صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة -- مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
54. باب اسْتِحْبَابِ الْقُنُوتِ فِي جَمِيعِ الصَّلاَةِ إِذَا نَزَلَتْ بِالْمُسْلِمِينَ نَازِلَةٌ:
باب: جب مسلمانوں پر کوئی بلا نازل ہو تو نمازوں میں بلند آواز سے قنوت پڑھنا اور اللہ کے ساتھ پناہ مانگنا مستحب ہے اور اس کا محل و مقام آخری رکعت کے رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور صبح کی نماز میں قنوت پر دوام مستحب ہے۔
حدیث نمبر: 1559
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِيهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَرْمَلَةَ ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الأَسْقَعِ ، عَنْ خُفَافِ بْنِ إِيمَاءٍ ، بِمِثْلِهِ إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَقُلْ: فَجُعِلَتْ لَعْنَةُ الْكَفَرَةِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ.
عمران کے بجائے) عبدالرحمان بن حرملہ نے حنظلہ بن علی بن اسقع سے اور انھوں نے حضرت خفاف بن ایماء رضی اللہ عنہ سے اسی کے مانند روایت کی، سوائے اس کے کہ انھوں نے کافروں پر اسی کے سبب لعنت کی گئی کے الفاظ نہیں کہے۔
امام صاحب ایک دوسری سند سے خفاف بن ایماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں لیکن اس میں خفاف کا یہ قول نہیں بیان کیا کہ اس وجہ سے کافروں پر لعنت بھیجی جاتی ہے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1559  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس باب کی روایات سے صبح کی نماز میں ہمیشہ قنوت کرنا ثابت نہیں ہوتا۔
لیکن پاک وہند کے نسخوں میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور صبح کی نماز میں قنوت کا ہمیشہ کرنا مستحب ہونا اور اس کا موقع ومحل آخری رکعت میں رکوع کے بعد سر اٹھانے کے بعد ہے اور اس کا بلند پڑھنا بہتر ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صبح کی نماز میں قنوت سنت ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قنوت نہیں ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ قنوت کا مدار مسلمانوں کی ضرورت وحاجت پر ہے۔
اگر مصیبت شدید ہو یا خطرہ زیادہ ہو اکثر یا سب نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھی جائے گی۔
اگرخطرہ اور مصیبت کم ہوتو ایک یا دو نمازوں میں قنوت کر لیں گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1559