صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة -- مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
8. باب جَوَازِ لَعْنِ الشَّيْطَانِ فِي أَثْنَاءِ الصَّلاَةِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ وَجَوَازِ الْعَمَلِ الْقَلِيلِ فِي الصَّلاَةِ:
باب: نماز کے اندر شیطان پر لعنت کرنا اور اس سے پناہ مانگنا اور عمل قلیل کرنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 1209
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ زِيَادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ عِفْرِيتًا مِنَ الْجِنِّ، جَعَلَ يَفْتِكُ عَلَيَّ الْبَارِحَةَ لِيَقْطَعَ عَلَيَّ الصَّلَاةَ، وَإِنَّ اللَّهَ أَمْكَنَنِي مِنْهُ فَذَعَتُّهُ، فَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَرْبِطَهُ إِلَى جَنْبِ سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، حَتَّى تُصْبِحُوا تَنْظُرُونَ إِلَيْهِ أَجْمَعُونَ أَوْ كُلُّكُمْ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَ أَخِي سُلَيْمَانَ: رَبِّ اغْفِرْ لِي، وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي، فَرَدَّهُ اللَّهُ خَاسِئًا "، وَقَالَ ابْنُ مَنْصُورٍ شُعْبَةُ : عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ،
اسحاق بن ابراہیم اور اسحاق بن منصور نے کہا: ہمیں نضر بن شمیل نے خبر دی، انھوں نے کہا: ہمیں شعبہ نے خبر دی، انھوں نے کہا: ہمیں شعبہ نے خبر دی، انھوں نے کہا: ہمیں محمد نے، جو ابن زیاد ہے، حدیث سنائی، انھوں نے کہا، میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گزشتہ رات ایک سرکش جن مجھ پر حملے کرنے لگا تا کہ میری نماز توڑ دے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے میرے قابو میں کر دیا تو میں نے زور سے اس کا گلا گھونٹا اور یہ ارادہ کیا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ صبح کو تم سب دیکھ سکو، پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کا یہ قول یاد آگیا: اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو (تو میں نے اسے چھوڑ دیا) اور اللہ نے اس (جن) کو رسوا کر کے لوٹا دیا۔ ابن منصور نے کہا: شعبہ نے محمد بن زیاد سے روایت کی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گزشتہ رات ایک سرکش جن میری طرف بڑھا تاکہ میری نماز توڑ دے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اسے میرے قابو میں دے دیا تو میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور میں نے یہ ارادہ بھی کر لیا تھا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ تم سب صبح اس کو دیکھ سکو، پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کا یہ قول یاد آ گیا اور میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی حکومت دے، جو میرے سوا کسی کے لیے ممکن نہ ہو، اس طرح اللّٰہ نے اس جن کو ناکام و نامراد لوٹا دیا۔ ابن منصور نے شعبہ سے حدثنا محمد کی بجائے شعبہ عن محمد بن زیاد کہا ہے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1209  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے دوران سرکش جن کا گلا گھونٹ دیا اور اس کو مسجد کے ستون کے ساتھ باندھنے کا ارادہ فرمایا اس سے ثابت ہوا کہ نماز کے اندر ضرورت کے تحت کچھ عمل و حرکت جائز ہے نیز نماز کے دوران ہی آپﷺ کا دھیان حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کی طرف چلا گیا اس سے معلوم ہوا اگر نماز میں دھیان کسی چیز کی طرف اچانک چلا جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1209