الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث 657 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
صدقات کا بیان
सदक़ा के बारे में
3. صدقات وغیرہ میں عزیز و اقارب کو ترجیح دی جائے
“ सदक़ह सब से क़रीब संबंधी को पहले दिया जाए ”
حدیث نمبر: 287
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
116- وبه قال: كان ابو طلحة اكثر الانصار بالمدينة مالا من نخل، وكان احب امواله إليه بيرحاء وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب. قال انس: فلما انزلت هذه الآية: {لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون} قام ابو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إن الله يقول فى كتابه: {لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون} وإن احب اموالي إلى بيرحاء، وإنها صدقة لله ارجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله حيث شئت. قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بخ، ذلك مال رابح، ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها، وإني ارى ان تجعلها فى الاقربين.“ فقال ابو طلحة: افعل يا رسول الله، فقسمها ابو طلحة فى اقاربه وبني عمه.116- وبه قال: كان أبو طلحة أكثر الأنصار بالمدينة مالا من نخل، وكان أحب أمواله إليه بيرحاء وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب. قال أنس: فلما أنزلت هذه الآية: {لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون} قام أبو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إن الله يقول فى كتابه: {لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون} وإن أحب أموالي إلى بيرحاء، وإنها صدقة لله أرجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله حيث شئت. قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بخ، ذلك مال رابح، ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها، وإني أرى أن تجعلها فى الأقربين.“ فقال أبو طلحة: أفعل يا رسول الله، فقسمها أبو طلحة فى أقاربه وبني عمه.
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ (سیدنا) انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انصار مدینہ میں سے (سیدنا) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ مالدار  تھے کہ ان کے کھجور کے باغات تھے اور انہیں ان میں سے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پسند تھا جو مسجد کے سامنے تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (باغ) میں تشریف لے جاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی « لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ» [ آل عمران: 92]  تم اس وقت نیکی (کے درجے) تک نہیں پہنچ سکتے جب تک (اس کے راستے میں) وہ نہ خرچ کر دو جسے تم  پسند کرتے ہو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: یا رسول اللہ! اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: « لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ» اور مجھے اپنے اموال میں سے بیرحاء (کا باغ) سب سے زیادہ پسند ہے اور یہ (اب) اللہ کے لئے صدقہ ہے، مجھے امید ہے کہ یہ اللہ کے دربار میں میرے لئے نیکی اور ذخیرہ ہو گا، یا رسول اللہ! آ پ جیسے چاہیں اسے استعمال کریں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ! یہ نفع بخش مال ہے، یہ نفع بخش مال ہے، میں نے تمہاری بات سنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرو، تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ! میں اسی طرح کرتا ہوں، پھر اسے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے رشتہ داروں اور اپنے چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا ۔
इसी सनद के साथ रिवायत है कि (हज़रत) अनस रज़ि अल्लाहु अन्ह ने फ़रमाया ! अंसार मदीना में से (हज़रत) अबु तल्हा रज़ि अल्लाहु अन्ह सब से ज़्यादा धनी थे कि उन के खजूर के बाग़ थे और उन्हें इन में से बीरहाअ का बाग़ सब से ज़्यादा पसंद था जो मस्जिद के सामने था रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम इस में जाते और उस का मीठा पानी पीते थे, हज़रत अनस रज़ि अल्लाहु अन्ह ने कहा ! जब ये आयत उतरी «  لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ » [आल इमरान: 92] “तुम उस समय तक नेकी (के दर्जे) नहीं पहुंच सकते जब तक (उस के रास्ते में) वह न ख़र्च कर दो जिसे तुम पसंद करते हो” अबू तल्हा रज़ि अल्लाहु अन्ह ने रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास आ कर कहा ! या रसूल अल्लाह ! अल्लाह अपनी किताब में कहता है ! «  لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ » और मुझे अपने माल में से बीरहाअ (का बाग़) सब से ज़्यादा पसंद है और यह अब अल्लाह के लिए सदक़ा है, मुझे उम्मीद है कि ये अल्लाह के दरबार में मेरे लिए नेकी का भंडार हो गा, या रसूल अल्लाह ! आप जैसे चाहें इसे इस्तेमाल करें उन्हों ने कहा कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “वाह ! ये लाभदायक माल है, ये लाभदायक माल है, मैं ने तुम्हारी बात सुनी है और में समझता हूँ कि तुम इसे अपने रिश्ता दारों में ख़र्च करो”, तो अबू तल्हा रज़ि अल्लाहु अन्ह ने कहा ! या रसूल अल्लाह ! मैं इसी तरह करता हूँ, फिर इसे अबू तल्हा रज़ि अल्लाहु अन्ह ने अपने रिश्ता दारों और अपने चचा की औलाद में बांट दिया।

تخریج الحدیث: «116- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 995/2، 996 ح 1940، ك 58 ب 1 ح 2) التمهيد 198/1، الاستذكار: 1877، و أخرجه البخاري (2752، 1461) ومسلم (998/42) من حديث مالك به»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

