صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا -- مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
11. باب اسْتِحْبَابِ تَحِيَّةِ الْمَسْجِدِ بِرَكْعَتَيْنِ وَكَرَاهَةِ الْجُلُوسِ قَبْلَ صَلاَتِهِمَا وَأَنَّهَا مَشْرُوعَةٌ فِي جَمِيعِ الأَوْقَاتِ:
باب: دو رکعات تحیۃ المسجد پڑھنا مستحبب ہے اور دو رکعت پڑھے بغیر مسجد میں بیٹھنے کے مکروہ ہونے اور ان دو رکعتوں کے تمام اوقات میں مشروع ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1655
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى الأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنِ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمِ بْنِ خَلْدَةَ الأَنْصَارِيِّ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَالِسٌ بَيْنَ ظَهْرَانَي النَّاسِ، قَالَ: فَجَلَسْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَرْكَعَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ تَجْلِسَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُكَ جَالِسًا، وَالنَّاسُ جُلُوسٌ، قَالَ: " فَإِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ، فَلَا يَجْلِسْ حَتَّى يَرْكَعَ رَكْعَتَيْنِ ".
محمد بن یحییٰ بن حبان نے عمرو بن سلیم بن خلدہ انصاری سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی، کہا: میں مسجد میں داخل ہوا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے کہا: تو میں بھی بیٹھ گیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھیں بیٹھنے سے پہلے دو رکعات نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا ہے؟" میں نے عرض کی: اےا للہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے آپ کو بیٹھتے دیکھا ہے اور لوگ بھی بیٹھے تھے (اس لئے میں بھی بیٹھ گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں آئے تو دو رکعت نماز پڑھےبغیر نہ بیٹھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں اس حال میں داخل ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے تو میں بھی بیٹھ گیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا ہے؟ تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اور لوگوں کو بیٹھتے ہوئے دیکھا (اس لیے میں بیٹھ گیا) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایک مسجد میں آئے تو دو رکعت نماز پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 148  
´تحیتہ المسجد کا بیان`
«. . . 399- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا دخل أحدكم المسجد فليركع ركعتين قبل أن يجلس. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 148]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 444، ومسلم 714، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا مستحب ہے۔
➋ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں داخل ہو کر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے۔ اس حدیث سے امام نسائی رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ دو رکعتیں پڑھے بغیر بیٹھنا جائز ہے۔ دیکھئے [سنن النسائي ج2 ص53-55 ح732 وسنده صحيح، وهو متفق عليه]
➌ عمر بن عبید اللہ بن معمر التمیمی دو رکعتیں پڑھے بغیر مسجد میں بیٹھ جاتے تھے تو اس پر ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہ اللہ اعتراض کرتے تھے۔ اس روایت کے آخر میں امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: «و ذالك حسن و ليس بواجب» اور یہ (دو رکعتیں پڑھنا) مستحب ہے اور واجب نہیں ہے۔ [المؤطا 162/1 ح 388 و سنده صحيح]
◄ ابوحفص عمر بن عبیداللہ بن معمر رحمہ اللہ کو حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن عساکر نے کہا: «أحد وجوه قريش وكرمائها، كان جوادًا ممدحًا وولي فتوحًا كثيرة وولي البصرة لعبدالله بن الزبير» [تاريخ دمشق 48/190]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 399   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 731  
´مسجد میں بیٹھنے سے پہلے نماز پڑھنے کے حکم کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہیئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 731]
731 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ان دو رکعتوں کی مشروعیت واضح ہے۔ اس نماز کو تحیۃ المسجد کہتے ہیں۔ چونکہ مسجد نماز کے لیے بنائی گئی ہے، لہٰذا مسجد میں آنے والا شخص سب سے پہلے نماز پڑھے۔ اوقات مکروہہ میں داخل ہو تو امام شافعی رحمہ اللہ پھر بھی دو رکعت پڑھنا جائز سمجھتے ہیں۔ وہ صلاۃ سبی (جس نماز کا کوئی خاص سبب ہو) کو اوقات مکروہہ میں جائز سمجھتے ہیں۔ مطلق نفل منع ہیں، محدثین کی اکثریت یہی رائے رکھتی ہے جب کہ علمائے احناف مطلق نہی کے پیش نظر ہر قسم کی نفل نماز کو ان اوقات میں منع سمجھتے ہیں۔ ظاہر الفاظ ان کی تائید کرتے ہیں مگر امام شافعی رحمہ اللہ کے قول پر عمل کرنے سے تمام احادیث قابل عمل ٹھہرتی ہیں اور مختلف روایات میں واقع تعارض اور اختلاف بھی ختم ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم۔
