صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
156. بَابُ يَسْتَقْبِلُ الإِمَامُ النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ:
باب: امام جب سلام پھیر چکے تو لوگوں کی طرف منہ کرے۔
حدیث نمبر: 845
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابورجاء عمران بن تمیم نے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز (فرض) پڑھا چکتے تو ہماری طرف منہ کرتے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 845  
845. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ جب نماز پڑھ لیتے تو اپنا روئے مبارک ہماری طرف کر لیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:845]
حدیث حاشیہ:
اس سے صاف معلوم ہوا کہ نماز فرض کے بعد سنت طریقہ یہی ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد امام دائیں یا بائیں طرف منہ پھیر کر مقتدیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھے مگر صد افسوس ایک دیوبندی مترجم وشارح بخاری صاحب فرماتے ہیں آج کل دائیں یابائیں طرف رخ کر کے بیٹھنے کا عام طور پر رواج ہے اس کی کوئی اصل نہیں نہ یہ سنت ہے نہ مستحب جائزضرور ہے (تفہیم البخاری پ 4 ص22)
پھر حدیث مذکورہ ومنعقدہ باب کا مفہوم کیا ہے اس کا جو اب فاضل موصوف یہ دیتے ہیں کہ مصنف ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد اگر امام اپنے گھر جانا چاہتا ہے تو گھر چلا جائے لیکن اگر مسجد میں بیٹھنا چاہتا ہے تو سنت یہ ہے کہ دوسرے موجودہ لوگوں کی طرف رخ کر کے بیٹھے (حوالہ مذکورہ)
ناظرین خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فاضل شارح بخاری کے ہر دو بیانات میں کس قدر تضاد ہے۔
حضرت امام بخاری ؒ کے باب اور حدیث کا مفہوم ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 845   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:845  
845. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ جب نماز پڑھ لیتے تو اپنا روئے مبارک ہماری طرف کر لیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:845]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ کو بیان کیا گیا ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد آپ مقتدیوں کی طرف منہ کر لیتے تھے۔
شارحین نے اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ باہر سے آنے والے کو معلوم ہو جائے کہ جماعت ہو چکی ہے۔
اگر امام قبلہ رو ہو کر بیٹھا رہے گا تو وہم ہو سکتا ہے کہ شاید وہ تشہد میں بیٹھا ہوا ہے۔
دوسری حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ مقتدی حضرات کو ایسے امور کی تعلیم دے جس کے وہ ضرورت مند ہیں، یا انہیں وعظ و نصیحت کرے۔
(2)
علامہ زین بن منیر لکھتے ہیں کہ امام کا مقتدیوں کی طرف پیٹھ کرنا امامت کی وجہ سے تھا، جب نماز ہو چکی تو یہ سبب بھی ختم ہو گیا، چونکہ اب امامت سے فارغ ہو چکا ہے، اس لیے امام کو چاہیے کہ وہ مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے ایسا کرنے سے تکبر و غرور اور مقتدی حضرات پر ترفع وغیرہ کا وہم نہیں ہو گا۔
بہرحال امام کو چاہیے کہ وہ نماز سے فراغت کے بعد مقتدیوں کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنے کی بجائے ان کی طرف منہ کر کے بیٹھے، رسول اللہ ﷺ کی یہی عادت مبارکہ تھی۔
اگر ضرورت ہو تو سلام کے بعد اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فوراً جا سکتا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا۔
(فتح الباري: 431/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 845