صحيح مسلم
كِتَاب الصَّلَاةِ -- نماز کے احکام و مسائل
44. باب أَعْضَاءِ السُّجُودِ وَالنَّهْيِ عَنْ كَفِّ الشَّعْرِ وَالثَّوْبِ وَعَقْصِ الرَّأْسِ فِي الصَّلاَةِ:
باب: سجدوں کے اعضاء کا بیان، اور بالوں اور کپڑوں کے سمیٹنے کی ممانعت اور جوڑا باندھ کر نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1101
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ بُكَيْرًا حَدَّثَهُ، أَنَّ كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ : " أَنَّهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ، يُصَلِّي، وَرَأْسُهُ مَعْقُوصٌ مِنْ وَرَائِهِ، فَقَامَ فَجَعَلَ يَحُلُّهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، أَقْبَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَرَأْسِي؟ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّمَا مَثَلُ هَذَا، مَثَلُ الَّذِي يُصَلِّي وَهُوَ مَكْتُوفٌ ".
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عبد اللہ بن حارث (بن نوفل رضی اللہ عنہ بن عبد المطلب) کو نماز پڑھتے دیکھا، ان کے سر پر پیچھے سے بالوں کو جوڑا بنا ہوا تھا، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر اس کو کھولنے لگے، جب ابن حارث نے سلام پھیرا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: میرے سر کے ساتھ آپ کا کیا معاملہ ہے (میرے بال کیوں کھولے؟) انہوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اس طرح (جوڑا باندھ کر) نماز پڑھنے والے کی مثال اس انسان کی طرح ہے جو اس حال میں نماز پڑھتا ہے کہ اس کی مشکیں کسی ہوئی ہوں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عبداللہ بن حارث کو نماز پڑھتے دیکھا اور اس نے سر کے پیچھے بالوں کا جوڑا بنایا ہوا تھا، عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کھڑے ہو کر اس کو کھولنے لگے تو جب ابن حارث نے سلام پھیرا تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف رخ کر کے پوچھا، میرے سر کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے؟ (یعنی میرے بال کیوں کھولے؟) تو انہوں نے جواب دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اس طرح (جوڑا باندھ کر نماز پڑھنے والے) کی مثال اس انسان کی طرح ہے جو اس حال میں نماز پڑھتا ہے کہ اس کی مشکیں کسی ہوں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 647  
´آدمی بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھے تو کیسا ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام کریب کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عباس نے عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں اور ان کے پیچھے بالوں کا جوڑا بندھا ہوا ہے، تو وہ ان کے پیچھے کھڑے ہو کر اسے کھولنے لگے اور عبداللہ بن حارث چپ چاپ کھڑے رہے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: آپ نے میرا سر کیوں کھول دیا؟ تو انہوں نے کہا: اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے ہاتھ پیچھے رسی سے بندھے ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 647]
647۔ اردو حاشیہ:
➊ مردوں کے لیے بالوں کا جوڑا بنانا بالخصوص نماز میں جائز نہیں، چاہیے کہ انہیں ویسے ہی لمبا چھوڑ دیا جائے اور سجدے کی حالت میں زمیں پر لگنے دیا جائے۔ دوسری حدیث میں صراحت ہے کہ مجھے حکم ہے کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور بالوں کو نہ باندھوں اور کپڑے کو نہ سمیٹوں۔ [صحيح بخاري، حديث: 812 و صحيح مسلم، حديث: 490]
➋ جن بزگوں کے متعلق آیا ہے کہ انہوں نے جوڑا بنایا ہوا تھا تو شاید انہیں یہ ارشاد نبوی معلوم نہ تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 647   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1101  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
وَرَأسُهُ مَعْقُوصٌ:
اس کے سر پر بالوں کا جوڑا باندھا ہواتھا۔
عَقَصَ الشَّعْر کا معنی ہوتا ہے بالوں کی چوٹی بنانا یا گوندھنا* کہتے ہیں عَقَصَتِ الْمَرْأْةُ شَعْرَهَا،
ع ورت نے اپنے بالوں کا جوڑا باندھا۔
فوائد ومسائل:
ان احادیث میں سجدےکے لیے سات اعضاء کی تصریح آئی ہے ناک پیشانی میں داخل ہے اس سے علیحدہ نہیں ہے اور ان سب اعضاء کا زمین پر لگانا ضروری ہے احناف کا پاؤں کے بارے میں اختلاف ہے بعض پاؤں کے زمین پر لگانے کو فرض کہتے ہیں بعض سنت اور بعض مستحب امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ناک کا لگانا ضروری نہیں ہے اور صاحبین کے نزدیک ضروری ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پیشانی کے ساتھ ناک کا بھی زمین پر لگانا ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی باقی آئمہ کے نزدیک ناک زمین پر لگانا سنت یا مستحب ہے۔
(صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِي أُصَلِّي)
کا تو معنی یہی ہے کہ ساتوں اعضاء زمین پر لگائے جائیں۔
بعض لوگ سجدے میں جاتے ہوئے اس کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے کپڑے اور بالوں کو خاک آلود ہونے سے بچائیں یہ بات چونکہ سجدے کی روح اور مقصد کے منافی ہے اس لیے نماز میں بالوں کا جوڑا باندھنے اور کپڑوں کو سمیٹنے سے منع فرمایا۔
عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھ رہے تھے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نماز کی حالت میں ان کا جوڑا کھول دیا جس سے ثابت ہوا کہ کپڑے سمیٹ کر یا جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے یہ معنی نہیں ہے کہ یہ کام اثنائے نماز میں نہ کرے اگر نماز سے پہلے کر لے اور بعد میں نماز شروع کر دے تو پھر درست ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1101