صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
161. بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ:
باب: بچوں کے وضو کرنے کا بیان۔
وَمَتَى يَجِبُ عَلَيْهِمُ الْغَسْلُ وَالطُّهُورُ وَحُضُورِهِمِ الْجَمَاعَةَ وَالْعِيدَيْنِ وَالْجَنَائِزَ وَصُفُوفِهِمْ.
‏‏‏‏ اور ان پر غسل اور وضو اور جماعت، عیدین، جنازوں میں ان کی حاضری اور ان کی صفوں میں شرکت کب ضروری ہو گی اور کیونکر ہو گی۔
حدیث نمبر: 857
حَدَّثَنَا بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنِي غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ الشَّيْبَانِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، قَالَ:" أَخْبَرَنِي مَنْ مَرَّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ مَنْبُوذٍ، فَأَمَّهُمْ وَصَفُّوا عَلَيْهِ"، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَمْرٍو، مَنْ حَدَّثَكَ؟ فَقَالَ: ابْنُ عَبَّاسٍ.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے سلیمان شیبانی سے سنا، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی جو (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اکیلی الگ تھلگ ٹوٹی ہوئی قبر پر سے گزر رہے تھے وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھے ہوئے تھے۔ سلیمان نے کہا کہ میں نے شعبی سے پوچھا کہ ابوعمرو آپ سے یہ کس نے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1037  
´قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
شعبی کا بیان ہے کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک قبر الگ تھلگ دیکھی تو اپنے پیچھے صحابہ کی صف بندی کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ شعبی سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی۔ تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی الله عنہما نے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1037]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ لوگ باب کی حدیث کاجواب یہ دیتے ہیں کہ یہ نبی اکرمﷺ کے لیے خاص تھا کیونکہ مسلم کی روایت میں ہے (إن هذه القبور مملوؤة مظالم على أهلها وأن الله ينورها لهم بصلاة عليهم) ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی صلاۃ قبرکو منورکرنے کے لیے تھی اوریہ دوسروں کی صلاۃ میں نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا قبرپر صلاۃِجنازہ پڑھنا مشروع نہیں جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ قبرپر صلاۃِجنازہ پڑھی آپ نے انھیں منع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ جائزہے اور اگریہ آپ ہی کے لیے خاص ہوتادوسروں کے لیے جائزنہ ہوتا توآپ انھیں ضرور منع فرما دیتے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1037   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 857  
857. حضرت شعبی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے اس شخص نے خبر دی جو نبی ﷺ کی معیت میں ایک ایسی قبر سے گزرے جو دوسری قبروں سے الگ تھلگ تھی، رسول اللہ ﷺ نے ان کی امامت کرائی اور انہوں نے صف بندی کی۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے ابوعمرو سے سوال کیا کہ تجھے کس نے بیان کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے خبر دی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:857]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت فرمایا ہے کہ بچے اگرچہ نابالغ ہوں مگر8-10 سال کی عمر میں جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو ان کو وضو کرنا ہوگا اور وہ جماعت و عیدین وجنائز میں بھی شرکت کر سکتے ہیں جیسا کہ یہاں اس روایت میں حضرت ابن عباس ؓ کا ذکر ہے جوابھی نابالغ تھے مگر یہاں ان کا صف میں شامل ہونا ثابت ہے پس اگرچہ بچے بالغ ہونے پر ہی مکلف ہوں گے مگر عادت ڈالنے کے لیے نابالغی کے زمانہ ہی سے ان کو ان باتوں پر عمل کرانا چاہیے حضرت مولانا وحید الزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ حضرت امام بخاری ؒ نے صاف یوں نہیں کہا کہ لڑکوں پر وضو واجب ہے یا نہیں کیونکہ صورت ثانی میں لڑکوں کی نماز بے وضو درست ہوتی اور صورت اولی میں لڑکوں کو وضو اور نماز کے ترک پر عذاب لازم آتا صرف اس قدر بیان کر دیا جتنا حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے آنحضرت ﷺ کے زمانے میں نماز وغیرہ میں شریک ہوتے اور یہ ان کی کمال احتیاط ہے۔
اہل حدیث کی شان یہی ہونی چاہیے کہ آیتِ کریمہ ﴿لَاتُقَدِّمُوابَینَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُولِه﴾ (الحجرات: 1)
(للہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو)
کے تحت صرف اسی پر اکتفا کریں جو قرآن وحدیث میں وارد ہو آگے بے جا رائے، قیاس، تاویل فاسدہ سے کام نہ لیں خصوصاً نص کے مقابلہ پر قیاس کرنا ابلیس کا کام ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 857