الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: سفر کے احکام و مسائل
The Book on Traveling
41. باب مَا جَاءَ فِي التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ
41. باب: سفر میں نفل پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 552
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد المحاربي يعني الكوفي، حدثنا علي بن هاشم، عن ابن ابي ليلى، عن عطية، ونافع، عن ابن عمر، قال: " صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم في الحضر والسفر، فصليت معه في الحضر الظهر اربعا وبعدها ركعتين، وصليت معه في السفر الظهر ركعتين، وبعدها ركعتين والعصر ركعتين ولم يصل بعدها شيئا، والمغرب في الحضر والسفر سواء ثلاث ركعات لا تنقص في الحضر ولا في السفر هي وتر النهار وبعدها ركعتين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن. سمعت محمدا، يقول: ما روى ابن ابي ليلى حديثا اعجب إلي من هذا، ولا اروي عنه شيئا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ يَعْنِي الْكُوفِيَّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ، وَنَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي الْحَضَرِ الظُّهْرَ أَرْبَعًا وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي السَّفَرِ الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ وَلَمْ يُصَلِّ بَعْدَهَا شَيْئًا، وَالْمَغْرِبَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ سَوَاءً ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ لَا تَنْقُصُ فِي الْحَضَرِ وَلَا فِي السَّفَرِ هِيَ وِتْرُ النَّهَارِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: مَا رَوَى ابْنُ أَبِي لَيْلَى حَدِيثًا أَعْجَبَ إِلَيَّ مِنْ هَذَا، وَلَا أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حضر اور سفر دونوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، میں نے آپ کے ساتھ حضر میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں، اور اس کے بعد دو رکعتیں، اور سفر میں آپ کے ساتھ ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں، اور اس کے بعد کوئی چیز نہیں پڑھی۔ اور مغرب کی سفر و حضر دونوں ہی میں تین رکعتیں پڑھیں۔ نہ حضر میں کوئی کمی کی نہ سفر میں، یہ دن کی وتر ہے اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابن ابی لیلیٰ نے کوئی ایسی حدیث روایت نہیں کی جو میرے نزدیک اس سے زیادہ تعجب خیز ہو، میں ان کی کوئی روایت نہیں لیتا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7337 و8428) (ضعیف الإسناد، منکر المتن) (اس کے راوی ”محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ“ ضعیف ہیں، اور یہ حدیث صحیح احادیث کے خلاف ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد، منكر المتن انظر ما قبله (551)

قال الشيخ زبير على زئي: (552) إسناده ضعيف
محمد ابن أبى ليلي: ضعيف (تقدم:194)

   صحيح البخاري1101عبد الله بن عمرصحبت النبي فلم أره يسبح في السفر وقال الله جل ذكره لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة
   صحيح البخاري1102عبد الله بن عمرلا يزيد في السفر على ركعتين
   صحيح البخاري1082عبد الله بن عمرصليت مع النبي بمنى ركعتين وأبي بكر وعمر ومع عثمان صدرا من إمارته ثم أتمها
   صحيح مسلم1580عبد الله بن عمرفي السفر فما رأيته يسبح ولو كنت مسبحا لأتممت وقد قال الله لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة
   صحيح مسلم1592عبد الله بن عمرصلى رسول الله بمنى ركعتين وأبو بكر بعده وعمر بعد أبي بكر وعثمان صدرا من خلافته ثم إن عثمان صلى بعد أربعا فكان ابن عمر إذا صلى مع الإمام صلى أربعا وإذا صلاها وحده صلى ركعتين
   صحيح مسلم1590عبد الله بن عمرصلى صلاة المسافر بمنى وغيره ركعتين
   صحيح مسلم1594عبد الله بن عمرصلى النبي بمنى صلاة المسافر و أبو بكر وعمر وعثمان ثماني سنين قال حفص وكان ابن عمر يصلي بمنى ركعتين ثم يأتي فراشه فقلت أي عم لو صليت بعدها ركعتين قال لو فعلت لأتممت الصلاة
