صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا -- مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
13. باب اسْتِحْبَابِ صَلاَةِ الضُّحَى وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ وَأَكْمَلَهَا ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَأَوْسَطَهَا أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ أَوْ سِتٌّ وَالْحَثِّ عَلَى الْمُحَافَظَةِ عَلَيْهَا:
باب: نماز چاشت کے استحباب کا بیان کم از کم اس کی دورکعتیں اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعتیں اور درمیانی چار یا چھ ہیں اور ان کو ہمیشہ پڑھنے کی ترغیبیں۔
حدیث نمبر: 1668
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّ أَبَاهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ وَحَرَصْتُ عَلَى أَنْ أَجِدَ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ يُخْبِرُنِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَّحَ سُبْحَةَ الضُّحَى، فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يُحَدِّثُنِي ذَلِكَ، غَيْرَ أَنَّ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَتْنِي، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَتَى بَعْدَ مَا ارْتَفَعَ النَّهَارُ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَأُتِيَ بِثَوْبٍ فَسُتِرَ عَلَيْهِ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، لَا أَدْرِي أَقِيَامُهُ فِيهَا أَطْوَلُ، أَمْ رُكُوعُهُ، أَمْ سُجُودُهُ، كُلُّ ذَلِكَ مِنْهُ مُتَقَارِبٌ "، قَالَتْ: فَلَمْ أَرَهُ سَبَّحَهَا قَبْلُ، وَلَا بَعْدُ، قَالَ الْمُرَادِيُّ: عَنْ يُونُسَ، وَلَمْ يَقُلْ: أَخْبَرَنِي.
حرملہ بن یحیٰٰ اور محمد بن سلمہ مرادی دونوں نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انھوں نے کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے عبداللہ بن حارث کے بیٹے نے حدیث سنائی کہ ان کے والد عبداللہ بن حارث بن نوفل نے کہا: میں نے (سب سے) پوچھا اور میری یہ شدید خواہش تھی کہ مجھے کوئی ایک شخص مل جائے جو مجھے بتائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز پڑھی ہے۔مجھے ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی نہ ملا جو مجھے یہ بتاتا۔انھوں نے مجھے خبر دی کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن بلند ہونے کے بعد تشریف لائے، ایک کپڑا لا کر آپ کو پردہ مہیا کیاگیا، آپ نے غسل فرمایا، پھر آپ کھڑ اہوئے اور آٹھ رکعتیں پڑھیں۔میں نہیں جانتی کہ ان میں آپ کا قیام (نسبتاً) زیادہ لمبا تھا یا آپ کا رکوع یا آپ کا سجود یہ سب (ارکان) قریب قریب تھے اور انھوں نے (ام ہانی رضی اللہ عنہا) نے بتایا، میں نے ا س سے پہلے اور اس کے بعد آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے یہ نماز پڑھی ہو۔ (محمد بن مسلمہ) مرادی نے اپنی روایت میں "یونس سے روایت ہے" کہا۔"مجھے یونس نے خبر دی" نہیں کہا۔
عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں میں نے پوچھا اور میری یہ آرزو اور خواہش تھی کہ مجھے کوئی ایسا شخص مل جائے جو مجھے بتائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز پڑھی ہے تو مجھے ام ہانی کے سوا کوئی نہ ملا جو مجھے یہ بتاتا۔ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے خبر دی کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن بلند ہونے کے بعد آئے تو کپڑا لا کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کو پردہ مہیا کیا گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور آٹھ رکعات پڑھیں، میں نہیں جانتی کہ ان میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کا قیام طویل تھا یا آپصلی اللہ علیہ وسلم رکوع یا سجدہ یہ سب ارکان قریب قریب تھے اور ام ہانی نے بتایا میں نے اس سے پہلے اور اس کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ راوی نے اپنی روایت میں اَخْبَرَنِیْ یونس کی جگہ عَنْ یُوْنُسُ کہا۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 415  
´آٹا لگے ہوئے برتن میں پانی بھر کر غسل کرنے کا بیان۔`
ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، آپ ایک ٹب سے غسل کر رہے تھے جس میں گندھا ہوا آٹا لگا تھا، اور آپ کو (فاطمہ رضی اللہ عنہا ۱؎) کپڑا سے پردہ کیے ہوئے تھیں، تو جب آپ غسل کر چکے، تو آپ نے چاشت کی نماز پڑھی، اور میں نہیں جان سکی کہ آپ نے کتنی رکعت پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 415]
415۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت کے الفاظ: «فَمَا أَدْرِي كَمْ صَلَّى» میں نہیں جانتی کہ آپ نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔ شاذ ہیں، اگرچہ محقق کتاب نے ساری روایت ہی کو حسن قرار دیا ہے۔ تاہم درست اور صحیح بات یہ ہے کہ صحیحین کی روایت کے مطابق خود ام ہانی نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ آپ نے آٹھ رکعت نماز ادا فرمائی تھی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی الفاظ کو سنن نسائی میں شاذ قرار دیا ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث226 اور اس فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 415   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 226  
´غسل کرتے وقت پردہ کرنے کا بیان۔`
ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں غسل کرتے ہوئے ملے، فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے سے آڑ کیے ہوئے تھیں، (ام ہانی کہتی ہیں) میں نے سلام کیا ۱؎، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا: ام ہانی ہوں، تو جب آپ غسل سے فارغ ہوئے، تو کھڑے ہوئے اور ایک ہی کپڑے میں جسے آپ لپیٹے ہوئے تھے آٹھ رکعتیں پڑھیں۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 226]
226۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن تھیں۔
➋ یہ آٹھ رکعت نماز صلاۃ ضحیٰ (چاشت کی نماز) تھی۔
➌ ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے، بشرطیکہ اس سے کندھوں سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک جسم ڈھانپ لیا جائے، باقی جسم ننگا ہو تو کوئی حرج نہیں۔
➍ غسل کرنے والا حسب ضرورت کلام کر سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 226   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث465  
´وضو اور غسل کے بعد رومال استعمال کرنے کا بیان۔`
ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہانے کا ارادہ کیا، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ پر پردہ کئے رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہا کر اپنا کپڑا لیا، اور اسے اپنے جسم پر لپیٹ لیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 465]
اردو حاشہ:
(1)
پانی کی طرف جانے کا مفہوم یہ ہے کہ گھر میں ایک طرف برتن میں نہانے کے لیے پانی رکھا گیا اور آپﷺ نہانے کے لیےتشریف لے گئے۔

(2)
نہاتے وقت جسم پر چھوٹا کپڑا موجود ہو تب بھی مزید پردہ کرنا یا غسل خانے میں کپڑا پہن کر نہانا افضل ہے تاہم اگر پردے میں نہاتے وقت جسم پر کوئی کپڑا نہ ہو تب بھی جائز ہے۔

(3)
نہانے کے بعد جب کپڑا جسم سے لپیٹا جائے تو وہ جسم پر موجود قطرات کو جذب کرلیتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کپڑے یا تولیے سے جسم خشک کرنا جائز ہے۔
اس میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 465   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1290  
´نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔`
ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز آٹھ رکعت پڑھی، آپ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ احمد بن صالح کی روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز پڑھی، پھر انہوں نے اسی کے مثل ذکر کیا۔ ابن سرح کی روایت میں ہے کہ ام ہانی کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اس میں انہوں نے چاشت کی نماز کا ذکر نہیں کیا ہے، باقی روایت ابن صالح کی روایت کے ہم معنی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1290]
1290. اردو حاشیہ:
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی تضعیف کی ہے، مطلب یہ ہے کہ روایت تو صحیح ہے کیونکہ بخاری و مسلم میں یہ روایت موجود ہے، لیکن ان میں ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ کے الفاظ نہیں ہیں۔ یہ الفاظ منکر ہیں اور اس کی وجہ سے روایت ضعیف ہے، ورنہ اصل واقعہ صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1290   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1668  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ ان لوگوں کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ اُم ہانی کے گھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے شکرانہ کے طور پر چاشت کی نماز پڑھی تھی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1668