صحيح مسلم
كِتَاب الصَّلَاةِ -- نماز کے احکام و مسائل
47. باب سُتْرَةِ الْمُصَلِّي:
باب: نمازی کا سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا استحباب، اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنا، اور گزرنے والے کا حکم اور گزرنے والے کو روکنا، نمازی کے آگے لیٹنے کا جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کا حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کا بیان۔
حدیث نمبر: 1115
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ الْعِيدِ، أَمَرَ بِالْحَرْبَةِ، فَتُوضَعُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَيُصَلِّي إِلَيْهَا وَالنَّاسُ وَرَاءَهُ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السَّفَرِ، فَمِنْ ثَمَّ، اتَّخَذَهَا الأُمَرَاءُ ".
عبد اللہ بن نمیر نے عبید اللہ سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن نکلتے تو نیزے کا حکم دیتے، وہ آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا، آپ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ کے پیچھے ہوتے، سفر میں بھی آپ ایسا ہی کرتے، اس بنا پر حکام نے اس (نیزہ گاڑنے) کو اپنا لیا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن باہر نکلتے تو نیزہ اپنے آگے گاڑنے کا حکم دیتے اور اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتے سفر میں بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے۔ اسی بنا پر حکام نیزہ رکھتے ہیں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 687  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن نکلتے تو برچھی (نیزہ) لے چلنے کا حکم دیتے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی جاتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف چہرہ مبارک کر کے نماز پڑھتے، اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتے، اور ایسا آپ سفر میں کرتے تھے، اسی وجہ سے حکمرانوں نے اسے اختیار کر رکھا ہے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب السترة /حدیث: 687]
687۔ اردو حاشیہ:
یعنی امراء و حکام لوگ جو عید وغیرہ کے موقع پر بھالا، نیزہ وغیرہ لے کر نکلنے کا اہتمام کرتے ہیں اس کی اصل یہی ہے۔ نماز فرض ہو یا نفل، سفر ہو یا حضر، ہر موقع پر سترے کا خیال رکھنا چاہیے۔ نیز امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے بھی کافی ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 687   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 748  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے سامنے) نیزہ گاڑتے تھے، پھر اس کی طرف (رخ کر کے) نماز پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 748]
748 ۔ اردو حاشیہ:
➊ سترے سے مراد وہ چیز ہے جو نمازی کی نماز کو شیطان اور گزرنے والوں سے محفوظ کرے۔ سترہ نمازی کے خیالات کو منتشر ہونے سے بچاتا ہے، بشرطیکہ نظر سترے سے تجاوز نہ کرے جیسا کہ مسنون ہے۔ اسی طرح سترہ نمازی کے آگے سے گزرنے والوں کے اثرات بد سے نماز اور نمازی کو محفوظ کرتا ہے۔ نمازی کے آگے سے گزرنا نمازی کے خشوع و خضوع کو ختم کرتا ہے اور گزرنے والے کو گناہ گار بناتا ہے۔ سترے کے آگے سے گزرنا نمازی اور گزرنے والے کو ان دونوں چیزوں سے بچاتا ہے۔
➋ اکیلے نمازی کو اگر وہ کھلی جگہ نماز پڑھ رہا ہے تو اسے اپنے سامنے سترہ رکھنا چاہیے۔ امام کے پیچھے ہو تو صرف امام کے سامنے سترے کا ہونا کافی ہے۔ پہلے سے موجود چیز بھی سترہ بن سکتی ہے جیسے ستون وغیرہ۔
➌ سترہ تقریباً ڈیڑھ فٹ اونچا اور اتنا موٹا ہونا چاہیے کہ دور سے صاف نظر آئے، ایسا نہ ہو کہ کسی کو پتا ہی نہ چلے۔ پالان کی پچھلی لکڑی بھی تقریباً ڈیڑھ فٹ اونچی ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 748   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث941  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سفر میں نیزہ لے جایا جاتا اور اسے آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا، آپ اس کی جانب نماز پڑھتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 941]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریمﷺ سفر میں بھی سترے کا اہتمام فرماتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 941   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1115  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سترہ کا مقصد یہ ہے کہ نمازی کے سامنے کوئی چیز آڑ یا رکاوٹ کے لیے رکھی جائے تاکہ نمازی کی نظر اس سے پہلے پڑے اور اس کے پرے سے گزرنے والے سے اس کی نماز متاثر نہ ہو اور یہ تبھی ممکن ہے کہ نماز بلاوجہ اپنی نظر سجدہ گاہ سے نہ ہٹائے اور اگر انسان جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو تو پھر امام کا سترہ ہی کافی ہے ہر نماز کو الگ سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہو گی اور اس کی ضرورت مسجد سے باہر کھلی جگہ میں پیش آئے گی جیسا کہ آپﷺ عیدین اور سفر کے موقع پر آگے نیز ہ نصب کرواتے تھے مسجد میں دیوار ہی امام کے لیے سترہ ہے سترہ کی تعداد آپﷺ نے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کو قرار دیا ہے اور یہ ایک ہاتھ یا اس سے کچھ بڑی ہوتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1115