الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيفه همام بن منبه کل احادیث 139 :حدیث نمبر
صحيفه همام بن منبه
متفرق
विभिन्न हदीसें
30. قیصر و کسریٰ کی ہلاکت کی پشین گوئی اور لڑائی مکر و فریب کا نام ہے
३०. “ क़ैसर व कसरा की तबाही के बारे में और जंग एक धोका ”
حدیث نمبر: 30
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يهلك كسرى ثم لا كسرى بعده، وقيصر ليهلكن ثم لا يكون قيصر بعده، ولتنفقن كنوزهما في سبيل الله وسمى الحرب خدعة"((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَهْلِكُ كِسْرَى ثُمَّ لا كِسْرَى بَعْدَهُ، وَقَيْصَرُ لَيَهْلِكَنَّ ثُمَّ لا يَكُونُ قَيْصَرُ بَعْدَهُ، وَلَتُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَسَمَّى الْحَرْبَ خُدْعَةً"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسریٰ، یعنی شاہ ایران، ہلاک ہو جائے گا۔ پھر اس کے بعد کوئی (دوسرا) کسریٰ نہ ہو گا۔ (اسی طرح) قیصر، یعنی شاہ روم بھی ہلاک ہو جائے گا۔ پھر اس کے بعد کوئی دوسرا قیصر (پیدا) نہ ہو گا۔ اور تم ضرور بہ ضرور ان دونوں کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کو دھوکہ سے موسوم کیا۔
रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “कसरा, यानी शाहे ईरान, हलाक हो जाए गा। फिर इस के बाद कोई कसरा न होगा, क़ैसर यानी शाहे रोम भी हलाक हो जाए गा। फिर इस के बाद कोई दूसरा क़ैसर न हो गा। और तुम ज़रूर इन दोनों के ख़ज़ाने अल्लाह के रास्ते में ख़र्च करोगे और आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने जंग को धोके का नाम दिया।”

تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الجهاد، باب الحرب خدعة، رقم: 2027، حدثنا عبدالله بن حمد: حدثنا عبدالرزاق: أخبرنا معمر عن همام، عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال:.... - صحيح مسلم: (2236/4-2237)، كتاب الفتن واشراط الساعة، باب لا تقوم الساعة حتىٰ يمر الرجل بقبر الرجل....، رقم: 2918/76، بدون عبارة ”وسمي الحرب خدعة“ حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: حدثنا معمر عن همام بن منبه، قال: لفظ ما حديث أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر أحاديث فيها:.... - شرح السنة: 309/13، وقال: هذا حديث صحيح.»

   صحيح البخاري6630عبد الرحمن بن صخرإذا هلك كسرى فلا كسرى بعده وإذا هلك قيصر فلا قيصر بعده لتنفقن كنوزهما في سبيل الله
   صحيح البخاري3027عبد الرحمن بن صخرهلك كسرى ثم لا يكون كسرى بعده وقيصر ليهلكن ثم لا يكون قيصر بعده لتقسمن كنوزها في سبيل الله الحرب خدعة
   صحيح البخاري3618عبد الرحمن بن صخرإذا هلك كسرى فلا كسرى بعده وإذا هلك قيصر فلا قيصر بعده لتنفقن كنوزهما في سبيل الله
   صحيح البخاري3120عبد الرحمن بن صخرإذا هلك كسرى فلا كسرى بعده وإذا هلك قيصر فلا قيصر بعده لتنفقن كنوزهما في سبيل الله
   صحيح مسلم7327عبد الرحمن بن صخرلا كسرى بعده وإذا هلك قيصر فلا قيصر بعده لتنفقن كنوزهما في سبيل الله
   جامع الترمذي2216عبد الرحمن بن صخرإذا هلك كسرى فلا كسرى بعده وإذا هلك قيصر فلا قيصر بعده لتنفقن كنوزهما في سبيل الله
   صحيفة همام بن منبه30عبد الرحمن بن صخريهلك كسرى ثم لا كسرى بعده وقيصر ليهلكن ثم لا يكون قيصر بعده لتنفقن كنوزهما في سبيل الله وسمى الحرب خدعة
   المعجم الصغير للطبراني587عبد الرحمن بن صخر إذا هلك كسرى فلا كسرى ، وإذا هلك قيصر فلا قيصر ، والذي نفسي بيدي ، لتنفقن كنوزهما فى سبيل الله عز وجل
   مسندالحميدي1125عبد الرحمن بن صخرإذا هلك كسرى فلا كسرى بعده، وإذا هلك قيصر فلا قيصر بعده، والذي نفسي بيده لتنفقن كنوزهما في سبيل الله عز وجل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   30  
´قیصر و کسریٰ کی ہلاکت کی پشین گوئی اور لڑائی مکر و فریب کا نام ہے`
