صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة -- مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
7. باب تَحْرِيمِ الْكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ:
باب: نماز میں باتیں کرنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 1208
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ شِنْظِيرٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، بِمَعْنَى حَدِيثِ حَمَّاد.
عبدالوارث بن سعید نے کہا: ہمیں کثر بن شنظیر نے حدیث سنائی، انھوں نے عطاء سے اور انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام کی غرض سے بھیجا .........آگے حماد بن زید کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی۔
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1208  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ:
﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ کا تعلق نماز سے نہیں ہے کیونکہ اگر اس آیت کا تعلق نماز سے ہوتا تو جو آیت امام کے پیچھے قرآءت سے روکتی ہے اس نے بات چیت سے کیوں نہ روکا؟ اور اس آیت کے نزول کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نماز میں گفتگو کیوں کرتے رہے؟ (2)
﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ﴾ سورہ اعراف کی آیت ہے اور باتفاق مکی آیت ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مدینہ میں مسجد نبویﷺ میں آپﷺ کے پیچھے گفتگو کر لیتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سلام کا جواب بھی دے دیتے تھے جنگِ بنو مصطلق جو 5یا 6 ہجری میں ہوئی ہے اس سے کچھ پہلے کلام منسوخ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب بھی زبان سے دینا بند کر دیا اس سے ثابت ہوا اس آیت کا تعلق نماز کی قرآءت سے نہیں ہے وگرنہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مدینہ منورہ میں نماز میں گفتگو نہ کرتے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کا جواب بول کر دیتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1208