق جبري
   صحيح البخاري3570أنس بن مالكأولهم أيهم هو فقال أوسطهم هو خيرهم وقال آخرهم خذوا خيرهم فكانت تلك فلم يرهم حتى جاءوا ليلة أخرى فيما يرى قلبه والنبي نائمة عيناه ولا ينام قلبه وكذلك الأنبياء تنام أعينهم ولا تنام قلوبهم فتولاه جبريل ثم عرج به إلى السماء
   صحيح مسلم415أنس بن مالكفرج سقف بيتي وأنا بمكة فنزل جبريل ففرج صدري ثم غسله من ماء زمزم ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فأفرغها في صدري ثم أطبقه ثم أخذ بيدي فعرج بي إلى السماء فلما جئنا السماء الدنيا قال جبريل لخازن السماء الدنيا افتح قال من هذا قال
   صحيح مسلم416أنس بن مالكبينا أنا عند البيت بين النائم واليقظان إذ سمعت قائلا يقول أحد الثلاثة بين الرجلين فأتيت فانطلق بي فأتيت بطست من ذهب فيها من ماء زمزم فشرح صدري إلى كذا وكذا قال قتادة فقلت للذي معي ما يعني قال إلى أسفل بطنه فاستخرج قلبي فغسل بماء زمزم ثم أعيد مكانه ثم حشي
   صحيح مسلم412أنس بن مالكأتيت فانطلقوا بي إلى زمزم فشرح عن صدري ثم غسل بماء زمزم ثم أنزلت
   صحيح مسلم411أنس بن مالكأتيت بالبراق وهو دابة أبيض طويل فوق الحمار ودون البغل يضع حافره عند منتهى طرفه قال فركبته حتى أتيت بيت المقدس قال فربطته بالحلقة التي يربط به الأنبياء قال ثم دخلت المسجد فصليت فيه ركعتين ثم خرجت فجاءني جبريل بإناء من خمر وإناء من لبن فاخترت ال
   جامع الترمذي3346أنس بن مالكبينما أنا عند البيت بين النائم واليقظان إذ سمعت قائلا يقول أحد بين الثلاثة فأتيت بطست من ذهب فيها ماء زمزم فشرح صدري إلى كذا وكذا قال قتادة قلت لأنس بن مالك ما يعني قال إلى أسفل بطني فاستخرج قلبي فغسل قلبي بماء زمزم ثم أعيد مكانه ثم حشي إيمانا وحكمة
   سنن النسائى الصغرى451أنس بن مالكأتيت بدابة فوق الحمار ودون البغل خطوها عند منتهى طرفها فركبت ومعي جبريل فسرت فقال انزل فصل ففعلت فقال أتدري أين صليت صليت بطيبة وإليها المهاجر ثم قال انزل فصل فصليت فقال أتدري أين صليت صليت بطور سيناء حيث كلم الله موسى ثم قا
   سنن النسائى الصغرى449أنس بن مالكبينا أنا عند البيت بين النائم واليقظان إذ أقبل أحد الثلاثة بين الرجلين فأتيت بطست من ذهب ملآن حكمة وإيمانا فشق من النحر إلى مراق البطن فغسل القلب بماء زمزم ثم ملئ حكمة وإيمانا ثم أتيت بدابة دون البغل وفوق الحمار ثم انطلقت مع جبريل فأتينا السما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 349  
´واقعہ معراج قرآن کریم کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فُرِجَ عَنْ سَقْفِ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفَرَجَ صَدْرِي . . .»
. . . ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انہوں نے میرا سینہ چاک کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 349]

تخريج الحديث:
[102۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 1 باب كيف فرضت الصلاة فى الإسراء 349 مسلم 163 أبوعوانة 133/1]

لغوی توضیح:
«سَقْف» چھت۔
«طَسْت» برتن۔
«فَفَرَجَ» کھل گیا، پھٹ گیا۔
«اَسْوِدَة» اشخاص۔
«نَسَم» جمع ہے «نَسَمَة» کی، معنی ہے ارواح۔
«ظَهَرْتُ» میں بلند ہوا۔
«صَرِيْفَ الْاَقْلَامِ» قلموں کے لکھنے کی آواز، یہ فرشتوں کے لکھنے کی آواز تھی جو اللہ کے فیصلے اور وحی لکھتے ہیں۔
«الْجَنَابِذ» جمع ہے «جنبذه» کی، معنی ہے قبے، خیمے۔

فھم الحدیث:
واقعہ معراج قرآن کریم کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے کہ ساتوں آسمانوں کا سفر رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہو گیا۔ یہ معجزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے جو دوسرے کسی نبی کو عطا نہیں ہوا۔ اہل السنہ و ائمہ سلف کا عقیدہ ہے کہ یہ کوئی خواب یا روحانی سیر نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم و روح سمیت بیداری کی حالت میں آسمانوں پر لے جایا گیا جہاں آپ نے انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں کیں اور بارگاہ الٰہی سے پانچ نمازوں کا تحفہ لائے۔ [الوجيز فى عقيدة السلف 66/1 تفسير احسن البيان ص: 765 الرحيق المختوم ص: 198]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 102   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 449  
´نماز کی فرضیت اور اس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس (کے متن) میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر۔`
انس بن مالک، مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کعبہ کے پاس نیم خواب اور نیم بیداری میں تھا کہ اسی دوران میرے پاس تین (فرشتے) آئے، ان تینوں میں سے ایک جو دو کے بیچ میں تھا میری طرف آیا، اور میرے پاس حکمت و ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا، تو اس نے میرا سینہ حلقوم سے پیٹ کے نچلے حصہ تک چاک کیا، اور دل کو آب زمزم سے دھویا، پھر وہ حکمت و ایمان سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا ایک جانور لایا گیا، میں جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ چلا، تو ہم آسمان دنیا پر آئے، تو پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، پوچھا گیا: کیا بلائے گئے ہیں؟ مرحبا مبارک ہو ان کی تشریف آوری، پھر میں آدم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر ہم دوسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا: کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے ان دونوں کو سلام کیا، ان دونوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں یوسف علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم چوتھے آسمان پر آئے، وہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں ادریس علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم پانچویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، میں ہارون علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی، اور نبی! پھر ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! تو جب میں ان سے آگے بڑھا، تو وہ رونے لگے ۱؎، ان سے پوچھا گیا آپ کو کون سی چیز رلا رہی ہے؟ انہوں نے کہا: پروردگار! یہ لڑکا جسے تو نے میرے بعد بھیجا ہے اس کی امت سے جنت میں داخل ہونے والے لوگ میری امت کے داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ اور افضل ہوں گے، پھر ہم ساتویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر بیت معمور ۲؎ میرے قریب کر دیا گیا، میں نے (اس کے متعلق) جبرائیل سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ بیت معمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں، جب وہ اس سے نکلتے ہیں تو پھر دوبارہ اس میں واپس نہیں ہوتے، یہی ان کا آخری داخلہ ہوتا ہے، پھر سدرۃ المنتھی میرے قریب کر دیا گیا، اس کے بیر ہجر کے مٹکوں جیسے، اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے، اور