صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة -- مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
33. باب اسْتِحْبَابِ تَقْدِيمِ الظُّهْرِ فِي أَوَّلِ الْوَقْتِ فِي غَيْرِ شِدَّةِ الْحَرِّ:
باب: جب گرمی نہ ہو تو ظہر اول وقت پڑھنی چاہیئے۔
حدیث نمبر: 1406
وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، وَعَوْنُ بْنُ سَلَّامٍ ، قَالَ عَوْنٌ: أَخْبَرَنَا وقَالَ ابْنُ يُونُسَ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ خَبَّابٍ ، قَالَ: " أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ حَرَّ الرَّمْضَاءِ، فَلَمْ يُشْكِنَا "، قَالَ زُهَيْرٌ: قُلْتُ لِأَبِي إِسْحَاق: أَفِي الظُّهْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: أَفِي تَعْجِيلِهَا؟ قَالَ: نَعَمْ.
) زہیر نے کہا: ہمیں ابو اسحاق نے سعید بن وہب سے حدیث سنائی اور انھوں نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے ریت کی گرمی کی شکایت کی تو آپ نے ہماری شکایت کا ازالہ نہ فرمایا۔ زہیر نے کہا: میں نے ابو اسحاق سے پوچھا: کیا ظہر کے بارے میں (شکایت کی؟) انھوں نے جواب دیا: ہاں۔ میں نےکہا: کیا اس کو جلد ی پڑھنے (کی مشقت) کے بارے میں؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں۔
حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر گرمی کی حدت و تیزی کی شکایت کی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری شکایت کو دور نہ فرمایا، زہیر کہتے ہیں میں نے ابو اسحاق سے پوچھا، کیا ظہر کی نماز کی شکایت کی تھی؟ اس نے کہا، ہاں۔ میں نے کہا کیا جلد نماز پڑھنے کی، اس نے کہا ہاں۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 498  
´ظہر کے اول وقت کا بیان۔`
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (تیز دھوپ سے) زمین جلنے کی شکایت کی، تو آپ نے ہماری شکایت کا ازالہ نہیں کیا ۱؎، راوی ابواسحاق سے پوچھا گیا: (یہ شکایت) اسے جلدی پڑھنے کے سلسلہ میں تھی؟ انہوں نے کہا ہاں، (اسی سلسلہ میں تھی)۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 498]
498 ۔ اردو حاشیہ: اگرچہ آپ گرمیوں کی شدت میں نماز ظہر کو کچھ مؤخر کرتے تھے جیسا کہ آگے آرہا ہے، مگر اس وقت تک بھی زمین گرم ہی رہتی ہے، لہٰذا آمدورفت اور نماز کی ادائیگی میں گرم زمین تکلیف دیتی تھی۔ ظاہر ہے نماز کو اتنا مؤخر نہیں کیا جا سکتاکہ عصر کا وقت ہو جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 498   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث675  
´نماز ظہر کا وقت۔`
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ریت کی گرمی (زمین کی تپش) کی شکایت کی، تو آپ نے ہماری شکایت کو نظر انداز کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 675]
اردو حاشہ:
(1)
 (الرَّمْضَاءِ)
اس ریت کو کہتے ہیں جو سورج کی دھوپ سے تپ کر گرم ہوچکی ہو۔

(2)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی درخواست یہ تھی کہ چونکہ دھوپ سے ریت گرم ہوجاتی ہے تو گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز ادا کرتے وقت سجدہ کرنا دشوار ہوتا ہے۔
اگر نماز کچھ مؤخر کرلی جائے جس سے ریت کی حرارت میں کمی ہوجائے تو مناسب ہوگا لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ درخواست منظور نہ فرمائی بلکہ گرمی کے موسم میں بھی جلدی نماز پڑھاتے رہے۔

(3)
دوسری احادیث میں گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھنے کا ذکر ہے۔ (جیسا کہ آگے باب 4 میں احادیث آ رہی ہے۔)
اس کا مطلب یہ ہے کہ تھوڑی سی تاخیر ہو سکتی ہے لیکن مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔
ایسا نہ ہو کہ تاخیر کرتے کرتے نماز کو اس کے آخر وقت میں ادا کریں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 675