الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
حدیث نمبر: 3724
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن بكير بن مسمار، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص، عن ابيه، قال: امر معاوية بن ابي سفيان سعدا , فقال: ما يمنعك ان تسب ابا تراب؟ قال: اما ما ذكرت ثلاثا قالهن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلن اسبه لان تكون لي واحدة منهن احب إلي من حمر النعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لعلي وخلفه في بعض مغازيه، فقال له علي: يا رسول الله تخلفني مع النساء والصبيان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى، إلا انه لا نبوة بعدي "، وسمعته يقول يوم خيبر: " لاعطين الراية رجلا يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله "، قال: فتطاولنا لها، فقال: " ادعوا لي عليا " , فاتاه وبه رمد فبصق في عينه، فدفع الراية إليه ففتح الله عليه، وانزلت هذه الآية ندع ابناءنا وابناءكم ونساءنا ونساءكم سورة آل عمران آية 61 الآية، دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا , وفاطمة , وحسنا , وحسينا , فقال: " اللهم هؤلاء اهلي ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَمَّرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا , فَقَالَ: مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا تُرَابٍ؟ قَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتَ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَنْ أَسُبَّهُ لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعَلِيٍّ وَخَلَفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تَخْلُفُنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي "، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ: " لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ "، قَالَ: فَتَطَاوَلْنَا لَهَا، فَقَالَ: " ادْعُوا لِي عَلِيًّا " , فَأَتَاهُ وَبِهِ رَمَدٌ فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ، فَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ سورة آل عمران آية 61 الْآيَةَ، دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا , وَفَاطِمَةَ , وَحَسَنًا , وَحُسَيْنًا , فَقَالَ: " اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ نے ان کو امیر بنایا تو پوچھا کہ تم ابوتراب (علی) کو برا بھلا کیوں نہیں کہتے؟ انہوں نے کہا: جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد رہیں گی جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں انہیں ہرگز برا نہیں کہہ سکتا، اور ان میں سے ایک کا بھی میرے لیے ہونا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میرے لیے سرخ اونٹ ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علی رضی الله عنہ سے فرماتے ہوئے سنا ہے (آپ نے انہیں اپنے کسی غزوہ میں مدینہ میں اپنا جانشیں مقرر کیا تھا تو آپ سے علی رضی الله عنہ نے کہا تھا: اللہ کے رسول! آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں)، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم میرے لیے اسی طرح ہو جس طرح ہارون موسیٰ کے لیے تھے، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد نبوت نہیں ۱؎، اور دوسری یہ کہ میں نے آپ کو خیبر کے دن فرماتے ہوئے سنا کہ آج میں پرچم ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اس سے اللہ اور اس کے رسول بھی محبت کرتے ہیں، سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں تو ہم سب نے اس کے لیے اپنی گردنیں بلند کیں، یعنی ہم سب کو اس کی خواہش ہوئی، آپ نے فرمایا: علی کو بلاؤ، چنانچہ وہ آپ کے پاس آئے اور انہیں آشوب چشم کی شکایت تھی تو آپ نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھ میں لگایا اور پرچم انہیں دے دیا چنانچہ اللہ نے انہیں فتح دی، تیسری بات یہ ہے کہ جب آیت کریمہ «ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم» اتری۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی الله عنہم کو بلایا اور فرمایا: اے اللہ! یہ میرے اہل ہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 9 (3706)، والمغازي 78 (4416)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 4 (2404/32)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (121)، (تحفة الأشراف: 3872)، و مسند احمد (1/170، 177) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ علی رضی الله عنہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت قریب ہونے کی دلیل ہے، نیز یہ ختم نبوت کی ایک واضح دلیل ہے۔
۲؎: اس آیت مباہلہ میں جن لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل مراد لیا گیا ان میں علی رضی الله عنہ بھی شامل کئے گئے، «ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء» (الجمعة: ۴)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

   جامع الترمذي3724سعد بن مالكلا نبوة بعدي يوم خيبر لأعطين الراية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3724  
´باب`
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ نے ان کو امیر بنایا تو پوچھا کہ تم ابوتراب (علی) کو برا بھلا کیوں نہیں کہتے؟ انہوں نے کہا: جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد رہیں گی جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں انہیں ہرگز برا نہیں کہہ سکتا، اور ان میں سے ایک کا بھی میرے لیے ہونا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میرے لیے سرخ اونٹ ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علی رضی الله عنہ سے فرماتے ہوئے سنا ہے (آپ نے انہیں اپنے کسی غزوہ میں مدینہ میں اپنا جانشیں مقرر کیا تھا تو آپ سے علی رضی الله عنہ نے کہا تھا: اللہ کے رسول! آپ مجھے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3724]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ علی رضی اللہ عنہ کے آپ ﷺ سے نہایت قریب ہو نے کی دلیل ہے،
نیز یہ ختم نبوت کی ایک واضح دلیل ہے۔

2؎:
اس آیت مباہلہ میں جن لوگوں کو نبی اکرمﷺ کا اہل مراد لیا گیا ان میں علی رضی اللہ عنہ بھی شامل کئے گئے۔
﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء﴾  (الجمعة:4)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3724   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.