الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
67. بَابٌ في كَرَاهَةِ رَدِّ السَّلاَمِ غَيْرَ مُتَوَضِّئٍ
67. باب: بغیر وضو سلام کا جواب دینے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 90
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي , ومحمد بن بشار , قالا: حدثنا ابو احمد محمد بن عبد الله الزبيري، عن سفيان، عن الضحاك بن عثمان، عن نافع، عن ابن عمر " ان رجلا سلم على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يبول، فلم يرد عليه ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وإنما يكره هذا عندنا، إذا كان على الغائط والبول، وقد فسر بعض اهل العلم ذلك، وهذا احسن شيء روي في هذا الباب. قال ابو عيسى: وفي الباب عن المهاجر بن قنفذ، وعبد الله بن حنظلة، وعلقمة بن الفغواء، وجابر، والبراء.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَليٍّ , وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ " أَنَّ رَجُلًا سَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبُولُ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا يُكْرَهُ هَذَا عِنْدَنَا، إِذَا كَانَ عَلَى الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ ذَلِكَ، وَهَذَا أَحَسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ الْمُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ الْفَغْوَاءِ، وَجَابِرٍ، وَالْبَرَاءِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور ہمارے نزدیک سلام کا جواب دینا اس صورت میں مکروہ قرار دیا جاتا ہے جب آدمی پاخانہ یا پیشاب کر رہا ہو، بعض اہل علم نے اس کی یہی تفسیر کی ہے ۱؎،
۲- یہ سب سے عمدہ حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے،
۳- اور اس باب میں مہاجر بن قنفذ، عبداللہ بن حنظلہ، علقمہ بن شفواء، جابر اور براء بن عازب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض28 (370)، سنن ابی داود/ الطہارة 8 (16)، سنن النسائی/الطہارة 33 (37)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 27 (353)، ویأتی عند المؤلف برقم: 2720 (تحفة الأشراف: 7696) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور یہی راجح ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پیشاب کی حالت میں ہونے کی وجہ سے جواب نہیں دیا، نہ کہ وضو کے بغیر سلام کا جواب جائز نہیں، اور جن حدیثوں میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فراغت کے بعد وضو کیا اور پھر آپ نے جواب دیا تو یہ استحباب پر محمول ہے، نیز یہ بات آپ کو خاص طور پر پسند تھی کہ آپ اللہ کا نام بغیر طہارت کے نہیں لیتے تھے، اس حدیث سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے کہ پائخانہ پیشاب کرنے والے پر سلام ہی نہیں کرنا چاہیئے، یہ حکم وجوبی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الإرواء (54)، صحيح أبي داود (12 و 13)

   سنن أبي داود16عبد الله بن عمرلم يرد عليه
   سنن النسائى الصغرى37عبد الله بن عمرسلم عليه فلم يرد
   جامع الترمذي90عبد الله بن عمريبول فلم يرد عليه
   سنن أبي داود330عبد الله بن عمرلم يمنعني أن أرد عليك السلام إلا أني لم أكن على طهر
   سنن أبي داود331عبد الله بن عمرلم يرد عليه رسول الله حتى أقبل على الحائط فوضع يده على الحائط ثم مسح وجهه ويديه ثم رد رسول الله على الرجل السلام
   سنن ابن ماجه353عبد الله بن عمريبول فسلم عليه فلم يرد عليه
   صحيح مسلم823عبد الله بن عمررجلا مر ورسول الله يبول فسلم فلم يرد عليه
   جامع الترمذي2720عبد الله بن عمرسلم على النبي وهو يبول فلم يرد عليه يعني السلام

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 37  
´پیشاب کرنے والے کو سلام کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے، تو اس نے آپ کو سلام کیا مگر آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 37]
37۔ اردو حاشیہ:
➊ نجاست والی حالت میں اللہ کا ذکرمناسب نہیں، اس لیے پیشاب اور پاخانہ کرتے ہوئے سلام کا جواب دینا اور ذکر و اذکار کرنا درست نہیں۔ جب وہ جواب نہیں دے سکتا تو اسے سلام بھی نہیں کہنا چاہیے، گویا جس حالت میں سلام کا جواب دینا منع ہے اس حالت میں اسے سلام کہنا بھی درست نہیں، سوائے حالت نماز کے کہ اس میں ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دینا مسنون ہے۔
➋ اہل علم فرماتے ہیں: جس طرح قضائے حاجت کے وقت سلام کا جواب دینا درست نہیں اسی طرح اس حالت میں چھینک مارنے والے کا جواب دینا یا خود الحمد للہ کہنا اور اذان کا جواب دینا بھی درست نہیں۔ ایسے ہی حالت جماع میں ان باتوں سے رکے رہنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 37   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 331  
´حضر (اقامت) میں تیمم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاخانہ سے فارغ ہو کر آئے تو بئر جمل کے پاس ایک آدمی کی ملاقات آپ سے ہو گئی، اس نے آپ کو سلام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ ایک دیوار کے پاس آئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دیوار پر مارا پھر اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے سلام کا جواب دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 331]
331۔ اردو حاشیہ:
مذکورہ دو روایات میں سے بھی دو مرتبہ ہاتھ مارنے والی روایت منکر اور ضعیف ہے اور ایک مرتبہ ہاتھ مارنے والی صحیح، اس لیے قابل عمل حدیث یہی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 331   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 90  
´بغیر وضو سلام کا جواب دینے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 90]
اردو حاشہ:
1؎:
اور یہی راجح ہے کہ آپ ﷺ پیشاب کی حالت میں ہونے کی وجہ سے جواب نہیں دیا،
نہ کہ وضو کے بغیر سلام کا جواب جائز نہیں،
اور جن حدیثوں میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فراغت کے بعد وضو کیا اور پھر آپ نے جواب دیا تو یہ استحباب پر محمول ہے،
نیز یہ بات آپ کو خاص طور پر پسند تھی کہ آپ اللہ کا نام بغیر طہارت کے نہیں لیتے تھے،
اس حدیث سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے کہ پائخانہ پیشاب کرنے والے پر سلام ہی نہیں کرنا چاہئے،
یہ حکم وجوبی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 90   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.