   صحيح مسلم1579عبد الله بن عمرفي السفر فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله وصحبت أبا بكر فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله وصحبت عمر فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله ثم صحبت عثمان فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله وقد قال الله لقد كان لكم في رسول الله
   جامع الترمذي552عبد الله بن عمرصليت مع النبي في الحضر والسفر فصليت معه في الحضر الظهر أربعا وبعدها ركعتين وصليت معه في السفر الظهر ركعتين وبعدها ركعتين والعصر ركعتين ولم يصل بعدها شيئا والمغرب في الحضر والسفر سواء ثلاث ركعات لا تنقص في الحضر ولا في السفر هي وتر النها
   جامع الترمذي551عبد الله بن عمرصليت مع النبي الظهر في السفر ركعتين وبعدها ركعتين
   جامع الترمذي544عبد الله بن عمريصلون الظهر والعصر ركعتين ركعتين لا يصلون قبلها ولا بعدها
   سنن النسائى الصغرى1452عبد الله بن عمرصلى رسول الله بمنى ركعتين
   سنن النسائى الصغرى1451عبد الله بن عمرصليت مع النبي بمنى ركعتين ومع أبي بكر ركعتين ومع عمر ركعتين
   سنن النسائى الصغرى1458عبد الله بن عمرلا يزيد في السفر على ركعتين لا يصلي قبلها ولا بعدها
   سنن النسائى الصغرى1459عبد الله بن عمرلا يزيد في السفر على الركعتين
   سنن النسائى الصغرى458عبد الله بن عمرالله أمرنا أن نصلي ركعتين في السفر
   سنن ابن ماجه1193عبد الله بن عمريصلي في السفر ركعتين لا يزيد عليهما وكان يتهجد من الليل قلت وكان يوتر قال نعم
   سنن ابن ماجه1071عبد الله بن عمرلم يزد على ركعتين في السفر حتى قبضه الله ثم صحبت أبا بكر فلم يزد على ركعتين ثم صحبت عمر فلم يزد على ركعتين ثم صحبت عثمان فلم يزد على ركعتين حتى قبضهم الله والله يقول لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة
   سنن ابن ماجه1067عبد الله بن عمرإذا خرج من هذه المدينة لم يزد على ركعتين حتى يرجع إليها
   المعجم الصغير للطبراني313عبد الله بن عمر عن صلاة السفر ، فقال : ركعتان نزلتا من السماء ، فإن شئتم فردوها
   المعجم الصغير للطبراني278عبد الله بن عمر صليت مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فى السفر ركعتين ، ومع أبى بكر ركعتين ، ومع عمر ركعتين ، ثم تفرقت بكم السبل فوالله لوددت أن أحظى من أربع ركعات ركعتين متقبلتين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 458  
´نماز کیسے فرض ہوئی؟`
امیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسید سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ آپ نماز (بغیر خوف کے) کیسے قصر کرتے ہیں؟ حالانکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: «‏فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم‏» اگر خوف کی وجہ سے تم لوگ نماز قصر کرتے ہو تو تم پر کوئی حرج نہیں (النساء: ۱۰۱) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم نے کہا: بھتیجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت آئے جب ہم گمراہ تھے، آپ نے ہمیں تعلیم دی، آپ کی تعلیمات میں سے یہ بھی تھا کہ ہم سفر میں دو رکعت نماز پڑھیں، شعیثی کہتے ہیں کہ زہری اس حدیث کو عبداللہ بن ابوبکر کے طریق سے روایت کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 458]
458 ۔ اردو حاشیہ:
➊اعتراض یہ تھا کہ قرآن مجید میں قصر صلاۃ کے لیے خوف کی قید مذکور ہے جب کہ یہ لوگ بغیر خوف کے قصر کر رہے ہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اصولی جواب دیا کہ ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اصل ہے۔ قرآن مجید کا مطلب بھی وہی معتبر ہے جو آپ ارشاد فرمائیں کیونکہ قرآن مجید بھی تو آپ ہی لے کر آئے ہیں۔ آپ ہی اس کا صحیح مفہوم جانتے ہیں۔ آپ نے بارہا سفر میں قصر کی، حالانکہ کوئی خوف نہیں تھا، حتیٰ کہ حجۃ الوداع میں بھی قصر کی جب کہ آپ کی حکو مت قائم ہو چکی تھی۔
➋حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس اصولی جواب کے علاوہ بھی جوابات دیے گئے ہیں، مثلاً 1۔ جب قصر کی آیت اتری، اس وقت خوف بھی تھا، لہٰذا آیت میں واقعہ کی مناسبت سے خوف کا ذکر کر دیا گیا ورنہ یہ شرط مقصود نہ تھی، سفر ہی شرط تھا۔ 2۔ قرآن مجید میں صلاۃ خوف ہی کا ذکر ہے۔ صلاۃ سفر کا ذکر صرف احادیث میں ہے۔ قرآن مجید میں سفر کی نماز کا ذکر ہی نہیں۔ 3۔ (ان خفتم۔۔۔ الخ) سے صلاۃ خوف کا ذکر ہے اور اس سے پہلے صلاۃ سفر مذکور ہے، گویا (ان خفتم) کا تعلق ماقبل سے نہیں مابعد سے ہے، دونوں الگ الگ جملے ہیں۔