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسریٰ، یعنی شاہ ایران، ہلاک ہو جائے گا۔ پھر اس کے بعد کوئی (دوسرا) کسریٰ نہ ہو گا۔ (اسی طرح) قیصر، یعنی شاہ روم بھی ہلاک ہو جائے گا۔ پھر اس کے بعد کوئی دوسرا قیصر (پیدا) نہ ہو گا۔ اور تم ضرور بہ ضرور ان دونوں کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کو دھوکہ سے موسوم کیا۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 30]
شرح الحديث:
کسریٰ، شاہ ایران کا لقب تھا، سلطنت ایران پر جو بھی حاکم ہوتا اسے 'کسریٰ' کہہ کر پکارا جاتا۔ اور بعینہ قیصر، روم کے سلطان کا لقب تھا۔ جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جو اقتدار حکومت سنبھالتا، اسے "فرعون" کہتے تھے۔ اسی طرح شاہ حبشہ کا لقب "نجاشی" ہوا کرتا تھا۔ اس حدیث میں کسریٰ کے پارہ پارہ ہونے کے ساتھ ساتھ قیصر کی ہلاکت کا بھی ذکر ہے۔ لیکن امام بغوی رحمة الله علیہ نے اپنی کتاب "شرح السنة" میں ایک حدیث ذکر کی ہے، جس میں مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "شاہ ایران کو دعوت اسلامی کے حوالہ سے ایک مکتوب لکھا تو شاہ ایران نے اس مکتوب کو پھاڑ دیا۔ " اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے شاہ روم کو ایک خط لکھا۔ اس نے اس مکتوب کو نگاہ احترام سے دیکھا اور کستوری میں رکھ دیا۔ تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "اس نے اپنی سلطنت کی حفاظت کر لی۔ " یعنی ثابت رکھ لیا۔ [شرح السنة: 310/13]
اس حدیث سے واضح طور پر شاہ روم کے ملک کی تثبیت ثابت ہوتی ہے، جبکہ صحیفہ کی مذکورہ بالا حدیث سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق قیصر کی ہلاکت معلوم ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دونوں مذکورہ حدیثوں میں بظاہر تعارض آگیا۔
امام بغوی رحمة الله علیہ انقطاع تعارض کے متعلق فرماتے ہیں: دونوں حدیثوں کی تطیق اس طرح ممکن ہے کہ کسریٰ کی مجموعی مملکت معدوم ہو گئی، اس سر زمین پر ممکن کنٹرول مسلمانوں کا ہوگیا اور اس ملک کے خزانے راہ الٰہی میں خرچ کر دیے گئے, جبکہ قیصر (شاہ روم) کی ملکیت برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ معدوم ہو گئی اور اس سلطنت کے خزانے راہ الہی میں صرف کر دیئے گئے۔
اب اس صورت میں «لَا يَكُوْنُ قَيْصَرُ بَعْدَهُ» کا معنی یہ ہوگا کہ سر زمین شام پر کوئی قیصر (پیدا) نہ ہوگا۔ اور "شرح السنة" میں مروی حدیث کے الفاظ "ثَبَتَ مُلْکَهُ" کا معنی یہ ہوگا "اس نے سرزمین روم پر اپنی بادشاہت کو برقرار رکھا۔ " [شرح السنة: 310/13]
اسی طرح امام نووی رحمة الله علیہ نے "شرح مسلم" میں لکھا ہے: "رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بد دعا سے کسریٰ تباہ و برباد ہوگیا اور کرّہ ارض پر اس کی تمام بادشاہت و مملکت پارہ پارہ ہو کر فنا ہوگئی، جب کہ قیصر کی بادشاہت و مملکت ارض شام سے معدوم ہوگئی۔ اس سے مسلمانوں کو یہ فائدہ پہنچا کہ وہ قیصر و کسریٰ کے شہروں میں داخل ہوگئے اور انہیں فتح کر دیا اور ان حکومتوں کے بیت المال راہ الہی میں خرچ کر دیئے، جیسا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کی پیشن گوئی فرمائی تھی۔ اسے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ظاہری معجزات میں سے ایک معجزہ سمجھا جاتا ہے۔ " [شرح صحيح مسلم، للنووي: 766/5]

جنگ "خُدْعَة" "دھوکے کا ذریعہ، وسیلۂ فریب" ہے:
لفظ «خُدْعَة» کے پڑھنے میں پانچ قرأتیں ہیں۔
«خَدْعَةٌ» «خُدْعَةٌ» «خُدَعَةٌ» «خَدَعَةٌ» «خِدْعَةٌ»
اس لفظ کے آخر میں جو گول (ة) ہے اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ وحدت پر دلالت کر رہی ہے، اس لیے دوران جنگ مسلمان کافروں کو ایک مرتبہ دھوکہ (ضرور) دیں، تاکہ مسلمان ابھر سکیں اور ساتھ ساتھ مسلمانوں کو متنبہ کرنا ہے کہ کافر قوم کم سے کم ایک مرتبہ ضرور دھوکہ کھائے گی۔ «والله اعلم بالصواب»

خدعة: ........
