صحيح البخاري
كِتَاب الْجُمُعَةِ -- کتاب: جمعہ کے بیان میں
9. بَابُ مَنْ تَسَوَّكَ بِسِوَاكِ غَيْرِهِ:
باب: جو شخص دوسرے کی مسواک استعمال کرے۔
حدیث نمبر: 890
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، قَالَ: قَالَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" دَخَلَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَهُ سِوَاكٌ يَسْتَنُّ بِهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: أَعْطِنِي هَذَا السِّوَاكَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، فَأَعْطَانِيهِ فَقَصَمْتُهُ، ثُمَّ مَضَغْتُهُ فَأَعْطَيْتُهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَنَّ بِهِ وَهُوَ مُسْتَسْنِدٌ إِلَى صَدْرِي".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا کہ ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے میرے باپ عروہ بن زبیر نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر (ایک مرتبہ) آئے۔ ان کے ہاتھ میں مسواک تھی جسے وہ استعمال کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری کی حالت میں ان سے کہا عبدالرحمٰن یہ مسواک مجھے دیدے۔ انہوں نے دے دی۔ میں نے اس کے سرے کو پہلے توڑا یعنی اتنی لکڑی نکال دی جو عبدالرحمٰن اپنے منہ سے لگایا کرتے تھے، پھر اسے چبا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دانت صاف کئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے سینے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 890  
890. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ آئے اور ان کے پاس مسواک تھی جسے وہ استعمال کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا تو میں نے ان سے کہا: اے عبدالرحمٰن! یہ مسواک مجھے دے دو۔ انہوں نے مسواک مجھے دے دی۔ میں نے اسے (دانتوں سے) توڑا، پھر اسے چبا کر رسول اللہ ﷺ کو دے دی۔ آپ نے اس سے دانت صاف کیے جبکہ آپ اس وقت میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:890]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دوسرے کی مسواک اس سے لے کر استعمال کی جا سکتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دوسرا آدمی مسواک کو اپنے منہ سے چبا کر اپنے بھائی کو دے سکتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت اپنے کسی بھائی سے جن پر ہم کو بھروسہ واعتماد ہو کوئی ضرورت کی چیز اس سے طلب کر سکتے ہیں۔
تعاون باہمی کا یہی مفہوم ہے۔
اس حدیث سے حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ مرض الموت میں ان کو آنحضرت ﷺ کی خصوصی خدمات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
خدا کی مار ان بدشعاروں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی شان اقدس میں کلمات گستاخی استعمال کر کے اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 890   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:890  
890. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ آئے اور ان کے پاس مسواک تھی جسے وہ استعمال کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا تو میں نے ان سے کہا: اے عبدالرحمٰن! یہ مسواک مجھے دے دو۔ انہوں نے مسواک مجھے دے دی۔ میں نے اسے (دانتوں سے) توڑا، پھر اسے چبا کر رسول اللہ ﷺ کو دے دی۔ آپ نے اس سے دانت صاف کیے جبکہ آپ اس وقت میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:890]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ جمعہ کے دن مسواک ضرور کی جائے۔
اگر اپنے پاس نہیں ہے تو کسی دوسرے کی مسواک کو اس کی اجازت سے استعمال کر لیا جائے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی دوسرے کی استعمال شدہ مسواک استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ تعاون کے طور پر کسی دوسرے کو مسواک نرم کر کے دی جا سکتی ہے۔
علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کا مقصد تھوک کی طہارت بیان کرنا ہے لیکن اس کا محل کتاب الوضوء ہے۔
(2)
ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن ؓ سے مسواک لے کر رسول اللہ ﷺ کو دی، لیکن بیماری سے نقاہت کی بنا پر مسواک کرنے میں آپ کو دشواری محسوس ہوئی۔
حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ میں آپ کے لیے اسے نرم کر دیتی ہوں۔
پھر حضرت عائشہ ؓ نے مسواک کے سخت ریشوں کو اپنے دانتوں سے کاٹ کر پھینک دیا اور خود چبا کر انہیں نرم کیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اسے استعمال فرمایا۔
جب رسول اللہ ﷺ مسواک سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے ہاتھ کی انگلی سے اوپر کی طرف اشارہ فرمایا۔
اس کے بعد اپنی جان، جان آفریں کے حوالے کر دی۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میرے اور رسول اللہ ﷺ کے لعاب کو باہم اکٹھا رکھنے کا سبب پیدا کر دیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4449)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 890