اس کی جڑ سے چار نہریں نکلی ہوئی تھی، دو نہریں باطنی ہیں، اور دو ظاہری، میں نے جبرائیل سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: باطنی نہریں تو جنت میں ہیں، اور ظاہری نہریں فرات اور نیل ہیں، پھر میرے اوپر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں، میں لوٹ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میرے اوپر پچاس نمازیں فرض کی گئیں ہیں، انہوں نے کہا: میں لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں، میں بنی اسرائیل کو خوب جھیل چکا ہوں، آپ کی امت اس کی طاقت بالکل نہیں رکھتی، اپنے رب کے پاس واپس جایئے، اور اس سے گزارش کیجئیے کہ اس میں تخفیف کر دے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اللہ تعالیٰ نے چالیس نمازیں کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا، انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے انہیں چالیس کر دی ہیں، پھر انہوں نے مجھ سے وہی بات کہی جو پہلی بار کہی تھی، تو میں پھر اپنے رب عزوجل کے پاس واپس آیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تیس کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے انہیں بیس پھر دس اور پھر پانچ کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں نے کہا: (اب مجھے) اپنے رب عزوجل کے پاس (باربار) جانے سے شرم آ رہی ہے، تو آواز آئی: میں نے اپنا فریضہ نافذ کر دیا ہے، اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی ہے، اور میں نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 449]
449 ۔ اردو حاشیہ:
«عِنْدَ الْبَيْتِ» سے بیت اللہ مراد ہے۔ آپ بیت اللہ کے ایک حصے حجر میں لیٹے ہوئے تھے۔ اسے حطیم بھی کہتے ہیں۔ بعض روایات میں ام ہانی کے گھر کا ذکر ہے۔ [تفسیر طبری: 9؍5]
ممکن ہے وہیں سوئے ہوں، پھر حطیم میں آگئے ہوں۔
جاگنے سونے کے درمیان آپ کی عمومی نیند ایسی ہی تھی اور یہاں اس کا مطلب گہری نیند کی نفی ہے، یعنی آپ نیند کے ابتدائی مرحلے میں تھے، اسے جاگنے اور سونے کے درمیان سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تین آدمی آئے ظاہر صورت کے لحاظ سے آدمی کہا: ورنہ وہ فرشتے تھے۔ دو کا نام بعض روایات میں ہے: جبریل اور میکائیل علیہما السلام۔
➍آپ کے سینۂ اطہر کا چیرا جانا، پھر زمزم سے دھویا جانا اور ایمان وحکمت سے بھرا جانا، یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ترین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا باہمی راز ہے جس کی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی، ممکن ہے یہ آسمانوں پر جانے کی تیاری کا ابتدائی مرحلہ ہو۔
➎ استدلال کیا گیا ہے کہ زم زم کا پانی جنت کے پانی سے افضل ہے۔ تبھی آپ کے قلب اقدس کو اس سے دھویا گیا۔
جانور کا نام روایات میں براق آیا ہے۔ [صحیح البخاری، مناقب الانصار، حدیث: 3887، وصحیح مسلم، الایمان، حدیث: 164]
مگر یہ بھی وصفی نام ہے جو برق سے لیا گیا ہے۔
میں جبریل کے ساتھ چلا۔ آنے والے تین ہمراہیوں میں سے ایک جبریل علیہ السلام ہی تھے۔ اس کے بعد باقی دو کا ذکر نہیں۔ ظاہر ہے وہ خالی تھال لے کر اور آپ کے دیدار سے مشرف ہو کر واپس چلے گئے۔
ہم آسمان دنیا کے پاس آئے۔ روایت مختصر ہے۔ بعض روایات میں مدینہ منورہ، طورسینا، بیت اللحم اور بیت المقدس جانے کا بھی ذکر ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 451) لیکن اس اضافے کے ساتھ یہ روایت منکر ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: [الاسراء والمعراج للالبانی، ص: 44]
➒ساتوں آسمانوں پر مختلف انبیاء علیہم السلام سے آپ کی ملاقات، ممکن ہے ان کو آپ کے استقبال و ملاقات کے لیے خصوصی طور پر لایا گیا ہو۔ اور یہی انسب ہے۔
