صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
159. بَابُ الاِنْفِتَالِ وَالاِنْصِرَافِ عَنِ الْيَمِينِ وَالشِّمَالِ:
باب: نماز پڑھ کر دائیں یا بائیں دونوں طرف پھر بیٹھنا یا لوٹنا درست ہے۔
وَكَانَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ يَنْفَتِلُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ وَيَعِيبُ عَلَى مَنْ يَتَوَخَّى أَوْ مَنْ يَعْمِدُ الِانْفِتَالَ عَنْ يَمِينِهِ
‏‏‏‏ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ دائیں اور بائیں دونوں طرف مڑتے تھے۔ اور اگر کوئی دائیں طرف خواہ مخواہ قصد کر کے مڑتا تو اس پر آپ اعتراض کرتے تھے۔
حدیث نمبر: 852
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ الْأَسْوَدِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" لَا يَجْعَلْ أَحَدُكُمْ لِلشَّيْطَانِ شَيْئًا مِنْ صَلَاتِهِ يَرَى أَنَّ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ لَا يَنْصَرِفَ إِلَّا عَنْ يَمِينِهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرًا يَنْصَرِفُ عَنْ يَسَارِهِ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے سلیمان سے بیان کیا، ان سے عمارہ بن عمیر نے، ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی نماز میں سے کچھ بھی شیطان کا حصہ نہ لگائے اس طرح کہ داہنی طرف ہی لوٹنا اپنے لیے ضروری قرار دے لے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر بائیں طرف سے لوٹتے دیکھا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1042  
´نماز سے فارغ ہو کر کس طرف سے پلٹنا چاہئے؟`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کا کچھ حصہ شیطان کے لیے نہ بنائے کہ وہ صرف دائیں طرف ہی سے پلٹے، حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ اکثر بائیں طرف سے پلٹتے تھے، عمارہ کہتے ہیں: اس کے بعد میں مدینہ آیا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو (بحالت نماز) آپ کے بائیں جانب دیکھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1042]
1042۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عمارہ رضی اللہ عنہا کا استشہاد یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز کے بعد اذکار وغیرہ سے فارغ ہو کر اپنے گھروں کو بائیں جانب ہی جانا ہوتا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماًاپنے بائیں جانب سے ہی اپنا منہ موڑتے رہے ہوں گے۔
➋ بقول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سنت کے کسی ایک ہی انداز میں اس قدر اصرار کے دوسرے سے اعراض یا اس کی تکذیب سمجھی جائے۔ دین میں بےحد برا عمل ہے، گویا شیطان کا حصہ ملانا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1042   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث914  
´سلام پھیرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے، یہاں تک کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دکھائی دینے لگتی، اور آپ کہتے: «السلام عليكم ورحمة الله» ۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 914]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
نماز سے فارغ ہونے کا طریقہ سلام پھیرنا ہے۔
جیسے کہ حدیث 275 اور 276 میں بیان ہوا ہے۔

(2)
سلام پھیرنے کے مختلف طریقے وارد ہیں۔
مثلاً
(الف)
السلام و علیکم ورحمة اللہ۔
  السلام علیکم ورحمة اللہ (جیسے حدیث 916 میں آرہا ہے۔)

(ب)
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته۔
  السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته۔ (بلوغ المرام، لإبن حجر، الصلاۃ، باب صفة الصلاۃ، حدیث: 253)

