صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة -- مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
54. باب اسْتِحْبَابِ الْقُنُوتِ فِي جَمِيعِ الصَّلاَةِ إِذَا نَزَلَتْ بِالْمُسْلِمِينَ نَازِلَةٌ:
باب: جب مسلمانوں پر کوئی بلا نازل ہو تو نمازوں میں بلند آواز سے قنوت پڑھنا اور اللہ کے ساتھ پناہ مانگنا مستحب ہے اور اس کا محل و مقام آخری رکعت کے رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور صبح کی نماز میں قنوت پر دوام مستحب ہے۔
حدیث نمبر: 1540
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَنَّهُمَا سَمِعَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ حِينَ يَفْرُغُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ، مِنَ الْقِرَاءَةِ، وَيُكَبِّرُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ: اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ كَسِنِي يُوسُفَ، اللَّهُمَّ الْعَنْ لِحْيَانَ، وَرِعْلًا، وَذَكْوَانَ، وَعُصَيَّةَ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، ثُمَّ بَلَغَنَا، أَنَّهُ تَرَكَ ذَلِكَ لَمَّا أُنْزِلَ لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ سورة آل عمران آية 128 ".
یونس بن یزید نے ابن شہاب سے روایت کرتے ہوئے خبر دی، کہا: مجھے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبدالرحمان بن عوف نے بتایا کہ ان دونوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر کی قراءت سے فارغ ہوتے اور (رکوع میں جانے کے لیے) تکبیر کہتے تو سر اٹھانے کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد (اللہ نے سن لیا جس نے اس کی حمد کی، اے ہمارے رب! اور ٰحمدتیرے ہی لیے ہے) کہتے، پھر حالت قیام ہی میں آپ فرماتے: اے اللہ!ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مومنوں میں سے ان لوگوں کو جنھیں (کافروں نے) کمزور پایا، نجات عطا فرما۔ اے اللہ!قبیلہ مضر پر اپنے روندنے کو سخت کر، ان پر اپنے اس مؤاخذے کو یوسف رضی اللہ عنہ کے زمانے کے قحط کی طرح کر د۔اے اللہ! الحیان، رعل، ذکوان اور عصیہ پر، جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، لعنت نازل کر۔پھر ہم تک یہ بات پہنچی کہ اس کے بعد جب آپ پر یہ آیت اتری: آپ کا اس معاملے سے کوئی سروکار نہیں، (اللہ تعالیٰ) چاہے ان کو توبہ کا موقع عطا کرے، چاہے ان کو عذاب دے کہ و ہ یقینا ظلم کرنے والے ہیں تو آپ نے یہ دعا چھوڑ دی۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت صبح کی نماز کی قرأت سے فارغ ہوکر اللّٰہ اکبر کہتے اور (رکوع سے) سر اٹھاتے تو فرماتے: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ پھر کھڑے کھڑے دعا کرتے: اے اللّٰہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور کمزور سمجھے جانے والے مومنوں کو نجات دے۔ اے اللّٰہ! مضریوں کو سخت طریقہ سے روند ڈال اور یہ پکڑ یوسف عَلیہِ السَّلام کے دور کی خشک سالی کی صورت میں ہو۔ اے اللّٰہ! الحیان، رعل، ذکوان اور عصیہ جس نے اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی پر لعنت فرما۔ پھر ہم کو خبر پہنچی کہ جب یہ آیت اتری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ میں کوئی اختیار نہیں، اللّٰہ چاہے تو ان کی توبہ قبو کرلے، چاہے تو ان کو عذاب دے، کیونکہ وہ ظالم ہیں۔ (آل عمران: ۱۲۸) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا چھوڑ دی۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1074  
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر میں دوسری رکعت سے اپنا سر اٹھایا تو آپ نے دعا کی: اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور لوگوں کو دشمنوں کے چنگل سے نجات دے، اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ سخت کر دے، اور ان کے اوپر یوسف علیہ السلام (کی قوم) جیسا سا قحط مسلط کر دے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1074]
1074۔ اردو حاشیہ:
➊ الفاظ سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ یہ قنوت نازلہ ہے جو آپ ہمیشہ نہیں فرماتے تھے۔