بیٹھنے سے پہلے اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیٹھنے کے بعد نہ پڑھے بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ داخل ہوتے ہی پڑھے۔ چونکہ مقصد یہ ہے کہ مسجد میں آکر نماز پڑھے، لہٰذا کوئی ضروری نہیں کہ مخصوص نفل ہی پڑھے بلکہ فرض، سنت، نفل جو بھی پڑھ لے کر کفایت ہو جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کے وقت مسجد میں تشریف لاتے تھے۔ کہیں منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ تحیۃ المسسجد پڑھے ہوں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 731   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1013  
´مسجد میں داخل ہونے والا دو رکعت پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1013]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس نماز کو تحیۃ المسجد کہا جاتا ہے۔

(2)
مسجد میں داخل ہوکر بیٹھنے سے پہلے اگر کوئی اور نماز مثلاً سنت یا فرض پڑھ لیں۔
تو تحیۃ المسجد بھی ادا ہوجاتی ہے۔
الگ سےپڑھنے کی ضرورت نہیں۔

(3)
بعض علماء مکروہ اوقات میں بھی تحیۃ المسجد پڑھنے کے قائل ہیں۔
ان کی دلیل حدیث کا عموم ہے۔
کہ جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت پڑھے۔
اس عموم میں کراہت کے اوقات بھی داخل ہیں۔
نبی کریم ﷺنے کسی وقت کا استثناء نہیں کیا۔
جب کہ دوسرے علماء اس عموم میں کراہت کے اوقات کوداخل نہیں کرتے۔
اس لئے ان کے نزدیک اوقات کراہت میں دیگر نفلی نمازوں کے علاوہ تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھنا بھی جائز نہیں۔
ایک تیسری رائے یہ ہےکہ پڑھنے کا جواز ہے لیکن بچنا بہتر ہے واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1013   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 209  
´مساجد کا بیان`
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی جب (بھی) مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت (نفل) ادا کر لے۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 209]
209 فوائد و مسائل:
➊ حدیث میں جن نوافل کے پڑھنے کا حکم ہے انھیں «تحية المسجد» کہتے ہیں۔
➋ بعض علماء کے نزدیک یہ واجب ہیں جبکہ جمہور علماء انہیں مستحب کہتے ہیں۔
➌ حدیث کے ظاہر الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے بعض علماء نے ان نوافل کو مکروہ اوقات میں پڑھنے کی بھی اجازت دی ہے لیکن بعض علماء اوقات ممنوعہ میں ممنوع کہتے ہیں۔
➍ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خطیب منبر پر خطبہ دے رہا ہو تب بھی مسجد میں داخل ہونے والا دو رکعت پڑھ کر بیٹھے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 209   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1655  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مسجد کو اللہ تعالیٰ سے خصوصی نسبت ہے جس کی بنا پر اسے بیت اللہ (اللہ کا گھر)
کا نام دیا جاتا ہے اس لیے اس کے حقوق اور اس میں داخلے کے آداب اور اس کی تعظیم و تکریم کا یہ بھی تقاضا ہے کہ انسان اس میں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ادا کرے یہ گویا بارگاہ الٰہی کی سلامی ہے اس لیے اس کو تَحِیَّةُ الْمَسْجِدِ کا نام دیا جاتا ہے جمہور آئمہ کے نزدیک چونکہ یہ عمل مسجد کے ادب و تعظیم کے تقاضا سے ہے اس لیے استحبابی عمل ہے لیکن ظاہریہ کے نزدیک یہ فرض ہے واضح رہے کہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد فرض سنت یا نفل نماز پڑھ لینے سے تَحِیَّةُ الْمَسْجِد کا حق ادا ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے مقصود مسجد کی تعظیم و تکریم ہے جو حاصل ہو گئی ہے۔
(2)
اوقات نھی میں سببی نماز پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے،
امام ابو حنیفہ،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
اور ایک قول کی رو سے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اوقات نھی میں کسی نماز کو سببی ہو یا غیر سببی جائز نہیں سمجھتے۔
لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ایک قول کی رو سے جسے حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سببی نماز کو اوقات نھی میں جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ:
(إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ)
عام ہے اور نھی کا تعلق مطلق نماز سے ہے یعنی جس کا سبب نہ ہو اس لیے صبح اور عصر کی نماز امام کے ساتھ دوبارہ پڑھنا جائز ہے عصر کے بعد نماز جنازہ پڑھنا اور طواف کی رکعات پڑھنا جائز ہے،
جس سے ثابت ہوتا ہے اوقات نھی میں سببی نماز پڑھنا صحیح ہے لیکن بلا ضرورت سبب پیدا نہیں کرنا چاہیے۔
(3)
مسجد میں داخلہ کے آداب و حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ انسان با وضو ہو کر داخل ہوتا کہ بیٹھنے سے پہلے تَحِیَّةُ الْمَسْجِد پڑھ سکے۔
تَحِیَّةُ الْمَسْجِد بیٹھنے سے پہلے اگر بھول کر بیٹھ جائے تو کھڑا ہو کر پڑھ لے۔
(4)
جب سورج طلوع ہو رہا ہو یا زوال ہو رہا ہو یا سورج غروب ہو رہا ہو تو پھر طلوع اور غروب اور استوا کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ ان اوقات کے بارے میں خصوصی طور پر نہی وارد ہے۔
(5)
مسجد حرام کا تَحِیَّةُ الطَّوَاف ہے اگر کسی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو تو پھر کم ازکم دو رکعتیں ہی پڑھ لے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1655