(ج)
  صرف ایک سلام کےساتھ نماز سے فارغ ہونا بھی درست ہے۔
ایک سلام کہتے ہوئے تھوڑا سا دایئں طرف منہ کرنا چاہیے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، باب: 106، حدیث: 296)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 914   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 295  
´نماز میں سلام پھیرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں «السلام عليكم ورحمة الله السلام عليكم ورحمة الله» کہہ کر سلام پھیرتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 295]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے دونوں طرف دائیں اور بائیں سلام پھیرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے،
ابو داؤد کی روایت میں ((حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ)) کا اضافہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 295   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 852  
852. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کا حصہ نہ بنائے، وہ اس طرح کہ نماز کے بعد دائیں جانب سے پھرنے کو ضروری خیال کرے۔ یقینا میں نے نبی ﷺ کو اکثر اپنی بائیں جانب سے بھی پھرتے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:852]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
معلوم ہوا کہ کسی مباح یا مستحب کام کولازم یا واجب کر لینا شیطان کا اغوا ہے ابن منیر نے کہا مستحب کام کو اگر کوئی لازم قرار دے تو وہ مکروہ ہو جاتا ہے جب مباح کام لازم قرار دینے سے شیطان کا حصہ سمجھا جائے تو جو کام مکروہ یا بدعت ہے اس کو کوئی لازم قرار دے لے اور اس کے نہ کرنے پر خدا کو بندوں کے ستائے یا ان کا عیب کرے تو اس پر شیطان کا کیا تسلط ہے سمجھ لینا چاہیے۔
ہمارے زمانہ میں یہ بلابہت پھیلی ہے۔
بے اصل کاموں کو عوام کیا بلکہ خواص نے لازم قرار دے لیا ہے (مولانا وحید الزماں)
تیجہ، فاتحہ چہلم وغیرہ سب اسی قسم کے کام ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 852   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:852  
852. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کا حصہ نہ بنائے، وہ اس طرح کہ نماز کے بعد دائیں جانب سے پھرنے کو ضروری خیال کرے۔ یقینا میں نے نبی ﷺ کو اکثر اپنی بائیں جانب سے بھی پھرتے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:852]
حدیث حاشیہ:
(1)
شریعت نے اگر کسی کام کے متعلق دو حیثیت سے وسعت دی ہو تو کسی ایک پر جمود یا انحصار کرنا درست نہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات ترک مستحب پر تنبیہ بھی کی جا سکتی ہے۔
ابن منیر نے کہا ہے کہ مستحب مکروہ کے دائرے میں شامل ہو جاتا ہے جبکہ اسے اس کے مرتبے سے اونچا کر دیا جائے کیونکہ دائیں جانب تمام کاموں میں مستحب ہے لیکن جب حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو خطرہ محسوس ہوا کہ لوگ اسے اپنے آپ پر واجب قرار دے لیں گے تو اس کے مکروہ ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔
جب مباح کام کو لازم قرار دینے سے شیطان کا حصہ سمجھا جائے تو جو کام ناجائز یا بدعت ہے اسے اگر کوئی لازم قرار دے لے اور اس کے نہ کرنے پر دوسروں کو ملامت کرے تو ایسے انسان پر تو شیطان پوری طرح مسلط ہو جاتا ہے۔
(فتح الباري: 437/2)
ہمارے اس دور میں یہ وبا بہت عام ہے کہ بدعات و رسومات، مثلاً:
قل خوانی، فاتحہ، چہلم اور برسی وغیرہ کو عام و خاص نے اپنے آپ پر لازم قرار دے لیا ہے اور نہ کرنے والوں کو لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
واللہ المستعان۔
(2)
حضرت انس ؓ کے کہنے کے مطابق نماز سے فراغت کے بعد اکثر طور پر رسول اللہ ﷺ دائیں جانب مڑتے تھے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اکثر بائیں جانب مڑتے دیکھا ہے۔
ان دونوں حضرات کے بیان میں بظاہر تضاد ہے۔
تطبیق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت کو مسجد میں نماز پڑھنے پر محمول کیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے گھر مسجد کی بائیں جانب تھے جبکہ حضرت انس ؓ کے بیان کو اس کے علاوہ سفر وغیرہ پر محمول کیا جائے۔
٭ بحالت نماز اگر پھرنے کی ضرورت ہوتی تو اکثر اوقات بائیں جانب سے پھرتے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا ہے۔
اگر مقتدی حضرات کی طرف منہ کرنا ہوتا تو نماز کے بعد دائیں جانب سے ان کی طرف پھرتے جیسا کہ حضرت انس ؓ نے کہا ہے۔
اس بنا پر انصراف کسی معین جہت کے ساتھ خاص نہ تھا۔
(فتح الباري: 437/2)
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 852