صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة -- مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
39. باب وَقْتِ الْعِشَاءِ وَتَأْخِيرِهَا:
باب: عشاء کا وقت اور اس میں تاخیر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1443
وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي بِصَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَهِيَ الَّتِي تُدْعَى الْعَتَمَةَ، فَلَمْ يَخْرُجْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: " نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِأَهْلِ الْمَسْجِدِ حِينَ خَرَجَ عَلَيْهِمْ: مَا يَنْتَظِرُهَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ غَيْرُكُمْ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَفْشُوَ الإِسْلَامُ فِي النَّاسِ "، زَادَ حَرْمَلَةُ فِي رِوَايَتِهِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَذُكِرَ لِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تَنْزُرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الصَّلَاةِ، وَذَاكَ حِينَ صَاحَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ.
عمرو بن سوّاد عامری اور حرملہ بن یحییٰ دونوں نے کہا: ہمیں ابن وہب نے خبر دی، انھوں نے کہا: مجھے یونس نےخبر دی کہ انھیں ابن شہاب نے خبر دی، کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز خوب اندھیرا ہونے تک مؤخر فرمائی اور اسی نماز کو عتمہ (گہری تاریکی کے وقت کی نماز) کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس وقت تک) گھر سے نہ نکلے یہاں تک کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: (مسجد میں آنے والی) عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور نکل کر مسجد کے حاضرین سے فرمایا: اہل زمین میں سے تمھارے سوا اس نماز کا اور کوئی بھی انتظار نہیں کررہا اور یہ لوگوں میں (مدینہ سے باہر) اسلام پھیلنے سے پہلے کی بات ہے۔ حرملہ نے اپنی روایت میں اضافہ کیا کہ ابن شہاب نے کہا: مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارے لیے مناسب نہ تھا کہ تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے لیے اصرار کرتے۔ یہ تب ہوا جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے پکارا۔ (انھوں نے غالباً یہ سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں یا سو گئے ہیں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ کسی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز، جسے عتمہ کے نام سے پکارا جاتا ہے، کے لیے آنے میں تاخیر کر دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نہ نکلے حتیٰ کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، (مسجد میں آنے والی) عورتیں اور بچے سو گئے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نکل کر مسجد کے حاضرین سے فرمایا: اہل زمین سے تمہارے سوا اس نماز کا کوئی بھی منتظر نہیں ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ ابھی لوگوں میں اسلام نہیں پھیلا تھا، حرملہ نے اپنی روایات میں ابن شہاب سے یہ اضافہ بیان کیا: مجھے بتایا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے روانہ تھا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے لیے اصرار کرتے یہ اس وقت فرمایا جب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلند آواز سے پکارا۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 483  
´نماز عشاء کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کو مؤخر کیا یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو آواز دی کہ عورتیں اور بچے سو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، اور فرمایا: تمہارے سوا کوئی نہیں جو اس نماز کو (اس وقت) پڑھ رہا ہو، ان دنوں اہل مدینہ کے سوا کوئی اور نماز پڑھنے والا نہیں تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 483]
483 ۔ اردو حاشیہ:
➊ضرورت پڑنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سے پکارنا جائز تھا۔ آپ کی موجودگی میں بلاضرورت اونچی آواز سے بولنا گناہ تھا، گستاخی تھی اور موجب حرمان تھا، پھر یہ واقعہ سورۂ حجرات کے نزول سے پہلے اسلام کے ابتدائی ایام کا ہے جبکہ اونچی آواز سے پکارنے کی ممانعت اور اس پر عمل کی بربادی کی وعید سورۂ حجرات میں آئی ہے۔
عورتیں اور بچے سوگئے۔ یعنی وہ عورتیں جو باجماعت نماز کے لیے مسجد میں آئی تھیں اور ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بجے بھی تھے۔ یا گھروں میں عورتیں اور بچے سوگئے۔ دروازہ کھلوانا مشکل ہو گا۔ لیکن پہلا مفہوم ہی درست ہے۔
تمہارے علاوہ کوئی شخص یہ نماز نہیں پڑھتا۔ کیونکہ عیسائی و یہودی تو عشاء کی نماز پڑھتے ہی نہیں، صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں اور اس وقت اسلام مدینے سے باہر نہیں پھیلا تھا یا پھر مکے میں چند مجبورومقہور مسلمان تھے جن کو علانیہ نمازباجماعت پڑھنے کی ہمت ہی نہ تھی، چھپ چھپا کر پڑھتے تھے۔ اس جملے کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اتنی تاخیر کے ساتھ مسجد نبوی کے علاوہ کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی کیونکہ مدینہ منورہ کی دیگر مساجد میں لوگ جلدی نماز پڑھ کر سوجاتے تھے۔ اس صورت میں تم سے مراد مسجد نبوی کے نمازی ہوں گے، پہلی صورت میں عام مسلمان مراد ہوں گے۔ واللہ أعلم۔
➍اس حدیث سے بظاہر امام صاحب کا استدلال واضح نہیں ہے لیکن آپ کا یہ فرمانا: تمہارے علاوہ کوئی شخص یہ نماز نہیں پڑھتا اس امت کی خصوصیت واضح کرتا ہے، اس لیے اس نماز کا اہتمام ضروری ہے۔ نماز کے لیے منتظر رہنا اس کے اہتمام میں شامل ہے، لہٰذا یہ عمل اس کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 483