صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة -- مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
32. باب اسْتِحْبَابِ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ لِمَنْ يَمْضِي إِلَى جَمَاعَةٍ وَيَنَالُهُ الْحَرُّ فِي طَرِيقِهِ:
باب: سخت گرمی میں ظہر ٹھنڈے وقت پڑھنے کا بیان اس کے لئے جو جماعت کے ساتھ نماز کے لئے جائے اور راہ میں گرمی زیادہ محسوس کرے۔
حدیث نمبر: 1400
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُهَاجِرًا أَبَا الْحَسَنِ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: أَذَّنَ مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالظُّهْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْرِدْ أَبْرِدْ، أَوَ قَالَ: انْتَظِرِ، انْتَظِرِ، وَقَالَ: " إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ، فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلَاةِ "، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ.
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مؤذن ظہر کے اذان دینے لگا تو آپ نے فرمایا: (وقت کو) ٹھنڈا ہونے دو، ٹھنڈا ہونے دو۔ یا فرمایا: انتظار کرو، انتظار کر و۔ اور فرمایا: بلاشبہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹوں میں سے ہے، اس لیے جب گرمی شدید ہو جائے تو نماز ٹھنڈے وقت تک مؤخر کرو۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: (نماز میں اتنی تاخیر کی گئی) حتی کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے ظہر کی اذان دینا چاہی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھنڈا وقت ہونے دو، ٹھنڈا وقت ہونے دو۔ یا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انتظار کرو، انتظار کرو۔ اور فرمایا: گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ کے سبب سے ہے، اس لیے جب گرمی شدید ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے، حتیٰ کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1400  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
فَيئَ:
سورج ڈھلنےکے بعد کے سایہ کو فیئَ کہتے ہیں۔
(2)
تلول:
تل کی جمع ہے،
مٹی یا ریت کا ٹیلہ۔
فوائد ومسائل:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جس موسم میں جہاں نصف النہار کے وقت سخت گرمی ہو اور گرمی کی شدت کی وجہ سے فضا جہنم بن رہی ہو تو ظہر کی نماز تاخیر کر کے ایسے وقت پڑھی جائے جب گرمی کی شدت ٹوٹ جائے اور وقت کچھ ٹھنڈا ہو جائےاور جمہور کا یہی موقف ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس کو جامعت کے لیے دور سے آنے والوں کے لیے مانتے ہیں اس کے مطابق امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے باب قائم کیا ہے لیکن یہ تاویل درست نہیں ہے اور ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراد اتنا ہونا چاہیے کہ دیواروں کا سایہ اس قدر ہو جائے کہ اس میں آنا جانا ممکن ہو یہ مقصد نہیں ہے گرمی ختم ہو جائے اور زمین ٹھنڈی ہو جائے کیونکہ اگر یہ مقصد ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو سجدہ کرنے کے لیے زمین پر کپڑا بچھانے کی ضرورت پیش نہ آتی اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو گرمی کی شکایت کرنے کی ضرورت لا حق نہ ہوتی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1400