صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة -- مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
1ق. باب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلاَةِ
باب: مسجدوں اور نماز کی جگہوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 1162
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ التَّيْمِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَى أَبِي الْقُرْآنَ فِي السُّدَّةِ، فَإِذَا قَرَأْتُ السَّجْدَةَ، سَجَدَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَتِ، أَتَسْجُدُ فِي الطَّرِيقِ؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يَقُولُ: " سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَوَّلِ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الأَرْضِ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الأَقْصَى، قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: أَرْبَعُونَ عَامًا، ثُمَّ الأَرْضُ لَكَ مَسْجِدٌ، فَحَيْثُمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ، فَصَلِّ ".
علی بن مسہر نے کہا: ہمیں اعمش نے ابراہیم بن یزید تیمی سے حدیث سنائی، کہا: میں مسجد کے باہر کھلی جگہ (صحن) میں اپنے والد کو قرآن مجید سنایا کرتا تھا، جب میں (آیت) سجدہ کی تلاوت کرتا تو وہ سجدہ کر لیتے۔ میں نے ان سے پوچھا: ابا جان! کیا آپ راستے ہی میں سجدہ کر لیتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا وہ بیان کر رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روئے زمین پر سب سے پہلی بنائی جانے والی مسجد کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد حرام۔ میں نے عرض کی: پھر کون سی؟ آپ نے فرمایا، مسجد اقصیٰ۔ میں نے پوچھا: دونوں (کی تعمیر) کے درمیان کتنا عرصہ تھا؟ آپ نے فرمایا: چالیس سال، پھر ساری زمین (ہی) تمہارے لیے مسجد ہے، جہاں بھی تمہاری نماز کا وقت آ جائے وہیں نماز پڑھ لو۔
حضرت ابراھیم بن یزید تیمی رحمۃ اللّہ علیہ سے روایت ہے کہ میں سدہ میں (مسجد کے باہر سائبان) اپنے باپ کو قرآن مجید سنایا کرتا تھا۔ تو جب میں سجدہ والی آیت سناتا تو وہ سجدہ کر لیتے تو میں نے ان سے پوچھا: اے ابا جان! کیا آپ راستے میں ہی سجدہ کر لیتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، روئے زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد بنائی گئی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد حرام میں نے عرض کیا پھر کونسی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ میں نے پوچھا، دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس سال۔ پھر فرمایا: ساری زمین تمہارے لیے مسجد ہے، جہاں نماز کا وقت ہو جائے وہیں پڑھ لو۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 691  
´سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟`
ابراہیم تیمی کہتے ہیں کہ گلی میں راستہ چلتے ہوئے میں اپنے والد (یزید بن شریک) کو قرآن سنا رہا تھا، جب میں نے آیت سجدہ پڑھی تو انہوں نے سجدہ کیا، میں نے کہا: ابا محترم! کیا آپ راستے میں سجدہ کرتے ہیں؟ کہا: میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد الحرام، میں نے عرض کیا: پھر کون سی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد الاقصیٰ ۱؎ میں نے پوچھا: ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس سال کا، اور پوری روئے زمین تمہارے لیے سجدہ گاہ ہے، تو تم جہاں کہیں نماز کا وقت پا جاؤ نماز پڑھ لو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 691]
691 ۔ اردو حاشیہ:
➊ زمین پاک ہو تو کسی بھی جگہ سجدہ کیا جا سکتا ہے اور نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ گلی ہو یا بازار، گھر ہو یا مسجد۔ پلید جگہ پر نماز اور سجدہ جائز نہیں، چاہے وہ مسجد ہی میں کیوں نہ ہو۔
➋ مشہور یہ ہے کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے بنایا اور بیت المقدس حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنایا۔ ان دونوں انبیاء علیہم السلام کے درمیان ایک ہزار سال سے زائد فاصلہ ہے۔ اس حدیث کی رو سے چالیس سال کا فاصلہ ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ اس حدیث میں آدم علیہ السلام کی بنا کا ذکر ہے۔ انہوں نے پہلے بیت اللہ بنایا، پھر چالیس سا ل بعد بیت المقدس بنایا۔ اور قرآن میں جو تعمیر کعبہ اور اس کی بنیادیں اٹھانے کی نسبت ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کی طرف ہے تو اس سے سابقہ منہدم عمارت کی بنیادیں ازسرنو اٹھانا اور اس کی تعمیر کرنا مراد ہے، البتہ اہل کتاب کے نزدیک بیت المقدس حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنایا۔ اگر یہ قول صحیح ہو تو پھر کوئی اشکال نہیں رہتا کیونکہ یعقوب علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں پیدا ہوچکے تھے۔
ساری زمین مسجد ہے احادیث میں کچھ مقامات مستثنیٰ ہیں، ان کے علاوہ باقی ہر پاک جگہ پر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ علامہ اقبال نے کیا عجیب نکتہ نکالا ہے کہ ساری زمین مسجد ہے اور مسجد پر کافروں کا قبضہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا ساری زمین آزاد کراؤ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 691   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث753  
´سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟`
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد الحرام، میں نے پوچھا: پھر کون سی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مسجد الاقصیٰ، میں نے پوچھا: ان دونوں کی مدت تعمیر میں کتنا فاصلہ تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس سال کا، پھر ساری زمین تمہارے لیے نماز کی جگہ ہے، جہاں پر نماز کا وقت ہو جائے وہیں ادا کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 753]
اردو حاشہ:
(1)
اس تعمیر سے مراد ان مسجدوں کی اوّلین تعمیر ہے جو آدم علیہ السلام کے ہاتھوں انجام پائی۔
جب حضرت ابراہیم واسماعیل علیہ السلام نے کعبہ شریف کی تعمیر کی اس وقت سابقہ تعمیر کے نشان مٹ چکے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں بیت المقدس کی تعمیر بھی اس کی پہلی تعمیر نہیں تھی۔