   صحيح البخاري5611أنس بن مالكنزلت لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون
   صحيح البخاري2752أنس بن مالكأرى أن تجعلها في الأقربين قال أبو طلحة أفعل يا رسول الله فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه
   صحيح البخاري2318أنس بن مالكذلك مال رائح قد سمعت ما قلت فيها وأرى أن تجعلها في الأقربين قال أفعل يا رسول الله فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه
   صحيح البخاري4554أنس بن مالكذلك مال رايح ذلك مال رايح وقد سمعت ما قلت وإني أرى أن تجعلها في الأقربين
   صحيح البخاري2769أنس بن مالكلن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون
   صحيح البخاري1461أنس بن مالكذلك مال رابح ذلك مال رابح وقد سمعت ما قلت وإني أرى أن تجعلها في الأقربين فقال أبو طلحة أفعل يا رسول الله فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه
   صحيح مسلم2315أنس بن مالكذلك مال رابح ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها وإني أرى أن تجعلها في الأقربين
   صحيح مسلم2316أنس بن مالكاجعلها في قرابتك
   جامع الترمذي2997أنس بن مالكاجعله في قرابتك
   سنن أبي داود1689أنس بن مالكاجعلها في قرابتك
   سنن النسائى الصغرى3632أنس بن مالكاجعلها في قرابتك
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم287أنس بن مالكذلك مال رابح، ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها، وإني ارى ان تجعلها فى الاقربين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 287  
´نیکی، صلہ رحمی، حسنِ سلوک اور صدقات میں سب سے پہلے رشتہ داروں کو ترجیح `
«. . . رسول الله صلى الله عليه وسلم بخ، ذلك مال رابح، ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها، وإني ارى ان تجعلها فى الاقربين . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ! یہ نفع بخش مال ہے، یہ نفع بخش مال ہے، میں نے تمہاری بات سنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 287]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1461، 2752، و مسلم 2315/998، من حديث مالك به]

تفقه:
➊اس حدیث میں سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی زبردست فضیلت ہے جنہوں نے اپنا محبوب ترین مال اللہ کے راستے میں خرچ کر دیا۔
➋ صحابہ کرام ہر وقت قرآن و حدیث پر اپنے اموال اور اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
➌ نیکی، صلہ رحمی، حسن سلوک اور صدقات میں سب سے پہلے رشتہ داروں کو ترجیح دینی چاہئے اور یہی افضل ہے۔
➍ مال سے محبت فطری امر ہے بشرطیکہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔ اسی طرح باغات وغیرہ بنانا اور علمائے کرام کا ان سے استفادہ کرنا سب جائز ہے۔
➎ عموم پر عمل جائز ہے اِلا یہ کہ تخصیص کی دلیل ہو۔
➏ جو شخص کوئی چیز صدقہ کر دے تو پھر اسے رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔
➐ اللہ تعالیٰ کے راستے میں بہترین چیز خرچ کرنی چاہئے، وہ خواہ مال ہو یا جان، اس لئے دینی تعلیم کے حصول کے لئے اپنی اولاد میں سے محبوب ترین اور ذہین ترین افراد کا انتخاب کرنا چاہئے۔
➑ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا عمل آیت مبارکہ: «لَنْ تَنَالُوا البِرَّ» کی بہترین تفسیر ہے۔ «سبحان الله»
➒ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا مال انھی کے اقرباء میں تقسیم کرنے کا حکم دیا، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال استغناء ثابت ہوتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 116   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2997  
´سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت: «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» ۱؎ یا «من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا» ۲؎ نازل ہوئی۔ اس وقت ابوطلحہ رضی الله عنہ کے پاس ایک باغ تھا، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باغ اللہ کی رضا کے لیے صدقہ ہے، اگر میں اسے چھپا سکتا (تو چھپاتا) اعلان نہ کرتا ۳؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے رشتہ داروں کے لیے وقف کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2997]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے۔
(آل عمران: 92)

2؎:
ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے (البقرۃ: 245)

3؎:
کیونکہ چھپا کر صدقہ وخیرات کرنا اللہ کو زیادہ پسند ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2997   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1689  
´رشتے داروں سے صلہ رحمی (اچھے برتاؤ) کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» کی آیت نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرا خیال ہے کہ ہمارا رب ہم سے ہمارے مال مانگ رہا ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اریحاء نامی اپنی زمین اسے دے دی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو، تو انہوں نے اسے حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کے درمیان تقسیم کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے محمد بن عبداللہ انصاری سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ابوطلحہ کا نام: زید بن سہل بن اسود بن حرام بن عمرو ابن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن النجار ہے، اور حسان: ثابت بن منذر بن حرام کے بیٹے ہیں، اس طرح ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور حسان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب حرام پر مل جاتا ہے وہی دونوں کے تیسرے باپ (پردادا) ہیں، اور ابی رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: ابی بن کعب بن قیس بن عتیک بن زید بن معاویہ بن عمرو بن مالک بن نجار، اس طرح عمرو: حسان، ابوطلحہ اور ابی تینوں کو سمیٹ لیتے ہیں یعنی تینوں کے جد اعلیٰ ہیں، انصاری (محمد بن عبداللہ) کہتے ہیں: ابی رضی اللہ عنہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے نسب میں چھ آباء کا فاصلہ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1689]
1689. اردو حاشیہ: کہاں یہ جاہلیت کے چچا تائے کی اولاد آپس میں حریف گرانے جاتے ہوں۔اور کہاں یہ محبت والفت کہ پر دادا بلکہ چھٹے باپ کی اولاد اس قدرحسن سلوک۔۔۔کہ قیمتی زمین ان کے نام لگادی۔اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال میں سچ فرمایا۔ <قرآن> هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٢﴾ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الانفال۔6
➋ 63)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1689   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.