➌ امرنا سے مراد وجوبی حکم نہیں بلکہ استحبابی حکم مراد ہے جیسا کہ پیچھے گزرا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 458   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1067  
´سفر میں نماز قصر کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس شہر سے باہر نکلتے تو دو رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے یہاں تک کہ آپ یہاں لوٹ آتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1067]
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ حدیث میں قصر نماز کی مسافت کی بابت اجمال ہے جبکہ صحیح مسلم کی روایت میں تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کا سفر کرتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 691)
 حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت فرماتے ہیں کہ مسافت قصر کے بارے میں صحیح ترین اور صریح ترین روایت یہی ہے۔ (فتح الباري، 567/2)
 تاہم اس مسئلہ کی بابت تمام روایات اوراقوال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز قصر کرنے کےلئے مذکورہ حدیث میں جو مسافت بیان ہوئی ہے وہ محض احتیاط کی بنا پر ہے۔
کہ آدمی اگر تین فرسخ یعنی 23، 22 کلومیٹر شہر کی حدود سے باہر جائے تو وہ نماز قصر ادا کرسکتا ہے۔
کیونکہ اس حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ تین میل یا تین فرسخ سے کم سفر کرتے تو اس میں قصر نہ کرتے اور نہ ہی شریعت میں مسافت قصر کی کوئی تحدید کی گئی ہے۔
بلکہ عرف میں اگر دو یا تین میل کی مسافت کو بھی سفر کہا جاتا ہو تو شرعاً اس میں بھی قصر جائز ہوگی۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اسی مسافت قصر کی بابت فرماتے ہیں۔
کہ نماز قصر کی ابتداء کے بارے میں صحیح یہ ہے کہ اس کےلئے کسی مسافت کی قید نہیں بلکہ شہر کی حدود پار کرنے سے ہی سے قصر شروع ہوجاتی ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (فتح الباری 567/2)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1067   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 552  
´سفر میں نفل پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حضر اور سفر دونوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، میں نے آپ کے ساتھ حضر میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں، اور اس کے بعد دو رکعتیں، اور سفر میں آپ کے ساتھ ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں، اور اس کے بعد کوئی چیز نہیں پڑھی۔ اور مغرب کی سفر و حضر دونوں ہی میں تین رکعتیں پڑھیں۔ نہ حضر میں کوئی کمی کی نہ سفر میں، یہ دن کی وتر ہے اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 552]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(اس کے راوی محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ضعیف ہیں،
اور یہ حدیث صحیح احادیث کے خلاف ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 552   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 544  
´سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم کے ساتھ سفر کیا، یہ لوگ ظہر اور عصر دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھتے اور نہ اس کے بعد۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: اگر میں اس سے پہلے یا اس کے بعد (سنت) نماز پڑھتا تو میں انہی (فرائض) کو پوری پڑھتا۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 544]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث 551 پر مؤلف کے یہاں آ رہی ہے،
اور ضعیف و منکر ہے۔

2؎:
یہ صحیح بخاری کی روایت ہے،
اور بیہقی کی روایت ہے کہ انہوں نے سبب یہ بیان کیا کہ پوری پڑھنی میرے لیے شاق نہیں ہے،
گویا سفر میں قصر رخصت ہے اور اتمام جائز ہے،
اور یہی راجح قول ہے۔
رخصت کے اختیار میں سنت پرعمل اور اللہ کی رضا حاصل ہوتے ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 544   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.