صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
158. بَابُ مَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَذَكَرَ حَاجَةً فَتَخَطَّاهُمْ:
باب: اگر امام لوگوں کو نماز پڑھا کر کسی کام کا خیال کرے اور ٹھہرے نہیں بلکہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتا چلا جائے تو کیا ہے۔
وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ: عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَتْنِي هِنْدُ الْفِرَاسِيَّةُ، وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَتْنِي هِنْدُ الْفِرَاسِيَّةُ، وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ، أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، أَنَّ هِنْدَ بِنْتَ الْحَارِثِ الْقُرَشِيَّةَ أَخْبَرَتْهُ وَكَانَتْ تَحْتَ مَعْبَدِ بْنِ الْمِقْدَادِ وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي زُهْرَةَ، وَكَانَتْ تَدْخُلُ عَلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ شُعَيْبٌ: عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَتْنِي هِنْدُ الْقُرَشِيَّةُ، وَقَالَ ابْنُ أَبِي عَتِيقٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ هِنْدٍ الْفِرَاسِيَّةِ، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَهُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ امْرَأَة مِنْ قُرَيْشٍ حَدَّثَتْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ اور ابن وہب نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور انہیں ہند بنت حارث فراسیہ نے خبر دی اور عثمان بن عمر نے کہا کہ ہمیں یونس نے زہری سے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھ سے ہند قرشیہ نے بیان کیا محمد بن ولید زبیدی نے کہا کہ مجھ کو زہری نے خبر دی کہ ہند بنت حارث قرشیہ نے انہیں خبر دی۔ اور وہ بنو زہرہ کے حلیف معبد بن مقداد کی بیوی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوا کرتی تھی اور شعیب نے زہری سے اس حدیث کو روایت کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ہند قرشیہ نے حدیث بیان کی، اور ابن ابی عتیق نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا اور ان سے ہند فراسیہ نے بیان کیا۔ لیث نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے قریش کی ایک عورت نے نبی کریم سے روایت کر کے بیان کیا۔
حدیث نمبر: 851
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ، قَالَ: صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ الْعَصْرَ، فَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَ مُسْرِعًا فَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ إِلَى بَعْضِ حُجَرِ نِسَائِهِ، فَفَزِعَ النَّاسُ مِنْ سُرْعَتِهِ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ فَرَأَى أَنَّهُمْ عَجِبُوا مِنْ سُرْعَتِهِ، فَقَالَ:" ذَكَرْتُ شَيْئًا مِنْ تِبْرٍ عِنْدَنَا فَكَرِهْتُ أَنْ يَحْبِسَنِي فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِهِ".
ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عیسیٰ بن یونس نے عمر بن سعید سے یہ حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابن ابی ملیکہ نے خبر دی ان سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے حجرہ میں گئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تیزی کی وجہ سے گھبرا گئے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جلدی کی وجہ سے لوگوں کے تعجب کو محسوس فرمایا تو فرمایا کہ ہمارے پاس ایک سونے کا ڈلا (تقسیم کرنے سے) بچ گیا تھا مجھے اس میں دل لگا رہنا برا معلوم ہوا، میں نے اس کے بانٹ دینے کا حکم دے دیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 851  
851. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے ایک دفعہ نماز عصر نبی ﷺ کے پیچھے مدینہ منورہ میں ادا کی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو جلدی سے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی بیویوں کے کسی حجرے کی طرف تشریف لے گئے۔ لوگ آپ کی اس سرعت سے گھبرا گئے۔ بہرحال آپ ان کے پاس واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ آپ کی عجلت کی وجہ سے تعجب میں ہیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے سونے کا ایک ٹکڑا جو ہمارے پاس تھا یاد آ گیا، میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ مبادا مجھے وہ اللہ کی یاد سے روک دے، لہذا میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:851]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرض کے بعد امام کو اگر کوئی فوری ضرورت معلوم ہوجائے تو وہ کھڑا ہو کر جاسکتا ہے کیونکہ فرضوں کے سلام کے بعد امام کو خواہ مخواہ اپنی جگہ ٹھہرے رہنا کچھ لازم یا واجب نہیں ہے۔
اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آں حضرت ﷺ کو اپنی پیغمبرانہ ذمہ داریوں کا کس شدت سے احساس رہتا تھا کہ سونے کا ایک تولا بھی گھر میں محض بطور امانت ہی ایک رات کے لیے رکھ لینا ناگوار معلوم ہوا۔
پھر ان معاندین پر پھٹکار ہو جو ایسے پاک پیغمبر فداہ ابی وامی کی شان میں گستاخی کرتے اور نعوذباللہ آپ ﷺ پر دنیاداری کاغلط الزام لگاتے رہتے ہیں۔
ھداھم اللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 851   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:851  
851. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے ایک دفعہ نماز عصر نبی ﷺ کے پیچھے مدینہ منورہ میں ادا کی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو جلدی سے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی بیویوں کے کسی حجرے کی طرف تشریف لے گئے۔ لوگ آپ کی اس سرعت سے گھبرا گئے۔ بہرحال آپ ان کے پاس واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ آپ کی عجلت کی وجہ سے تعجب میں ہیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے سونے کا ایک ٹکڑا جو ہمارے پاس تھا یاد آ گیا، میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ مبادا مجھے وہ اللہ کی یاد سے روک دے، لہذا میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:851]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے مندرجہ ذیل احکام ثابت ہوتے ہیں:
٭ نماز سے فراغت کے بعد مصلے پر ٹھہرنا ضروری نہیں، ضرورت کے وقت فوراً اٹھ کر جانا جائز ہے۔
٭ گردنیں پھلانگ کر آنے جانے میں اگر لوگوں کو کوئی تکلیف نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
عام حالات میں اس کی ممانعت ہے۔
(مسند أحمد: 424/3)
٭ دوران نماز میں جائز امور کو بجا لانے کا عزم کیا جا سکتا ہے۔
٭ جو کام خود کر سکتا ہے اگر کسی دوسرے کو اس کے متعلق کہہ دیا جائے تو جائز ہے۔
(فتح الباري: 436/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 851