کسی نفس کو حقیقت حال سے نا آشنا رکھنے کے لیے زبان سے ایسی بات کا اظہار کرنا جو دل میں مخفی بات کے برعکس ہو۔
جب کہ بعض لوگوں نے خدعة کا معنی حکمت کیا ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک جنگ حکمت عملی کا نام ہے۔ اس پورے متن حدیث میں قیصر و کسریٰ کے ملکوں پر اہل اسلام کے تسلط کی پیشن گوئی ہے، واضح رہے کہ یہ بات رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے غزوۂ خندق کے موقع پر اپنی زبانِ مبارک سے ارشاد فرمائی تھی۔ علاوہ بریں یہ پیشن گوئی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اور مواقع پر بھی ثابت ہے۔
مسند احمد میں سیدنا براء رضی الله عنہ سے مروی ہے: غزوۂ خندق کے موقع پر دوران کھدائی ایک سخت ترین چٹان آن پڑی، جس سے کدال اچٹ جاتی تھی، کوئی چیز اپنی جگہ سے ہل نہیں پاتی تھی، براء رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اس کا گلہ کیا۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم (فوراً) وہاں حاضر ہوئے (وہی) کدال ہاتھ میں لی اور بسم الله کی نداء لگا کر ایک زور دار ضرب لگائی اور فرمانے لگے "الله اکبر" سلطنت شام کی چابیاں میرے سپرد کر دی گئی ہیں۔ یعنی قیصر کی سلطنت کا ایک حصہ، الله کی قسم! اس وقت میں وہاں کے سرخ محلوں کا نظارہ کر رہا ہوں۔ پھر دوسری مرتبہ ضرب لگائی، تو ایک دوسرا قطعہ جدا ہوگیا اور فرمانے لگے: الله اکبر، مجھے فارس دکھایا گیا ہے۔ الله کی قسم! اس وقت میں مدائن کے سفید محل کا نظارہ کر رہا ہوں۔ پھر بسم الله کہہ کر تیسری ضرب لگائی، تو بقیہ چٹان ریزہ ریزہ ہوگئی اور فرمانے لگے: الله اکبر، یمن کی چابیاں میرے سپرد کر دی گئی ہیں۔ الله کی قسم! اس وقت میں اپنی جگہ سے صنعاء کے پھاٹک دیکھ رہا ہوں۔ اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر جنگ کو "وسیلۂ فریب" سے تعبیر فرمایا تھا۔ وہ اس طرح کہ قبیلۂ غطفان کا ایک شخص جس کا نام نعیم بن مسعود بن عامر اشجعی تھا۔ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے الله کے رسول! میں اسلام قبول کر چکا ہوں اور میرے قبیلہ والے میرے قبول اسلام کے بارے میں لا علم ہیں۔ لہذا (میرے اس فعل سے کوئی فائدہ اٹھا لیجئے) آپ میرے لیے کوئی حکم صادر فرمایئے، تاکہ میں اسے پایۂ تکمیل تک پہنچا سکوں۔ (اس کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان سے کچھ مخفی باتیں کیں، پھر فرمانے لگے) "اَلْحَرْبُ خُدْعَةٌ" جنگ تو ایک دھوکہ ہے۔ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بھی جنگی موقع پر حکمت عملی کے ساتھ اپنے فریق مخالف کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے، لیکن امام نووی رحمة الله علیہ نے اس پر کچھ تفصیلی کلام فرمایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: اصحابِ علم کسی بھی جنگ کے موقع پر اپنے فریق مخالف کو دھوکہ دینے کے معاملہ میں رائے جواز کے قائل ہیں۔ دھوکہ میں عموم ہے، کوئی تعین نہیں۔ البتہ دھوکہ میں خلاف عہد کام کی توقع ہو یا کسی کے امن کو سبوتاژ ہونے کا اندیشہ ہو تو قطعاً دھوکہ جائز نہیں۔ " (جیسا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کے غزوات اس پر شاہد ہیں۔) حاصل کلام یہ ہے کہ عہد شکنی کے ماسوا اپنے فریق مخالف کے خلاف ہر قسم کا حربہ بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ [فتح الباري: 168/6]
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث\صفحہ نمبر: 30   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.