➋ یوسف علیہ السلام کے قحط سے تشبیہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ کئی سال جاری رہا اور ایسا ہی ہوا، ان کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی، ان پر قحط سالی آئی اور مضر والے کئی برس تک قحط کی بلا میں گرفتار رہے یہاں تک کہ وہ ہڈیاں، چمڑے اور مردار تک کھانے لگے۔ پھر جب قریش اس قحط سے عاجز آگئے تو ان کا نمائندہ اور سردار ابوسفیان مدینہ منورہ حاضر ہوا اور قحط کے خاتمے کے لیے دعا کی اپیل کی تو نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مشروط طور پر قحط کے خاتمے کی دعا فرما دی اور قحط دور ہو گیا۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 1007]
➌ صبح کی نماز میں قنوت نازلہ جائز ہے۔
➍ قنوت نازلہ رکوع کے بعد ہو گی۔
➎ کسی کا نام لے کے دعا یا بددعا کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی جیسا کہ احناف کا موقف ہے۔
➏ قنوت نازلہ بلند آواز سے کرنا مستحب ہے۔ صحیح بخاری میں صراحت ہے کہ آپ بلند آواز سے قنوت کراتے تھے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4560] نیز سنن أبي داود کی روایت میں ہے: «يُؤَمِّنُ مَن خَلفَه» آپ کے پیچھے والے آمین کہتے تھے۔ [سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1443]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1074   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1244  
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے اپنا سر اٹھاتے تو فرماتے: «اللهم أنج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام وعياش بن أبي ربيعة والمستضعفين بمكة اللهم اشدد وطأتك على مضر واجعلها عليهم سنين كسني يوسف» اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور حال مسلمانوں کو نجات دیدے، اے اللہ! تو اپنی پکڑ قبیلہ مضر پر سخت کر دے، اور یوسف علیہ السلام کے عہد کے قحط کے سالوں کی طرح ان پر بھی قحط مسلط کر دے) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1244]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قنوت نازلہ آخری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھی جاتی ہے۔

(2)
اس میں امام بلند آواز سے مناسب دعایئں کرتا ہے۔

(3)
قنوت نازلہ میں مظلوم مسلمانوں کا نام لے کر ان کے حق میں اور کافروں کا نام لے کر ان کے خلاف دعا کی جا سکتی ہے۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، التفسیر، باب ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْئٌ﴾ حدیث: 4560 وصحیح المسلم، المساجد، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات۔
۔
۔
، حدیث: 675)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1244   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1540  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جب مسلمان کسی مصیبت کا شکار ہوں مثلاً دشمن کا خوف ہو خشک سالی ہو کوئی وباء پھیل جائے تو تمام نمازوں میں قنوت نازلہ کرنا بہتر ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور صاحبین کے نزدیک قنوت نازلہ نمازوں میں منسوخ ہے علامہ ابن ہمام نے قنوت نازلہ کو شریعت مستمرہ قراردیا ہے کیونکہ یہ خلفائے راشدین سے ثابت ہے اور بئرمعونہ میں شہید ہونے والے ستر قاریوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک دعا فرمائی اور پھر چھوڑ دی کیونکہ مقصد پورا ہو گیا تھا اس لیے قنوت نازلہ کا تعلق ضرورت سے ہے اگر مسلمان خوف زدہ ہوں مصیبت سے دوچار ہوں تو دعا کی جائے گی ورنہ نہیں۔
نوٹ:
۔
(لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ)
سےثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختار کل یا مختار مطلق نہیں ہیں علامہ سعیدی نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے لیکن جواب کی بجائے غیر شعوری طور پر اس بات کو تسلیم کر لیا ہے علامہ آلوسی حنفی کی عبارت نقل کر کے ترجمہ لکھتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو توبہ کے لیے مجبور کرنے پر قادر نہیں نہ توبہ سے روکنے پر عذاب دینے پر قادر ہیں نہ معاف کرنے پر یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔
علامہ اسماعیل حقی کی عبارت نقل کر کے ترجمہ لکھتے ہیں۔
آیت کا معنی یہ ہے کہ کفار کے معاملات کا اللہ تعالیٰ علی الاطلاق مالک ہے خواہ انہیں ہلاک کردے یا سزادے اسلام لانے پر ان کی توبہ قبول کرے یا اسلام نہ لانے پر ان کو عذاب اخروی دے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان معاملات کے مالک نہیں ہیں(شرح صحیح مسلم2/329)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1540