(2)
اس سے ان دو مسجدوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
روئے زمین پر ان دو کے علاوہ صرف مسجد نبوی ہی ایک ایسی مسجد ہے جس کی زیارت کے لیے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ سفر کرنا جائز ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
کجاوے کس کے (بغرض تقرب)
سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف، مسجد حرام، میری مسجد (مسجد نبوی)
اور مسجد اقصی۔ (صحيح البخاري، جزاء الصيد، باب حج النساء، حديث: 1864)

(3)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ محض زیارت (تقرب)
کی نیت سے کسی اور مسجد کی طرف سفر کرکے جانا بھی جائز نہیں تو مزاروں وغیرہ کی زیارت کی نیت سے سفر بالاولی منع ہوگا۔ 4۔
قبروں کی زیارت شرعاً جائز ہے لیکن اس کا مقصد آخرت کی یاد اور موت سے عبرت حاصل کرنا ہے۔
یہ مقصد اپنی بستی  کے قبرستان کی زیارت سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔
خوبصورت گنبدوں، دیدہ زیب عمارتوں، میلوں ٹھیلوں اور نام نہاد عرسوں سے یہ مقصد فوت ہوجاتا ہے۔
بالخصوص آج کل کے معروف مزاروں کے عرسوں میں تو چہل پہل کے علاوہ مرد وزن کے اختلاط سے مزید بے شمار مفاسد جنم لے رہے ہیں۔
لہٰذا ان میں شرکت سے پرہیز ضروری ہے۔

(5)
ساری زمین کے مسجد ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ دنیا کی تمام مساجد اجروثواب کے لحاظ سے برابر ہیں۔
نماز کے وقت جو مسجد قریب ہو وہاں نماز پڑھ لی جائےاور اگر مسجد قریب نہ ہوتو بھی مذکورہ بالا احادیث میں ذکر کردہ ممنوع مقامات کو چھوڑ کر کسی بھی پاک جگہ نماز پڑھ لی جاسکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 753   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1162  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
کعبہ اور مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)
کی تعمیر کا درمیانی عرصہ:
کعبہ اور بیت المقدس کی تعبیر کے بارے میں مشہور بات یہ ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی اور بیت المقدس حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنوایا اور ان کے درمیان ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ بنتا ہے جبکہ حدیث میں فاصلہ چالیس سال بیان کیا گیا ہے اصل بات یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے ان مسجدوں کی تاسیس (بنیاد رکھنا)
نہیں کی بلکہ تجدید (نئے سرے سے بنانا)
کی ہے اصل تعمیر تخلیق آدم سے پہلے فرشتوں نے کی ہے اور اس تعمیر و تشکیل کا درمیانی عرصہ چالیس ہے یا مراد آدم علیہ السلام کی تعمیر ہے دونوں مسجدوں کی بنیاد آدم علیہ السلام نے رکھی اور درمیانی فاصلہ چالیس سال تھا اور اگر ابراہیمی تعمیر مراد لینا ہو تو ظاہر ہے جس طرح ایک بیٹے اسماعیل اور ان کی اولاد کے لیے ایک عبادت گاہ بنائی گئی ہے تو دوسرے بیٹے اسحاق کی اولاد کے لیے بھی ایک عبادت گاہ تعمیر کی ہو گی اس لیے بیت المقدس کی تعمیر سے یہاں مراد حضرت یعقوب ابن اسحاق علیہ السلام والی تعمیر ہے اور دونوں کی تعمیر میں چالیس سال کا فاصلہ ہے۔
(2)
جس جگہ نماز کا وقت ہو جائے وہیں نماز پڑھ لو سے غرض یہ ہے کہ جس جگہ شریعت نے نماز پڑھنے سے روکا نہیں ہے وہاں نماز پڑھ لو۔
کیونکہ نماز کے لیے لباس اور بدن کی پاکیزگی اور طہارت کی طرح جگہ کا پاک صاف ہونا بھی ضروری ہے شریعت نے قبرستان،
حمام،
مذبح (ذبح کرنے کی جگہ)
،
شارع عام اور نجاست گاہ میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1162