➓ حضرت آدم اور ابراہیم علیہما السلام کا آپ کو بیٹا کہنا اس لیے ہے کہ وہ آپ کے اجداد میں شامل ہیںَ۔ نسب میں ان کا ذکر ہوتا ہے، جب کہ دوسرے انبیاء علیہم السلام آپ کے نسب میں نہیں آتے، لہٰذا وہ آپ کے چچازاد بھائیوں کے رتبے میں ہیں، تبھی انہوں نے آپ کو بھائی کہا:۔ (11)موسیٰ علیہ السلام کا رونا آپ یا آپ کی امت پر حسد کے طور پر نہیں تھا۔ حاشاوکلا۔ انبیاء علیہم السلام اس بیماری سے معصوم ہوتے ہیں، بلکہ یہ اپنی امت پر افسوس کی بنا پر تھا کہ میں نے اتنی محنت کی، اتنا عرصہ گزارا مگر میں یہ رتبہ حاصل نہ کرسکا کیونکہ جس نبی کے جتنے زیادہ پیروکار ہوں گے اسے اتنا ہی اجروثواب سے نوازا جائے گا۔ اگر حسد ہوتا تو واپسی کے وقت امت مسلمہ کے خیرخواہی کیوں کرتے اور پچاس(50) سے پانچ(5) نمازیں رہ جانے کا سبب کیوں بنتے؟ شاید اسی شبہے کے ازالے کے لیے یہ باتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بجائے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہلوائی گئیں، ورنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ساتویں آسمان پر تھے۔ واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے ملاقات پہلے ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام تو چھٹے آسمان پر تھے۔ بعض محدثین نے یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ واپسی کے وقت انبیاء علیہم السلام کی ترتیب بدل گئی ہو گی۔ (12)بیت المعمور بیت اللہ کے عین اوپر ساتویں آسمان پر ہے جس میں فرشتے نماز پڑھتے ہیں۔ جو ایک دفعہ آتا ہے اس کی دوبارہ باری نہیں آتی۔ اور داخل بھی روزانہ سترہزار ہوتے ہیں۔ اس سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ فرشتے دیگر تمام مخلوقات سے تعداد میں زیادہ ہیں۔ واللہ اعلم۔ [صحیح البخاری، بدء الخلق، حدیث: 3207]
(13) سدرۃ المنتہیٰ بیری کا درخت ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟ قطعیت سے کچھ نہیں کہا: جا سکتا۔ صوفیاء نے اسے اللہ تعالیٰ کی صفت خلق کا تمثل قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ سدرہ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں۔ المنتہیٰ کے معنی ہیں: آخری، یعنی یہ مخلوقات کی انتہا ہے، یہاں عالم خلق ختم ہو جاتا ہے۔ بقول صوفیاء اس سے اوپر عالم امر ہے جہاں کسی مخلوق کی رسائی نہیں خواہ وہ کوئی انسان ہو یا فرشتہ۔ اس حدیث میں اسے ساتویں آسمان سے اوپر قرار دیا گیا ہے۔ آگے ایک حدیث میں اسے چھٹے آسمان پر بتلایا گیا ہے۔ تطبیق یوں ہے کہ جڑ چھٹے آسمان پر ہو گی اور شاخیں ساتویں آسمان پر پہنچی ہوئی ہوں گی۔ واللہ اعلم۔ (14)سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں چار نہروں (یادریاؤں) کا جو ذکر ہے ان میں سے دو پوشیدہ بتلایا گیا ہے، نیز یہ کہ وہ جنت میں ہیں۔ اور دو کو ظاہر کیا گیا ہے جو نیل اور فرات ہیں۔ صحیح مسلم کی روایت میں جنت کی دو باطنی نہروں کے نام سیحان اور جیجان بتلائے گئے ہیں۔ (صحیح مسلم، الحنۃ وتیمھا، حدیث: 2839) علاوہ ازیں ان چاروں نہروں کو جنت کی نہریں قرار دیا گیا ہے۔ دریائے نیل و فرات تو مشہور اور ان کے علاقے بھی معلوم ہیں اور سیحان و جیجان کی بابت مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں کہ یہ دونوں نہریں بہت بڑی ہیں اور ترکی میں ہیں۔ جیجان کی گزرگاہ مصیصہ ہے سیحان کی گزرگاہ اذنہ ہے۔ اور یہ دونوں نہریں بحرروم میں گرتی ہیں۔ ان کے علاوہ دو نہریں اور ہیں جن کے نام ان سے ملتے جلتے ہیں، یعنی جوجون اور سیحون۔ اس سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ ہوا کہ حدیث میں مذکور جیجان اور سیحان سے یہی مراد ہیں۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تردید کی ہے اور مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی۔ اور مولانا موصوف نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ دریائے جیجون وہی ہے جسے آج کل دریائے آمو کہا جاتا ہے اور یہ افغانستان اور ازبکستان کے درمیان حد ہے۔ یہ بلخ، ترمذ اور آمل ودرغان سے گزرتا ہوا بحیرۂ خوارزم میں جاگرتا ہے۔ اور سیحون، جیجون کے ماور اء ہے جو خجندہ اور خوقند کے قریب اور تاشقند سے پہلے گزرتا ہے۔ اسے آج کل سیردریا کہا جاتا ہے۔ ان چاروں دریائوں کے جنت سے ہونے کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ ان کی اصل جنت ہے اور وہاں سے یہ زمین پر اتارے گئے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان نہروں کے جنت ہے اور وہاں سے یہ زمین پر اتارے گئے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان نہروں کے جنت سے ہونے سے مراد شاید یہ ہے کہ ان کی اصل جنت سے ہے، جیسے انسان کی اصل جنت سے ہے۔ چنانچہ یہ حدیث اس بات کے منافی نہیں ہے جو ان نہروں کی بابت مشہورومعلوم ہے کہ یہ نہریں زمین کے معروف سرچشموں سے پھوٹتی ہیں۔ اور اگر اس کے یہ یا اس سے ملتے جلتے معنی نہیں ہیں تو یہ حدیث امورغیب سے متعلق ہے جن پر ایمان رکھنا اور جو خبر دی گئی ہے، اس کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔۔۔ [سلسلة الاحادیث الصحیحة، 1؍177، 178]
