الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز میں سہو و نسیان سے متعلق احکام و مسائل
The Book on As-Shw
181. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي النِّعَالِ
181. باب: جوتے پہن کر نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 400
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن سعيد بن يزيد ابي مسلمة، قال: قلت لانس بن مالك: " اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في نعليه؟ قال: نعم "، قال: وفي الباب عن عبد الله بن مسعود , وعبد الله بن ابي حبيبة , وعبد الله بن عمر , وعمرو بن حريث , وشداد بن اوس , واوس الثقفي , وابي هريرة، وعطاء رجل من بني شيبة. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي مَسْلَمَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: " أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي نَعْلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍ , وَعَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ , وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ , وَأَوْسٍ الثَّقَفِيِّ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَطَاءٍ رَجُلٍ مِنْ بَنِي شَيْبَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
سعید بن یزید (ابو مسلمہ) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن ابی حبیبۃ، عبداللہ بن عمرو، عمرو بن حریث، شداد بن اوسثقفی، ابوہریرہ رضی الله عنہم اور عطاء سے بھی جو بنی شیبہ کے ایک فرد تھے احادیث آئی ہیں،
۳- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 24 (386)، واللباس 37 (5850)، صحیح مسلم/المساجد 14 (555)، سنن النسائی/القبلة 24 (776)، (تحفة الأشراف: 866)، مسند احمد (3/100، 166، 189)، سنن الدارمی/الصلاة 103 (1417) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہودیوں کی مخالفت کرو وہ جوتوں میں نماز نہیں پڑھتے، علماء کہتے ہیں کہ اگر جوتوں میں نجاست نہ لگی ہو تو ان میں نماز یہودیوں کی مخالفت کے پیش نظر مستحب ہو گی ورنہ اسے رخصت پر محمول کیا جائے گا، مساجد کی تحسین و طہارت کے پیش نظر جہاں دریاں، قالین وغیرہ بچھے ہوں وہاں جوتے اُتار کر نماز پڑھنی چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح صفة الصلاة / الأصل

   صحيح البخاري5850أنس بن مالكيصلي في نعليه
   صحيح البخاري386أنس بن مالكيصلي في نعليه
   صحيح مسلم1236أنس بن مالكيصلي في النعلين قال نعم
   جامع الترمذي400أنس بن مالكيصلي في نعليه
   سنن النسائى الصغرى776أنس بن مالكيصلي في النعلين قال نعم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5850  
´صاف چمڑے کی جوتی پہننا`
«. . . عَنْ سَعِيدٍ أَبِي مَسْلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا،" أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي نَعْلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ . . .»
. . . سعید بن ابی مسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ: 5850]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5850 کا باب: «بَابُ النِّعَالِ السِّبْتِيَّةِ وَغَيْرِهَا:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
یہاں پر ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت بہت مشکل ہے، کیوں کہ باب میں ان جوتیوں کا ذکر ہے جس پر سے بال نکال دیئے گئے ہوں، مگر تحت الباب صرف جوتیوں کا ذکر ہے، اس میں بالوں کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، «سبتيّة» النعال کی صفت ہے، «سب» کے معنی ہیں کاٹنے کے، «نعال سبتيّة» سے ایسے چمڑے کے جوتے مراد ہیں جن کی کھال سے بال صاف کر کے جوتے بنائے گئے ہوں، زمانہ قدیم میں کھال سے بنے ہوئے دونوں قسم کے جوتوں کا رواج تھا، کھال سے بال صاف کر کے جوتے بنائے جاتے۔ مالدار حضرات ایسے ہی جوتے استعمال کرتے اور بال صاف کیے بغیر بھی بنائے جاتے۔
«سِبْتِيَّة» (سین کے کسرہ، باء کے سکون، تاء کے کسرہ اور یاء مفتوحہ مشددہ کے ساتھ ہے)
شیخ محمد داؤد راز رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
اس روایت کی تطبیق ترجمہ باب سے مشکل ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس سے استدلال کیا کیوں کہ جوتا عام طور پر دونوں طرح کے جوتے کو شامل ہے، یعنی اس چمڑے کے جوتے کو جس پر بال ہوں اور اس کو بھی جس کے بال نکال دیئے گئے ہوں۔
محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
«و عندي أن المصنف إنها ترجم بالنعال السبتية لما يتوهم من بعض الروايات من كراهيتها و لما قال عبيد بن جريج كما فى رواية الباب من قوله: لم أر أحدا يصنعها فأشار المصنف بالترجمة إلى مشروعيتها.» (2)
یعنی بستی جوتیوں کو بعض لوگوں نے مکروہ کہا ہے، اور بعض روایات سے بھی اس کی کراہیت کا وہم ہوتا ہے۔ روایت باب کے اندر عبید بن جریج نے بھی کہا: میں نے کسی کو یہ جوتے بناتے ہوئے نہیں دیکھا، اس قول سے بھی کراہیت کا وہم کسی کو ہو سکتا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ترجمۃ الباب سے اس کی بلا کراہیت مشروعیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں «سبتيّة» کے جائز ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور تحت الباب جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے حدیث ذکر فرمائی ہے اس میں ایک عام اشارہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتیاں پہن کر نماز پڑھی، امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنے کا اشارہ فرما رہے ہیں کہ جس طرح ہر جوتی میں نماز ادا کی جا سکتی ہے تو بعین اسی طرح سے «سبتيّة» کی جوتی بھی جائز ہے، کیوں کہ دونوں طرح کے جوتے پہننا جائز ہے، اور جن حضرات نے «سبتيّة» جوتیوں کو مکروہ جانا ہے، ان کا رد بھی قیاس کے ذریعے یہاں مقصود ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 171   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 776  
´جوتوں میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ابوسلمہ (ان کا نام سعید بن یزید بصریٰ ہے اور وہ ثقہ ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتوں میں نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں (پڑھتے تھے)۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 776]
776 ۔ اردو حاشیہ:
➊ جوتوں میں نماز پڑھی جا سکتی ے مگر چند باتیں قابل لحاظ ہیں: جوتے پاک اور صاف ستھرے ہوں۔ بہتر ہے کہ جوتے اس قسم کے ہوں کہ ان میں سجدے اور قعدے میں دقت پیش نہ آئے، یعنی ان پر بیٹھنے میں تکلیف نہ ہو۔ یہ سب کچھ تب ہے جب مسجد جوتوں سے میلی نہ ہوتی ہو۔ اگر فرش جوتوں سے میلا ہوتا ہو یا صفیں ٹوٹتی ہوں تو جوتوں سمیت مسجد میں نماز نہ پڑھی جائے، البتہ کھلی جگہ (مسجد سے باہر) یا کچے فرش پر کوئی حرج نہیں۔ چونکہ آج کل مساجد میں عموماً فرش بنے ہوتے ہیں، صفیں، دریاں اور قالین بچھے ہوتے ہیں، لہٰذا جوتوں میں نماز پڑھنے سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ مساجد میں میل کچیل اور آلودگی نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مساجد کچی ہوتی تھیں۔
➋ ابوداود کی ایک روایت میں جوتے پہن کر نماز پڑھنے کا امر بھی ہے۔ دیکھیے: [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 650، 652]
لیکن وہ امر استحباب پر محمول ہے کیونکہ ابوداود ہی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ننگے پاؤں بھی نماز پڑھا کرتے تھے۔ دیکھیے: [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 648]
یہ امر یہود کی مخالفت کی بنا پر ہے۔ یہود سے آپ کی موافقت اور مخالفت وقتی چیز ہے۔ یہود کا نماز میں جوتے پہننے کو ناپسند کرنا شاید اس بنا پر ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے موقع پر موسیٰ علیہ السلام کو وادیٔ مقدس میں جوتے اتارنے کا حکم دیا گیا تھا: « ﴿فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِي الْمُقَدَّسِ طُوًى﴾ » [طه 12: 20]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 776   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 400  
´جوتے پہن کر نماز پڑھنے کا بیان۔`
سعید بن یزید (ابو مسلمہ) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں پڑھتے تھے۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 400]
اردو حاشہ:
1؎:
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
یہودیوں کی مخالفت کرو وہ جوتوں میں نماز نہیں پڑھتے،
علماء کہتے ہیں کہ اگر جوتوں مں نجاست نہ لگی ہو تو ان میں نماز یہودیوں کی مخالفت کے پیش نظر مستحب ہو گی ورنہ اسے رخصت پر محمول کیا جائے گا،
مساجد کی تحسین و طہارت کے پیش نظر جہاں دریاں،
قالین وغیرہ بچھے ہوں وہاں جوتے اُتار کر نماز پڑھنی چاہئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 400   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.