صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
163. بَابُ انْتِظَارِ النَّاسِ قِيَامَ الإِمَامِ الْعَالِمِ:
باب: لوگوں کا نماز کے بعد امام کے اٹھنے کا انتظار کرنا۔
حدیث نمبر: 866
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي هِنْدُ بِنْتُ الْحَارِثِ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهَا" أَنَّ النِّسَاءَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ إِذَا سَلَّمْنَ مِنَ الْمَكْتُوبَةِ قُمْنَ، وَثَبَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ صَلَّى مِنَ الرِّجَالِ مَا شَاءَ اللَّهُ، فَإِذَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ الرِّجَالُ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے ہند بنت حارث نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں فرض نماز سے سلام پھیرنے کے فوراً بعد (باہر آنے کے لیے) اٹھ جاتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مرد نماز کے بعد اپنی جگہ بیٹھے رہتے۔ جب تک اللہ کو منظور ہوتا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے تو دوسرے مرد بھی کھڑے ہو جاتے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1040  
´نماز سے فارغ ہو کر مردوں سے پہلے عورتوں کے واپس جانے کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (نماز سے) سلام پھیرتے تو تھوڑی دیر ٹھہر جاتے، لوگ سمجھتے تھے کہ یہ اس وجہ سے ہے تاکہ عورتیں مردوں سے پہلے چلی جائیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1040]
1040۔ اردو حاشیہ:
اسلامی معاشرے میں مردوں اور عورتوں کا بغیر پردے کے بے ہنگم ازدحام اور میل جول قطعاً پسندیدہ نہیں ہے۔ اور مسلمان حضرات و خواتین کو چاہیے کہ شبہے اور تہمت کے مواقع سے ہمیشہ دور رہیں اور اختلاط سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1040   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث932  
´نماز کے بعد امام کے دائیں یا بائیں طرف پھرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو عورتیں آپ کے سلام پھیرتے ہی کھڑی ہو جاتیں، اور آپ کھڑے ہونے سے پہلے اپنی جگہ پر تھوڑی دیر ٹھہرے رہتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 932]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عورتوں کا مردوں کے ساتھ جماعت میں شریک ہونامسنون ہے۔
تاہم ان کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔
دیکھئے: (سنن ابی داؤد، الصلاۃ، باب ماجاء فی خروج النساء إلی المسجد، حدیث: 567)

(2)
سلام پھیرنے کے بعد عورتوں کے جلدی اٹھ جانے میں یہ حکمت ہے۔
کہ مردوں سے اختلاط نہ ہو۔
عورتوں کی صفیں بھی اسی لیے پیچھے ہوتی ہیں۔
کہ وہ جلدی مسجد سے نکل جایئں۔
آجکل عورتیں جمعہ کی نماز کےلئے مسجد میں اور عیدین کی نماز کے لئے عید گاہ میں جاتی ہیں۔
ان کی جگہیں اور دروازے اگرچہ مردوں سے الگ ہوتے ہیں۔
لیکن باہر نکل کر گزرگاہوں میں مردوں سے اختلاط ہوجاتا ہے۔
جس سے بچنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا ظاہر بات ہے کہ یہ بات شرعاً نا مناسب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 932   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 866  
866. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں خواتین فرض نماز سے سلام پھیرنے کے فورا بعد اٹھ جاتی تھیں جبکہ رسول اللہ ﷺ اور مرد حضرات جس قدر اللہ کو منظور ہوتا نماز کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ اٹھتے تو دوسرے مرد بھی کھڑے ہو جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:866]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی عورتوں کا جماعت میں شریک ہونا ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 866   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:866  
866. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں خواتین فرض نماز سے سلام پھیرنے کے فورا بعد اٹھ جاتی تھیں جبکہ رسول اللہ ﷺ اور مرد حضرات جس قدر اللہ کو منظور ہوتا نماز کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ اٹھتے تو دوسرے مرد بھی کھڑے ہو جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:866]
حدیث حاشیہ:
(1)
بنیادی طور پر اس حدیث کا تعلق عنوان سابق سے ہے کہ مستورات مسجد میں نماز کے لیے آ سکتی ہیں۔
(2)
اس حدیث سے ایک نیا مسئلہ معلوم ہوا کہ ہنگامی حالات کے پیش نظر لوگوں کو چاہیے کہ وہ نماز سے فراغت کے بعد اپنے امام کے اٹھنے کا انتظار کریں۔
جب وہ اٹھے تو دوسرے لوگ بھی کھڑے ہو کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوں۔
امام بخاری ؒ نے اس پر متنبہ کرنے کے لیے ایک عنوان قائم کر دیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 866