بعض لوگوں نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن علاقوں میں یہ نہریں بہتی ہیں، ان میں اسلام کا پھیلاؤ اور غلبہ ہو گا۔ یا یہ مطلب ہے کہ ان نہروں کے پانی سے پیدا ہونے والی خوراک جو لوگ استعمال کریں گے وہ جنتی ہوں گے۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں تاویلوں کے مقابلے میں اس کا پہلا ظاہری معنیٰ ہی زیادہ صحیح ہے۔ [شرح صحیح مسلم للنووي، الجنة حدیث: 2839، ومنة المنعم: 4؍322، مطبوعة دارالسلام، الریاض]
(15)واپسی کے موقع پر موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نبی کا ذکر نہیں۔ ممکن ہے واپسی پردیگر انبیاء سے ملاقات ہی نہ ہوئی ہو، یعنی جہاں سے ان کو لایا گیا تھا، وہیں بھیج دیا گیا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے کوئی خصوصی بات نہ ہوئی ہو، اس لیے ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ (16)حضرت موسیٰ علیہ السلام کے توجہ دلانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس اللہ عزوجل کے پاس جانا شاید اس شبہے کو دور کرنے کے لیے تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو آپ کی امت پر حسد ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کے الزام سے بچانے کے لیے دنیا میں پتھر والا واقعہ پیش آیا تھا۔ [صحیح البخاری، الغسل، حدیث: 278، وصحیح مسلم، الحیض، حدیث: 339]
(17) نمازوں کی تخفیف بعض روایات کے مطابق پانچ(5) پانچ(5) سے ہوئی۔ [صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 162]
گویا اس روایت میں اختصار ہے۔ آخر میں پانچ (5) کا رہ جانا بھی اس کا مؤید ہے۔ (18) «امضیت فریضتی» ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل فریضہ پانچ(5) نمازیں ہی تھیں۔ پچاس نمازوں کا مقرر ہونا گویا ان کے ثواب کے اظہار کے لیے تھا، باربار آنے جانے سے یہ عقدہ حل ہو گیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 449   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 451  
´نماز کی فرضیت اور اس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس (کے متن) میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر۔`
یزید بن ابی مالک کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک جانور لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی تھی، تو میں سوار ہو گیا، اور میرے ہمراہ جبرائیل علیہ السلام تھے، میں چلا، پھر جبرائیل نے کہا: اتر کر نماز پڑھ لیجئیے، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طیبہ میں نماز پڑھی ہے، اور اسی کی طرف ہجرت ہو گی، پھر انہوں نے کہا: اتر کر نماز پڑھئے، تو میں نے نماز پڑھی، انہوں نے کہا: کیا جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طور سینا پر نماز پڑھی ہے، جہاں اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا، پھر کہا: اتر کر نماز پڑھئے، میں نے اتر کر نماز پڑھی، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز پڑھی ہے، جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی، پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا، تو وہاں میرے لیے انبیاء علیہم السلام کو اکٹھا کیا گیا، جبرائیل نے مجھے آگے بڑھایا یہاں تک کہ میں نے ان کی امامت کی، پھر مجھے لے کر جبرائیل آسمان دنیا پر چڑھے، تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں آدم علیہ السلام موجود ہیں، پھر وہ مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں دونوں خالہ زاد بھائی عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام موجود ہیں، پھر تیسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں یوسف علیہ السلام موجود ہیں، پھر چوتھے آسمان پر چڑھے تو وہاں ہارون علیہ السلام ملے، پھر پانچویں آسمان پر چڑھے تو وہاں ادریس علیہ السلام موجود تھے، پھر چھٹے آسمان پر چڑھے وہاں موسیٰ علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان