صحيح مسلم
كِتَاب الصَّلَاةِ -- نماز کے احکام و مسائل
47. باب سُتْرَةِ الْمُصَلِّي:
باب: نمازی کا سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا استحباب، اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنا، اور گزرنے والے کا حکم اور گزرنے والے کو روکنا، نمازی کے آگے لیٹنے کا جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کا حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کا بیان۔
حدیث نمبر: 1119
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جميعا، عَنْ وَكِيعٍ ، قَالَ زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ وَهُوَ بِالأَبْطَحِ، فِي قُبَّةٍ لَهُ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، قَالَ: فَخَرَجَ بِلَالٌ بِوَضُوئِهِ، فَمِنْ نَائِلٍ وَنَاضِحٍ، قَالَ: فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ سَاقَيْهِ، قَالَ: فَتَوَضَّأَ وَأَذَّنَ بِلَالٌ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُ فَاهُ، هَا هُنَا، وَهَهُنَا، يَقُولُ: يَمِينًا وَشِمَالًا، يَقُولُ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: ثُمَّ رُكِزَتْ لَهُ عَنَزَةٌ، فَتَقَدَّمَ، فَصَلَّى الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ الْحِمَارُ وَالْكَلْبُ، لَا يُمْنَعُ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ لَمْ يَزَلْ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ ".
۔ سفیان نے بیان کیا: ہمیں عون بن ابی جحیفہ نے اپنے والد (حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ) سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں مکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ ابطح کے مقام پر چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں (قیام پذیر) تھے۔ (ابو جحیفہ نے) کہا: بلال رضی اللہ عنہ آپ کے وضو کا پانی لے کر باہر آئے (بعد ازاں جب آپ نے وضو کر لیا تو) اس میں سے کسی کو پانی مل گیا اور کسی نے (دوسرے سے اس کی) نمی لے لی۔ انہوں نے کہا: پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سرخ حلہ (لباس کے اوپر لمبا چوغہ) پہنے ہوئے نکلے، (ایسا لگتا ہے) جیسے (آج بھی) میں آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ نے وضو کیا اور بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کہی، انہوں نے کہا: میں بھی ان کے منہ پیچھے اس طرح اور اس طرف رخ کرنے لگا، (جب) وہ حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کہہ رہے تھے تو انہوں نے دائیں بائیں رخ کیا، کہا: پھر آپ کے لیے نیزہ گاڑا گیا اور آپ نے آگے بڑھ کر ظہری کی دو رکعتیں (قصر) پڑھائیں، آپ کے آگے سے گدھا اور کتا گزر تا تھا، انہیں روکا نہ جاتا تھا، پھر آپ نے عصر کی دو رکعتیں پڑھائیں اور پھر مدینہ واپسی تک مسلسل دو رکعتیں ہی پڑھاتے رہے۔
حضرت عون بن ابی جحیفہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم ابطح مقام پر سرخ چمڑے کے ایک خیمہ میں تھے تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی لے کر نکلے، کسی کو پانی مل گیا اور کسی پر دوسرے نے چھڑک دیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سرخ جوڑا پہنے ہوئے نکلے، گویا کہ میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلیوں کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان کہی، اور میں ان کے منہ کے ساتھ ادھر ادھر دائیں بائیں منہ پھیرنے لگا، حَیَّ عَلَی الصَّلَاة اور حَیَّ عَلَی الفَلَاح، کہہ رہے تھے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نیزہ گاڑا گیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں (آپصلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے تشریف لائے تھے اس بنا پر مسافر تھے) آپصلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گدھے اور کتے گزرتے رہے، کسی نے انہیں روکا نہیں، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی دو رکعتیں پڑھیں اور پھر مدینہ واپسی تک دو رکعت ہی پڑھتے رہے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 471  
´سفر میں ظہر کی نماز کا بیان۔`
حکم بن عتیبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر میں نکلے (ابن مثنی کی روایت میں ہے: بطحاء کی طرف نکلے) تو آپ نے وضو کیا، اور ظہر کی نماز دو رکعت پڑھی، اور عصر کی دو رکعت پڑھی، اور آپ کے سامنے نیزہ (بطور سترہ) تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 471]
471 ۔ اردو حاشیہ: آپ کے آگے عنزہ (چھوٹا نیزہ) سترے کے طور پر گاڑا گیا تھا، لہٰذا کھلی یا بند جگہ میں سترہ ضروری ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 471   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1119  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نَائِل:
اخذ کرنا،
لینا،
نَالَ،
يَنَالُ سے،
نَاضِح:
چھڑکنا یعنی بعض تو براہ راست پانی لے رہے تھے اور بعض پر پانی لینے والے چھڑک رہے تھے۔
(2)
حُلَّة حَمرَاء:
حلہ جوڑا،
ایک باندھنے کے لیے تہبند اور دوسری اوڑھنے کی چادر۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ وضو میں استعمال ہونے والا پانی پلید نہیں ہے اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپﷺ کے وضوء پر جھپٹتے تھے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے آپﷺ کے غسالہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا تبرک حاصل کرنا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ بزرگوں کے آثار سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور بڑی شخصیت کے لیے نہیں کیا خلفائے راشدین سے افضل اور برتر کونسا بزرگ ہو سکتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ان کے آثار سے تبرک حاصل نہیں کیا اور آپﷺ کے فضلات کا کیا حکم ہے؟ اب اس پر بحث کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ پاک تھے یا پلید تو یہ آپﷺ کی زندگی کے دور کا مسئلہ تھا آپﷺ کے لعاب دہن اور وضو کے پانی پر تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھپٹتے تھے بول وبراز خون کے سلسلہ میں تو یہ واقعہ پیش نہیں آیا تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1119