صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة -- مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
37. باب فَضْلِ صَلاَتَيِ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ وَالْمُحَافَظَةِ عَلَيْهِمَا:
باب: صبح اور عصر کی نماز کی فضیلت اور ان کی محافظت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1432
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ، وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ، فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ، كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ ".
ابو زناد نے اعراج سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے ایک دوسرے کے پیچھے تمھارے درمیان آتے ہیں اور فجر کی نماز اور عصری نماز کے وقت وہ اکٹھے ہو جاتے ہیں، پھر جنھوں نے تمھارے درمیان رات گزاری ہوتی ہے وہ اوپر چلے جاتےہیں، ان سے ان کا رب پوچھتا ہے، حالانکہ وہ ان سے زیادہ جانتا ہے: تم میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟ وہ جواب دیتےہیں: ہم انھیں (اس حالت میں) چھوڑ کر آئے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ہم ان کے پاس (کل عصر کے وقت) اس حالت میں پہنچے تھے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس فرشتے رات اور دن کے وقت باری، باری آتے ہیں اور فجر کی نماز اور عصر کی نماز کے وقت وہ اکھٹے ہو جاتے ہیں، پھر جنہوں نے رات گزاری ہوتی ہے وہ اوپر چلے جاتے ہیں تو ان سے ان کا رب پوچھتا ہے، حالانکہ وہ ان سے زیادہ جانتا ہے، تم میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟ تو وہ جواب دیتے ہیں ہم ان کو (صبح) چھوڑ کر آئے ہیں جبکہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ہم ان کے پاس (عصر کے وقت) پہنچے تھے جبکہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 98  
´باجماعت نماز کی فضیلت`
«. . . 331- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار ويجتمعون فى صلاة الفجر وصلاة العصر ثم يعرج الذين باتوا فيكم فيسألهم وهو أعلم بهم كيف تركتم عبادي فيقولون تركناهم وهم يصلون وآتيناهم وهم يصلون. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے درمیان رات اور دن کو فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں اور فجر کی نماز اور عصر کی نماز میں اکٹھے ہوتے ہیں، پھر جنہوں نے تمہارے درمیان رات گزاری (ہوتی ہے صبح کو) اوپر چڑھ جاتے ہیں تو ان سے (اللہ تعالیٰ) پوچھتا ہے اور وہ ان سے زیادہ جانتا ہے! میرے بندوں کو تم کس حال پر چھوڑ کر آئے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں: ہم انہیں اس حالت میں چھوڑ آئے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 98]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 555، ومسلم 632، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا کہ قرآن، حدیث اور اجماعِ صحابہ واجماعِ تابعین سے ثابت ہے۔
➋ فرشتوں کا آسمان پر جانا اور آنا روشنی کی رفتار کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ ایسی رفتار سے آتے جاتے ہیں جو روشنی کی رفتار سے بے حد زیادہ ہے۔ ہم اس کی کیفیت سے بے خبر ہیں۔
➌ اہل ایمان کے دل ودماغ میں ہر وقت نماز کا خیال رہتا ہے۔
➍ باجماعت نماز میں فرشتے بھی حاضر ہوتے ہیں۔
➎ غیب پر ایمان لانا ضروری ہے بشرطیکہ قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔
➏ فجر اور عصر کی نمازیں بہت زیادہ فضیلت واہمیت کی حامل ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 331   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1432  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
يَتَعَاقَبُونَ:
یکے بعد دیگرے یا باری باری آتے ہیں،
ایک گروہ کی ڈیوٹی ختم ہوتی ہے اور دوسرے کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے،
دوسرے گروہ کی آمد کے بعد پہلا گروہ جاتا ہے،
اس طرح فرشتوں کی ڈیوٹی صبح اور عصر کے وقت تبدیل ہو جاتی ہے تاکہ صبح کے وقت وہ اللہ کے بندوں کو نرم وگرم بستروں اور پیاری اور میٹھی نیند کو اللہ کی رضا کی خاطر چھوڑتا دیکھ لیں اور عصر کے وقت فکر معاش اور کاروبار کو چھوڑتا دیکھ لیں اور صبح وعصر کی نماز کی اس اہمیت کی بنا پر یہ بندے میں دیدار الٰہی کی صلاحیت واستعداد پیدا کرتی ہیں۔
فوائد ومسائل:
جمہور عرب اور اکثر نحوی جن کے سرخیل امام النحو سیبویہ ہیں کا نظریہ ہے کہ اگر فاعل ظاہر ہو تثنیہ ہو یا جمع تو فعل مفرد لائیں گے اس کے ساتھ تثنیہ یا جمع کی ضمیر لانا جائز نہیں ہے لیکن بنو حارث بن کعب کے نزدیک علامت تثنیہ اور جمع لانا جائز ہے۔
(يَتَعَاقَبُونَ فِيكُم مَلَائِكَةُ)
انہیں کے قول کے مطابق ہے اس لیے اخفش اور اس کے ہمنوا قرآن مجید کی آیت:
﴿وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ کو بھی اس پر محمول کرتے ہیں کہ:
﴿الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ فاعل ظاہر اور ﴿وَأَسَرُّوا﴾ فعل کی جمع ہے اس کے ساتھ ضمیر جمع موجود ہے اس طرح ملائکہ فاعل ظاہرہے اور (يتعاقبون)
فعل جمع ہے لیکن سیبویہ اور اس کے ہمنوا ﴿الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ اور ملائکہ کو فعل سے متصل ضمیرجمع سے بدل بناتے ہیں ان کو فاعل تسلیم نہیں کرتے لیکن اگلی روایت میں:
(الملائكة يتعاقبون)
ہے۔
(الملائكة)
مبتدا اور ﴿يتعاقبون﴾ فعل فاعل ہے۔
﴿ملائكة﴾ کی مناسبت سے ضمیر فاعل جمع لائی گئی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1432