پر چڑھے وہاں ابراہیم علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر چڑھے اور ہم سدرۃ المنتہیٰ تک آئے، وہاں مجھے بدلی نے ڈھانپ لیا، اور میں سجدے میں گر پڑا، تو مجھ سے کہا گیا: جس دن میں نے زمین و آسمان کی تخلیق کی تم پر اور تمہاری امت پر میں نے پچاس نمازیں فرض کیں، تو تم اور تمہاری امت انہیں ادا کرو، پھر میں لوٹ کر ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا، میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: تم پر اور تمہاری امت پر کتنی (نمازیں) فرض کی گئیں؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں، تو انہوں نے کہا: نہ آپ اسے انجام دے سکیں گے اور نہ ہی آپ کی امت، تو اپنے رب کے پاس واپس جایئے اور اس سے تخفیف کی درخواست کیجئے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے دس نمازیں تخفیف کر دیں، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں پھر واپس گیا تو اس نے (پھر) دس نمازیں تخفیف کر دیں، میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں واپس گیا، تو اس نے مجھ سے دس نمازیں تخفیف کر دیں، پھر (باربار درخواست کرنے سے) پانچ نمازیں کر دی گئیں، (اس پر بھی) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اپنے رب کے حضور واپس جایئے اور تخفیف کی گزارش کیجئے، اس لیے کہ بنی اسرائیل پر دو نمازیں فرض کی گئیں تھیں، تو وہ اسے ادا نہیں کر سکے، چنانچہ میں اپنے رب کے حضور واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اس نے فرمایا: جس دن میں نے زمین و آسمان پیدا کیا، اسی دن میں نے تم پر اور تمہاری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، تو اب یہ پانچ پچاس کے برابر ہیں، انہیں تم ادا کرو، اور تمہاری امت (بھی)، تو میں نے جان لیا کہ یہ اللہ عزوجل کا قطعی حکم ہے، چنانچہ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے کہا: پھر جایئے، لیکن میں نے جان لیا تھا کہ یہ اللہ کا قطعی یعنی حتمی فیصلہ ہے، چنانچہ میں پھر واپس نہیں گیا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 451]
451 ۔ اردو حاشیہ: شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت اس سیاق سے منکر ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس روایت کے طریق کے متعلق فرماتے ہیں: «فیھا عرابة ونکارة جدا» اس طریق میں سخت غرابت و نکارت ہے۔ اس کی سند میں ایک تو یزید بن عبدالرحمٰن بن ابی مالک دمشقی ہے جو صدوق ہے لیکن کبھی کبھار وہم کا شکار ہو جاتا تھا، دوسرے اس سے روایت کرنے والے سعید بن عبدالعزیز تنوخی ہیں، اگرچہ ثقہ ہیں لیکن آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ (تقریب) لہٰذا اس روایت میں مدینہ طیبہ، طورسینا اور بیت اللحم میں اترنے اور وہاں نماز پڑھنے کا واقعہ درست نہیں۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [الإسراء والمعراج للالباني، ص: 44]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 451   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3346  
´سورۃ الم نشرح سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ اپنی قوم کے ایک شخص مالک بن صعصہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بیت اللہ کے پاس نیم خوابی کے عالم میں تھا (کچھ سو رہا تھا اور کچھ جاگ رہا تھا) اچانک میں نے ایک بولنے والے کی آواز سنی، وہ کہہ رہا تھا تین آدمیوں میں سے ایک (محمد ہیں) ۱؎، پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں زمزم کا پانی تھا، اس نے میرے سینے کو چاک کیا یہاں سے یہاں تک، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس رضی الله عنہ سے کہا: کہاں تک؟ انہوں نے کہا: آپ نے فرمایا: پیٹ کے نیچے تک، پھر آپ نے فرمایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3346]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان تین میں ایک جعفر،
ایک حمزہ اور ایک نبیﷺتھے۔

2؎:
شق صدر کا واقعہ کئی بار ہوا ہے،
انہی میں سے ایک یہ واقعہ ہے۔

3؎:
یہ قصہ اسراء اورمعراج کا ہے جو بہت معروف ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3346   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.